- اجتہاد کےلغوی معنی:
اجتہاد کے لغوی معنی ہیں: کسی کام کی انجام دہی میں تکلیف و مشقت اٹھاتے ہوئے اپنی پوری کوشش صرف کرنا۔
گویا اجتہاد اس کوشش کو کہتے ہیں جو کسی کام کی تکمیل میں مشقت برداشت
کرتے ہوئے کی جائے، اگر بغیر دقت اور تکلیف کے کوشش ہو گی تو اسے اجتہاد
نہیں کہیں گے
- اصطلاحی معنی
علامہ زبیدی رح فرماتے ہیں:
"الإجتهاد بذل الوسع في طلب الأمر والمراد به رد القضية من طريق القياس الى الكتاب و السنة"
ترجمہ : اجتہاد کہتے ہیں کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا
اور اس سے مراد ہے کسی قضیہ (مسئلہ) کو قیاس کے طریقے سے کتاب و سنّت کی
طرف لوٹانا. [تاج العروس : 2/330]
- اجتہاد کا شرعی حکم
جمہور مسلمین اجتہاد کی حجیت کے قائل ہیں، اجتہاد کی حجیت کتاب و سنت سے ثابت ہے، ارشادِ باری تعالٰیٰ ہے:
يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا {4:59}
اے ایمان والو! حکم مانو اللہ (تعالٰیٰ) کا اور حکم مانو
رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اور اولولاَمر کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر
جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے "لوٹاؤ" اللہ (تعالٰیٰ) اور رسول (صلی اللہ
علیہ وسلم) کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر، اور قیامت کے
دن پر، یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.(سورہ-النساء:٥٩)
اس آیت میں ادلہ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے: اَطِيْعُوا
اللّٰهَ سے مراد "قرآن" ہے، اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ سے مراد "سنّت" ہے، اور
اُولِي الْاَمْرِ سے مراد "علماء و فقہاء" ہیں، ان میں اگر اختلاف و تنازع
نہ ہو بلکہ اتفاق ہوجاتے تو اسے "اجماع_فقہاء" کہتے ہیں.(یعنی اجماع_فقہاء
کو بھی مانو). اور اگر ان اُولِي الْاَمْرِ(علماء و فقہاء) میں اختلاف ہو
تو ہر ایک مجتہد عالم کا اپنی راۓ سے اجتہاد کرتے اس نئے غیر واضح اختلافی
مسئلے کا قرآن و سنّت کی طرف "لوٹانا" اور استنباط کرنا "اجتہاد_شرعی" یا "قیاس_مجتہد" کہتے ہیں.
- مستند حدیث:
مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) نے حضرت معاذ
ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا معلم (تعلیم دینے والا) اور حاکم بناکر
بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:
ترجمہ: جب حضور اکرم نے حضرت معاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے
کا ارادہ کیا فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش
ہو جائے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا
اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا کہ اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی
نہ پاؤ تو انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی
کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینہ
کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کیلئے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے
رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز
کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔
(سنن ابوداؤد:جلد سوم: فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی
رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان; جامع ترمذی، كِتَاب الْأَحْكَامِ عَنْ
رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي
الْقَاضِي كَيْفَ يَقْضِي،حدیث نمبر:۱۲۴۹، شاملہ، موقع الإسلام
0 comments so far,add yours