آپ نہ طالب ہین کَہیں دے لوکاں طالب کردے ہُو
چاون کھیپاں کردے سیپاں قہر توں ناہیں ڈردے ہُو
عِشق مجازی تِلکن بازی پَیر اَوّلے دَھردے ہُو
اوہ شرمندے ہوسن باہو اندر روز حَشر دے ہُو

عِلم اور رُوحانیت کی رِوایت سَند بہ سند چلتی ہے،اُستاد وہی بن سکتا ہے جو پہلے کبھی طالبِ عِلم رہا ہو اور اُس نے کِسی اُستاد سے پَڑھا ہو۔مَسندِ اِرشاد پر وہی بیٹھ سکتا ہے جو پہلے کِسی کا مُرید رہا ہو اور کِسی مُرشد کی زیرِ نِگرانی رُوحانی تربیت پائی ہو۔۔ہمیشہ سے یہی طریقہ چلا آ رہا ہے۔
یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض ولیوں کو کِسی متوفی ولی کی رُوح سے براہِ راست فیض پہنچتا ہے اور اِلقاء و اِلہام کے ذریعہ اِن کو ہدایات مِلتی ہیں اور اِن کی تربیت کی جاتی ہے جیسے خود حضرت سُلطان باہو تھے۔اِسے اویسی طریقہ کہتے ہیں۔دونوں صورتوں میں ایک بات مشترک ہے کہ کوئی نہ کوئی ہادی و مُربی ضرور ہوتا ہے جِس سے ہِدایت و تربیت مِلتی ہے۔اِس کے برعکس کچھ لوگ اپنے طور پر خودبخود شیخِ طریقت بَن جاتے ہیں یا بنا دئیے جاتے ہیں جبکہ وہ کہیں کے تربیت یافتہ نہیں ہوتے۔لوگوں سے نذرانے وَصول کرتے ہیں،اُلٹے سیدھے تعویز لِکھتے ہیں اور اپنی شہرت کے لئے مُختلف ترکیبیں اِستعمال کرتے ہیں۔اِن لوگوں کو اللہ کے قہر اور عذاب سے ڈَرنا چاہئیے کیونکہ تعلیم و تربیت اور خاص طور پر رُوحانی رہبری میں دوکانداری محض خطا کاری ہے۔۔
حضرت سُلطان باہُو کے دور میں ایک اور گُمراہی نام نہاد صوفیوں میں پیدا ہو گئی تھی۔اپنے تئیں مشائخ کہلاتے ہوئی بھی طوائفوں کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور اِسے عِشقِ مَجازی کا نام دیتے تھے۔کہتے یہ تھے کہ سماع اور حُسنِ ظاہری سے جو کیفیات ہمارے اندر پیدا ہوتی ہیں وہ ہم رُوحانیت اور حُبِ اِلٰہی مین ترقی کے لئے اِس طرف منتقل کر لیتے ہیں۔یہ سب اِن کے حیلے بہانے تھے تا کہ مُرید مطمئن رہیں ورنہ دَر حقیقت محض نفسانی لذت اندوزی کے سامان تھے۔۔حضرت سُلطان باہُو نے اِسے "تلکن بازی" کہا ہے یعنی یہ تو پِھسلنے کا کھیل ہے۔آدمی پِھسلنے والی جگہ پہ کھڑا ہو جائے کہ میں پِھسلتا نہیں ہوں تو یہ اُس کی بُھول ہے۔اللہ کے نبی اور بادشاہ حضرت سلیمان علیہ السلام سے یہ دانائی کی بات منسوب کی جاتی ہے کہ انہوں نے فرمایا"فاحشہ عورت گہری خندق ہے اور بیگانی عورت تنگ گَڑھا ہے۔وہ راہزن کی طرح گھات میں لگی ہے اور بنی آدم میں بدکاروں کا شُمار بَڑھاتی ہے"
قرآنِ مجید میں بے راہ روی کے اِن اطوار کی جامع اور سادہ الفاظ میں مُذمت کی گئی ہے
"اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ۔وہ بے حیائی اور بُری راہ ہے"
اِس بیت میں حضرت سُلطان باہُو نے زرعی معاشرے کے کلچر سے مِثالیں چُنی ہیں جو ان کے مخاطبین کے لئے سامنے کی چیزیں تھیں۔"چاون کھیپاں کردے سیپاں" سیپ پنجابی میں اِس اُجرت یا مزدوری کو کہتے ہیں جو گاؤں کے موچی،تِرکھان اور نائی کاشتکاروں کے ساتھ اپنے کاموں کے عِوض طے کر لیتے ہیں۔ابھی تک پنجاب کے دیہی معاشرے میں یہ سیپ کھیپ کا سِلسلہ جاری ہے۔
تِلکن بازی کی مِثال سے یہ بھی سمجھایا ہے کہ یہ نام کے صُوفی جو عِشقِ مجازی کا نام لے کر لہو و لعب میں مَشغول ہیں،اِن بچوں کی طرح ہیں جو کیچڑ والی جگہ پر پِھسلنے کا کھیل کھیلتے ہیں۔یہ بچوں سے بھی گئے گُزرے سمجھئے کیونکہ بچوں کو تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ پِھسل رہے ہیں مگر یہ لوگ اِتنا بھی نہیں سمجھتے اور خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنے اَصلی مقام پر کھڑے ہیں ۔
سُلطان صاحب اپنے ہی کلچر میں ڈُوب کر جو ابیات لِکھتے اور پَڑھتے ہیں تو یہ بیت اِس کی ایک مِثال ہے۔۔۔

0 comments so far,add yours