اتباعِ اقبال رح
ہندو مسلم اتحاد کے زریں زمانے یعنی 1920ء میں انگریزوں کا بائیکاٹ کیا جارہا
تھا جس کا اثر علی گڑھ اور لاہور کے اسلامیہ کالج پر بھی پڑا، سرکاری گرانٹ
اور سرکاری اداروں سے الحاق کرنے کے خلاف بڑے زور و شور سے ملک کے طول
و عرض میں آوازیں اٹھائی گئی ، اس سلسلے میں انجمنِ حمایتِ اسلام کے ممتاز رکن
علامہ اقبال رح اپنے گرامی نامہ مورخہ 28 اکتوبر 1920 میں خان محمد نیازالدین خان
مرحوم کو لکھتے ہیں کہ:
میری تو رائے ہے کہ گرانٹ اور الحاق کے بارے میں جو فتوی علماء کا ہو اس پر
عمل کرنا چاہئے، چونکہ واجب الطاعتہ امام اس وقت موجود نہیں اس واسطے جمہور
مشاہیر علماے ہند کا فتوی ضروی ہوگا، صرف ایک عالم کا فتوی اس بارے میں
کافی نہیں، خواہ وہ صیح ہی کیوں نہ ہو، علماء کی غالب جماعت کا اس پر اتفاق ہونا
چاہیئے، ذاتی رائے میری خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو، اگر علماء کا فتوی میری رائے
کے خلاف ہو تو سر تسلیمِ خم ہے۔ { مکاتیبِ اقبال ص 35}
اتباعِ اقبال رح
ہندو مسلم اتحاد کے زریں زمانے یعنی 1920ء میں انگریزوں کا بائیکاٹ کیا جارہا
تھا جس کا اثر علی گڑھ اور لاہور کے اسلامیہ کالج پر بھی پڑا، سرکاری گرانٹ
اور سرکاری اداروں سے الحاق کرنے کے خلاف بڑے زور و شور سے ملک کے طول
و عرض میں آوازیں اٹھائی گئی ، اس سلسلے میں انجمنِ حمایتِ اسلام کے ممتاز رکن
علامہ اقبال رح اپنے گرامی نامہ مورخہ 28 اکتوبر 1920 میں خان محمد نیازالدین خان
مرحوم کو لکھتے ہیں کہ:
میری تو رائے ہے کہ گرانٹ اور الحاق کے بارے میں جو فتوی علماء کا ہو اس پر
عمل کرنا چاہئے، چونکہ واجب الطاعتہ امام اس وقت موجود نہیں اس واسطے جمہور
مشاہیر علماے ہند کا فتوی ضروی ہوگا، صرف ایک عالم کا فتوی اس بارے میں
کافی نہیں، خواہ وہ صیح ہی کیوں نہ ہو، علماء کی غالب جماعت کا اس پر اتفاق ہونا
چاہیئے، ذاتی رائے میری خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو، اگر علماء کا فتوی میری رائے
کے خلاف ہو تو سر تسلیمِ خم ہے۔ { مکاتیبِ اقبال ص 35}
ہندو مسلم اتحاد کے زریں زمانے یعنی 1920ء میں انگریزوں کا بائیکاٹ کیا جارہا
تھا جس کا اثر علی گڑھ اور لاہور کے اسلامیہ کالج پر بھی پڑا، سرکاری گرانٹ
اور سرکاری اداروں سے الحاق کرنے کے خلاف بڑے زور و شور سے ملک کے طول
و عرض میں آوازیں اٹھائی گئی ، اس سلسلے میں انجمنِ حمایتِ اسلام کے ممتاز رکن
علامہ اقبال رح اپنے گرامی نامہ مورخہ 28 اکتوبر 1920 میں خان محمد نیازالدین خان
مرحوم کو لکھتے ہیں کہ:
میری تو رائے ہے کہ گرانٹ اور الحاق کے بارے میں جو فتوی علماء کا ہو اس پر
عمل کرنا چاہئے، چونکہ واجب الطاعتہ امام اس وقت موجود نہیں اس واسطے جمہور
مشاہیر علماے ہند کا فتوی ضروی ہوگا، صرف ایک عالم کا فتوی اس بارے میں
کافی نہیں، خواہ وہ صیح ہی کیوں نہ ہو، علماء کی غالب جماعت کا اس پر اتفاق ہونا
چاہیئے، ذاتی رائے میری خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو، اگر علماء کا فتوی میری رائے
کے خلاف ہو تو سر تسلیمِ خم ہے۔ { مکاتیبِ اقبال ص 35}
0 comments so far,add yours