جناب ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم صاحب ایم اے، پی ایچ ڈی نے ایک رسالہ "اقبال اور ملّا"  کے نام سے لکھ کر "بزم اقبال" لاہور کی طرف سے شائع کیا، اور علامہ اقبال رح کے کندھے پر بندوق رکھ کر علمائے کرام کو نشانہ بنانا شروع کیا۔  اس رسالے پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا عبدالماجد دریا بادی رح نے لکھا ہے کہ۔ اس رسالے میں حضرت اقبال کے وہ سارے شعر اپنے تبصرہ و تحشیہ کے اضافے کے ساتھ اکٹھے کردیئے گئے ہیں جو انہوں نے ملّا کے ہجو و تفضیح میں کہے ہیں، اور اسطرح جو انٹی ملّا فرنٹ پاکستان میں قائم ہوا ہے، اس کے ہاتھ ایک زبردست حربہ دے دیا گیا ہے، یہ اشعار یقینا علامہ اقبال ہی کے ہیں، خلیفہ صاحب یا کسی کے گھڑے ہوئے نہیں، تاہم انہیں ان کے سیاق و سباق سے الگ کرکے نمک مرچ لگا کر ایک جگہ جمع کردینے سے پڑھنے والے پر جو اثر پڑتا ہے وہ ہر گز وہ نہیں جو اصلی کلام اقبال کے مجموعے کے پرھنے سے پیدا ہوتا ہے، اس لئے یہ طریقِ انتخاب و تدوین نہ زیادہ ذمہ دارانہ ہے اور نہ پوری طرح دیانت دارانہ، اور پھر اس کی اشاعت بجائے کسی فردِ واحد کے ایک نیم سرکاری ادارے کی طرف سے ہونا تو اور بھی غضب کی بات ہے۔ اقبال نے بے شک " ملّا " پر نکتہ چینی کی ہے لیکن ملّا سے ہمیشہ ان کی مراد  " کٹھ ملّا" سے ہے، اور پھر ایسی ہی نکتہ چینی بلکہ شاید اس سے بھی شدید انہوں نے تہذیب جدید کے فرزندوں پر بھی تو کی ہے، اب کوئی منچلا اگر یہ کرے کہ " اقبال  اور مسٹر" کے عنوان سے اس آخری قسم کا سارا کلام اپنے حاشیوں کے ساتھ اکٹھا کردے تو خلیفہ صاحب کیا رائے اس کے متعلق قائم کریں گے

{ صدقِ جدید، 17 جون 1955}

0 comments so far,add yours