تیری نظروں کا فسوں، دشمنِ دیں ہے ساقیورنہ پینے میں کوئی بات نہیں ہے ساقیجو ترے جام سے سرشار نہیں ہے ساقیوہ بشر کون سی بستی کا مکیں ہے ساقیاس مئے ناب سے کیا فائدہ، جب ساغر میںجلوہ افروز تری چینِ جبیں ہے ساقیابھی باقی ہے الَم ہائے فراواں کا خمارابھی ہلکی سی کسک دل کے قریں ہے ساقینظر اٹھتی ہی نہیں ہے ترے میخانے سےورنہ دنیا کی ہر اِک چیز حسیں ہے ساقیبچ کے جائیں گے کہاں عالمِ بالا کے مکیںآسماں بھی ترے کوچے کی زمیں ہے ساقیآنکھ نے کھائے ہیں سو بار نظر کے دھوکےدل بدستور محبت کا امیں ہے ساقیفقط آنسو ہی نہیں حسنِ وفا کا زیوریہ تبسّم بھی محبت کا نگیں ہے ساقی(صوفی تبسّم)
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments so far,add yours