پھر اسی وادئ شاداب میں لوٹ آیا ہوں
جس میں پنہاں مرے خوابوں کی طرب گاہیں ہیں
میرے احباب کے سامانِ تعیش کے لیے
شوخ سینے ہیں، جواںجسم، حسیں بانہیں ہیں
سبز کھیتوں میں یہ دبکی ہوئی دوشیزائیں
ان کی شریانوںمیںکس کس کا لہو جاری ہے
کس میں جرات ہے کہ اس راز کی تشہیر کرے
سب کے لب پر مری ہیبت کا فسوں طاری ہے
ہائے وہ گرم و دل آویز ابلتے سینے
جن سے ہم سطوتِ آبا کا صلہ لیتے ہیں
جانے ان مرمریں جسموں کو یہ مریل دہقاں
کیسے ان تیرہ گھروندوں میںجنم دیتے ہیں
یہ لہکتے ہوئے پودے یہ دمکتے ہوئے کھیت
پہلے اجداد کی جاگیر تھے، اب میرے ہیں
یہ چراگاہ، یہ ریوڑ، یہ مویشی، یہ کسان
سب کے سب میرے ہیں، سب میرے ہیں، سب میرے ہیں
ان کی محنت بھی مری، حاصلِ محنت بھی مرا
ان کے بازو بھی مرے، قوتِ بازو بھی مری
میں خداوند ہوںاس وسعتِ بے پایاں کا
موجِ عارض بھی مری، نکہتِ گیسو بھی مری
میں ان اجداد کا بیٹا ہوںجنہوں نے پیہم
اجنبی قوم کے سائے کی حمایت کی ہے
غدر کی ساعتِ ناپاک سے لے کر اب تک
ہر کڑے وقت میں سرکار کی خدمت کی ہے
خاک پر رینگنے والے یہ فسردہ ڈھانچے
ان کی نظریں کبھی تلوار بنی ہیں نہ بنیںگی
ان کی غیرت پہ ہر اک ہاتھ جھپٹ سکتا ہے
ان کے ابرو کی کمانیں نہ تنی ہیں نہ تنیں
ہائے یہ شام، یہ جھرنے، یہ شفق کی لالی
میں ان آسودہ فضاؤں میں ذرا جھوم نہ لوں
وہ دبے پاؤں ادھرکون چلی جاتی ہے
بڑھ کے اس شوخ کے ترشے ہوئے لب چوم نہ لوں
ساحر لدھیانوی
جس میں پنہاں مرے خوابوں کی طرب گاہیں ہیں
میرے احباب کے سامانِ تعیش کے لیے
شوخ سینے ہیں، جواںجسم، حسیں بانہیں ہیں
سبز کھیتوں میں یہ دبکی ہوئی دوشیزائیں
ان کی شریانوںمیںکس کس کا لہو جاری ہے
کس میں جرات ہے کہ اس راز کی تشہیر کرے
سب کے لب پر مری ہیبت کا فسوں طاری ہے
ہائے وہ گرم و دل آویز ابلتے سینے
جن سے ہم سطوتِ آبا کا صلہ لیتے ہیں
جانے ان مرمریں جسموں کو یہ مریل دہقاں
کیسے ان تیرہ گھروندوں میںجنم دیتے ہیں
یہ لہکتے ہوئے پودے یہ دمکتے ہوئے کھیت
پہلے اجداد کی جاگیر تھے، اب میرے ہیں
یہ چراگاہ، یہ ریوڑ، یہ مویشی، یہ کسان
سب کے سب میرے ہیں، سب میرے ہیں، سب میرے ہیں
ان کی محنت بھی مری، حاصلِ محنت بھی مرا
ان کے بازو بھی مرے، قوتِ بازو بھی مری
میں خداوند ہوںاس وسعتِ بے پایاں کا
موجِ عارض بھی مری، نکہتِ گیسو بھی مری
میں ان اجداد کا بیٹا ہوںجنہوں نے پیہم
اجنبی قوم کے سائے کی حمایت کی ہے
غدر کی ساعتِ ناپاک سے لے کر اب تک
ہر کڑے وقت میں سرکار کی خدمت کی ہے
خاک پر رینگنے والے یہ فسردہ ڈھانچے
ان کی نظریں کبھی تلوار بنی ہیں نہ بنیںگی
ان کی غیرت پہ ہر اک ہاتھ جھپٹ سکتا ہے
ان کے ابرو کی کمانیں نہ تنی ہیں نہ تنیں
ہائے یہ شام، یہ جھرنے، یہ شفق کی لالی
میں ان آسودہ فضاؤں میں ذرا جھوم نہ لوں
وہ دبے پاؤں ادھرکون چلی جاتی ہے
بڑھ کے اس شوخ کے ترشے ہوئے لب چوم نہ لوں
ساحر لدھیانوی
0 comments so far,add yours