احمد ندیم قاسمی

کہنا چا ہوں ، مگر اے کاش کبھی کہہ پاؤں
آسمانوں سے اْتر آ کہ تْجھے اپناؤں

چھان ڈالی ہے زمیں، اور فضا اور خلا
میں تری کھوج میں نکلوں تو کہاں تک جاؤں

ختم ہوتی نظر آۂیں ابد یّت کی حدیں
اس سے آگے میں خیالوں کو کہاں پہنچاؤں

تْو نے ہر عدل قیامت پہ اْٹھا رکھا ہے
اے خدا ، میں ترا معیار کہاں سے لاؤں

کب خزاں ان کو ہرا ہونے کی عزّت دے گی
زرد پتّوں میں اگر اپنا لہوْ دوڑاؤں

میں پھڑ کتا ہوں تو صیّاد کا کیا جاتا ہے
اپنے ہی خْون سے میں اپنا ہی جی بہلاؤں

وہ یہ کہتے ہوْۓ ، پگھلا ہوآ زر پی جاۓ
شاید اس طرح کبھی صاحبِ فن کہلاؤں

0 comments so far,add yours