دلم در عاشقی آورہ شد آوارہ تر بادا
تنم از بیدلی یبچارہ شد یبچارہ تر بادا

میرا دل عاشقی میں آوارہ ہو گیا ہے ، خدا کرے یہ اور زیادہ آوارہ ہوتا جائے
میرا بدن بے دلی سے کمزور ہو گیا ہے ، یہ کمزور ہوتا چلا جائے

بہ تاراج عزیزان زلف تو عیارے دارد
بہ خونریز غریباں چشم تو عیارہ تر بادا

اپنے عزیزوں کی غارت گری میں تیری زلف عیار نے بڑا کام کیا ہے
غریبوں کا خون بہانے کو تیری نظریں اور زیادہ عیار ہو جائیں

رخت تازہ ست و بہر مردن خود تازہ تر خواہم
دلت خارہ ست و بہر کشتن من خارہ تر بادا

تیرا رخ تازہ ہے لیکن مجھے مارنے کو اور زیادہ تازہ ہو جائے
تیر ا دل پتھر ہے لیکن مجھے مارنے کو اور زیادہ سخت ہو جائے

گر اے زاہد ، دعای خیر میگوئی مرا ، این گو
کہ آں آوارہ از کوی بتان آوراہ تر بادا

اے عبادت گزاردعا دینی ہے تو یہ کہہ
کہ مجھے جیسا آورہ محبوب کی گلی میں زیادہ آوراہ ہو جائے

ہمہ گویند کز خونخواریش خلقے بہ جاں آمد
من ایں گویم کہ بہرِ جاں من خونخوارہ تر بادا

سب کہتے ہیں کہ وہ معشوق کی خونخواری سے دل و جان سے تنگ ہیں
میں یہ کہتا ہون کہ وہ میری جان کے لئے اور زیادہ خونخوار ہو جائے

دلِ من پارہ گشت از غم ، نہ زانگونہ کہ بہ گردد
وگر جانان بدین شاد است ، یا رب ، پارہ تر بادا

میر ا دل غم سے پارہ ہو گیا ہے ،نہیں کہتا کہ ٹھیک ہو
اگر یہ حالت محبوب کو پسند ہے تو اور زیادہ پارہ ہو جائے

چو با تر دامنی خو کرد خسرو با دو چشم تر
بہ آبِ چشم پاکاں دامنش ہموارہ تر بادا

اے خسرو تیری دو آنکھوں نے دامن تر کر دیا ہے
ان آٓنسو وں سے تیر ا پاک دامن اور زیادہ ہموار ہو جائے

امیر خسرو رحمتہ الله علیہ

0 comments so far,add yours