اَحد جَد دِتی وِکھالی از خود ہویا فانی ہُو
قُرب وِصال مقام نہ منزل نہ اُتھ جِسم نہ جانی ہُو
نہ اُتھ عِشق محبت کائی نہ اُتھ کون مکانی ہُو
عینوں عین تِھیوسے باہُو سِر وحدت سُبحانی ہُو

اِس بند میں پہنچے ہوئے ولیوں کا ایک ایسا تجربہ مذکُور ہے جو خود سُلطان العارفین کو اُس وقت پیش آیا جب سُلوک کی منازل کو طے کرتے ہوئے وہ نورٌ علٰی نور ہوگئے۔
اللہ کی پاک ذات کئی مرتبوں کی مالک ہے ۔اَحد ذات کا اونچا مرتبہ ہے،فلسفی اگر ایمان لاتے ہوں تو سوچ بِچار کے ذریعہ ان مراتب کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور فقیر و درویش لوگ مراقبات کے ذریعہ اِن مراتب کی معرفت حاصل کرتے ہیں،کچھ انوار ان کے مشاہدات میں آتے ہیں اور انہی کے ساتھ عِلم اور یقین اِن کے قُلوب پر اُترتے ہیں حضر سُلطان باہُو فرماتے ہیں کہ جب اللہ نے اَحدیت کے مرتبے سے تجلی ظاہر فرمائی تو میں خود سے فانی ہو گیا اور فنا کا یہ تجربہ ایسا تھا کہ نُور کے غُلبہ میں کِسی کیفیت کا اِحساس باقی نہ رہا۔۔۔یہاں حالت سب سے الگ تھی کیونکہ اِس سے مِلتی جُلتی کوئی کیفیت ہے نہ ہی اِس کے مقابلے میں کِسی حالت کا تصور کیا جا سکتا ہے۔جِسم اور روح کی دُوئی مِٹ جاتی ہے ،عِشق و محبت کی اِبتدائی واردات ،سلوک کے مقامات اور قُرب و وِصال سب پیچھے رہ جاتے ہیں حتٰی کہ جگہ اور مکاں کا تصور بھی نہیں رہتا۔۔
جب اللہ مرتبہ احدیت کی معرفت عطا کرتا ہے تو فقر عین ہو جاتا ہے یعنی اَحد کی حقیقت اِس پر کُھل جاتی ہے وہ بھی اپنی سطح(عبدیت کی سطح پر) اِسی کی طرح بے مِثال ہو جاتا ہے۔چونکہ اب اِسے بے حَد طاقت عطا ہوتی ہے اِس لئے دُنیا میں وہ قُدرت کا ایک بھید بن کر زندہ رہتا ہے ۔۔۔۔

0 comments so far,add yours