غزلِپروین شاکر گلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں سِتارہ ہوکوئی وجودِ محبّت کا استعارہ ہومیں گہرے پانی کی اُس رو کے ساتھ بہتی رہُوںجزیرہ ہو کہ مُقابِل کوئی کنارہ ہوکبھی کبھار اُسے دیکھ لیں، کہیں مِل لیںیہ کب کہا تھا، کہ وہ خوش بدن ہمارا ہوقصور ہو تو ہمارے حساب لکھ جائےمحبتوں میں جو احسان ہو، تمھارا ہویہ اِتنی رات گئے کون دستکیں دے گا !کہیں ہَوا کا ہی اُس نے نہ رُوپ دھارا ہواُفق تو کیا ہے، درِ کہکشاں بھی چھُو آئیںمُسافروں کو اگر چاند کا اِشارہ ہومیں اپنے حِصّے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوںکوئی تو ہو، جو مجھے اِس طرح کا پیارا ہواگر وجود میں آہنگ ہے، تو وصْل بھی ہو!میں چاہے نظم کا ٹکڑا، وہ نثر پارہ ہو پروین شاکر
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments so far,add yours