پھر آئنہِ عالم شاید کہ نکھر جائےپھر اپنی نظر شاید تا حدِّ نظر جائےصحرا پہ لگے پہرے اور قفل پڑے بن پراب شہر بدر ہو کر دیوانہ کدھر جائےخاکِ رہِ جاناں پر کچھ خوں تھا گِرو اپنااس فصل میں ممکن ہے یہ قرض اتر جائےدیکھ آئیں چلو ہم بھی جس بزم میں سنتے ہیںجو خندہ بلب آئے وہ خاک بسر جائےیا خوف سے در گزریں یا جاں سے گزر جائیںمرنا ہے کہ جینا ہے اِک بات ٹھہر جائے21، نومبر 1983ء
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments so far,add yours