اس بستی کے اک کوچے میں،اک انشاء نام کا دیوانہ
اک نار پہ جان کو ہار گیا،مشہور ہے اس کا افسانہ
اس نار میں ایسا روپ نہ تھا،جس روپ سے دن کی دھوپ دبے
اس شہر میں کیا کیا گوری ہے،مہتاب رچے،گلنار لیے
کچھ بات تھی اس کی باتوں میں،کچھ بھید تھے اس کے چتون میں
وہی بھید کے جوگ جگاتے ہیں،کسی چاہنے والے کے من میں
اسے اپنا بنانے کی دھن میں،ہوا آپ ہی آپ سے بیگانہ
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاء نام کا دیوانہ
نہ چنچل کھیل جوانی کے،نہ پیار کی الھڑ گھاتیں تھیں
بس راہ میں ان کا ملنا تھا،یا فون پہ ان کی باتیں تھیں
اس عشق پہ ہم بھی ہنستے تھے،بے حاصل سا بے حاصل تحا
اک زور بپھرتے ساگر میں،نہ کشتی تھی نہ ساحل تھا
جو بات تھی ان کے جی میں تھی جو بھید تھا یکسر انجانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاء نام کا دیوانہ
اک روز مگر برکھا رُت میں وہ بھادوں تھی یا ساون تھا
دیوار پہ بیچ سمندر کے،یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
مستانہ ہاتھ میں ہاتھ دیے،یہ اک گگر پر بیٹھے تھے
یوں شام ہوئی،پھر رات ہوئی،جب سیلانی گھر لوٹ گئی
کیا رات تھی وہ جی چاہتا ہے اس رات پہ لکھیں افسانہ
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاء نام کا دیوانہ
ہاں عمر کا ساتھ نبھانے کے تھے عہد بہت،پیمان بہت
وہ جن پر بھروسہ کرنے میں کچھ سود نہیں نقصان بہت
وہ نار یہ کہہ کر الگ ہوئی،مجبوری ساجن مجبوری
یہ وحشت سے رنجور ہوئے اور رنجوری سی رنجوری؟
اس روز ہمیں معلوم ہوا،اس شخص کا مشکل سمجھانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاء نام کا دیوانہ
گو آگ سے چھاتی جلتی تھی،گو آنکھ سے دریا بہتا تھا
ہر ایک سے دکھ نہیں کہتا تھا،چپ رہتا تھا،غم سہتا تھا
نادان ہیں وہ جو چھیڑتے ہیں اس عالم میں نادانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا،سب اپنوں کو بیگانوں کو
کچھ اور کہو تو سنتا ہوں اس باب میں کچھ مت فرمانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاء نام کا دیوانہ
ابن انشاء
اس بستی کے اک کوچے میں،اک انشاء نام کا دیوانہ
اک نار پہ جان کو ہار گیا،مشہور ہے اس کا افسانہ
اس نار میں ایسا روپ نہ تھا،جس روپ سے دن کی دھوپ دبے
اس شہر میں کیا کیا گوری ہے،مہتاب رچے،گلنار لیے
کچھ بات تھی اس کی باتوں میں،کچھ بھید تھے اس کے چتون میں
وہی بھید کے جوگ جگاتے ہیں،کسی چاہنے والے کے من میں
اسے اپنا بنانے کی دھن میں،ہوا آپ ہی آپ سے بیگانہ
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاء نام کا دیوانہ
نہ چنچل کھیل جوانی کے،نہ پیار کی الھڑ گھاتیں تھیں
بس راہ میں ان کا ملنا تھا،یا فون پہ ان کی باتیں تھیں
اس عشق پہ ہم بھی ہنستے تھے،بے حاصل سا بے حاصل تحا
اک زور بپھرتے ساگر میں،نہ کشتی تھی نہ ساحل تھا
جو بات تھی ان کے جی میں تھی جو بھید تھا یکسر انجانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاء نام کا دیوانہ
اک روز مگر برکھا رُت میں وہ بھادوں تھی یا ساون تھا
دیوار پہ بیچ سمندر کے،یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
مستانہ ہاتھ میں ہاتھ دیے،یہ اک گگر پر بیٹھے تھے
یوں شام ہوئی،پھر رات ہوئی،جب سیلانی گھر لوٹ گئی
کیا رات تھی وہ جی چاہتا ہے اس رات پہ لکھیں افسانہ
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاء نام کا دیوانہ
ہاں عمر کا ساتھ نبھانے کے تھے عہد بہت،پیمان بہت
وہ جن پر بھروسہ کرنے میں کچھ سود نہیں نقصان بہت
وہ نار یہ کہہ کر الگ ہوئی،مجبوری ساجن مجبوری
یہ وحشت سے رنجور ہوئے اور رنجوری سی رنجوری؟
اس روز ہمیں معلوم ہوا،اس شخص کا مشکل سمجھانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاء نام کا دیوانہ
گو آگ سے چھاتی جلتی تھی،گو آنکھ سے دریا بہتا تھا
ہر ایک سے دکھ نہیں کہتا تھا،چپ رہتا تھا،غم سہتا تھا
نادان ہیں وہ جو چھیڑتے ہیں اس عالم میں نادانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا،سب اپنوں کو بیگانوں کو
کچھ اور کہو تو سنتا ہوں اس باب میں کچھ مت فرمانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاء نام کا دیوانہ
ابن انشاء
اک نار پہ جان کو ہار گیا،مشہور ہے اس کا افسانہ
اس نار میں ایسا روپ نہ تھا،جس روپ سے دن کی دھوپ دبے
اس شہر میں کیا کیا گوری ہے،مہتاب رچے،گلنار لیے
کچھ بات تھی اس کی باتوں میں،کچھ بھید تھے اس کے چتون میں
وہی بھید کے جوگ جگاتے ہیں،کسی چاہنے والے کے من میں
اسے اپنا بنانے کی دھن میں،ہوا آپ ہی آپ سے بیگانہ
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاء نام کا دیوانہ
نہ چنچل کھیل جوانی کے،نہ پیار کی الھڑ گھاتیں تھیں
بس راہ میں ان کا ملنا تھا،یا فون پہ ان کی باتیں تھیں
اس عشق پہ ہم بھی ہنستے تھے،بے حاصل سا بے حاصل تحا
اک زور بپھرتے ساگر میں،نہ کشتی تھی نہ ساحل تھا
جو بات تھی ان کے جی میں تھی جو بھید تھا یکسر انجانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاء نام کا دیوانہ
اک روز مگر برکھا رُت میں وہ بھادوں تھی یا ساون تھا
دیوار پہ بیچ سمندر کے،یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
مستانہ ہاتھ میں ہاتھ دیے،یہ اک گگر پر بیٹھے تھے
یوں شام ہوئی،پھر رات ہوئی،جب سیلانی گھر لوٹ گئی
کیا رات تھی وہ جی چاہتا ہے اس رات پہ لکھیں افسانہ
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاء نام کا دیوانہ
ہاں عمر کا ساتھ نبھانے کے تھے عہد بہت،پیمان بہت
وہ جن پر بھروسہ کرنے میں کچھ سود نہیں نقصان بہت
وہ نار یہ کہہ کر الگ ہوئی،مجبوری ساجن مجبوری
یہ وحشت سے رنجور ہوئے اور رنجوری سی رنجوری؟
اس روز ہمیں معلوم ہوا،اس شخص کا مشکل سمجھانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاء نام کا دیوانہ
گو آگ سے چھاتی جلتی تھی،گو آنکھ سے دریا بہتا تھا
ہر ایک سے دکھ نہیں کہتا تھا،چپ رہتا تھا،غم سہتا تھا
نادان ہیں وہ جو چھیڑتے ہیں اس عالم میں نادانوں کو
اس شخص سے ایک جواب ملا،سب اپنوں کو بیگانوں کو
کچھ اور کہو تو سنتا ہوں اس باب میں کچھ مت فرمانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاء نام کا دیوانہ
ابن انشاء
0 comments so far,add yours