صاحبو!
سیانے کہتے ہیں اگر تم کسی پر اثر ڈالنا چا ہتے ہو, اگر تم چا ہتے ہو کہ
کوئی تمھاری بات توجہ سےسنے,کانوں سے نہیں بلکہ دل کے کانوں سے,تو تم پر
لازم ہے کہ پہلے تم ویسے بن جاؤ جیسے وہ لوگ ہیں۔جن پر تم نے اثر ڈالنا ہے۔
یہاں تک ویسے بن جاؤ کہ وہ لوگ سمجھیں کہ یہ شخص ہم میں سے ھے۔
اس کے برعکس ہمارے علماءکرام عوام میں گھلتے ملتے نہیں, وہ اپنی امتیازی شان برقرار رکھتے ہیں,اٹھنے میں, بیٹھنے میں,کھانے میں, پینے میں,رہنے سہنے میں, بات چیت میں ان کاانداذ الگ ہوتا ہے۔
ہمارے علماء کرام جن سے بھی مخاطب ہوتے ہیں, ایسی امتیازی شان سے مخاطب ہوتے ہیں کہ سننے والےپر واضح ہو جائے کہ کوئی عام آدمی ان سے مخاطب نہں ہے۔ *ان کے انداذ سے ظاھر ہوتا ہے کہ وہ جانتےہیں,جس کے ذہن میں یہ گمان ہو کہ "میں جانتا ہوں" وہ لازما سننے والے کو "انجان" سمجھے گا۔ یہ ایک قدرتی امر ہے, اگر آپ دوسرے کو انجان سمجھیں گے تو آپ میں احساس برتری جاگے گا,
اگر با لفرض محال اگر وہ آپ کا سوال سن بھی لیں تو وہ اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے
اور جواب کو اس قدر بے محل بنا دیں گے کہ آپ حیران رہ جائیں گے, پھر وہ بات کو گھما پھرا کراپنی کسی ازبر تقریر سے جوڑ کر اسے تقریر کی شکل دے دیں گے۔ ان علماء کرام کی تقریریں پہلے سے تیار کی ہوئی ہوتی ہیں, رٹی ہوئی ہوتی ہیں, بھڑکیلی ہوتی ہیں صرف ہونٹوں سے ڈلیور کی جاتی ہیں, ان میں دل شامل نہیں ہوتا۔ دل شامل نہ ہو تو اثر کیسا........
ممتاز مفتی کی کتاب"تلاش" سے اقتباس
اس کے برعکس ہمارے علماءکرام عوام میں گھلتے ملتے نہیں, وہ اپنی امتیازی شان برقرار رکھتے ہیں,اٹھنے میں, بیٹھنے میں,کھانے میں, پینے میں,رہنے سہنے میں, بات چیت میں ان کاانداذ الگ ہوتا ہے۔
ہمارے علماء کرام جن سے بھی مخاطب ہوتے ہیں, ایسی امتیازی شان سے مخاطب ہوتے ہیں کہ سننے والےپر واضح ہو جائے کہ کوئی عام آدمی ان سے مخاطب نہں ہے۔ *ان کے انداذ سے ظاھر ہوتا ہے کہ وہ جانتےہیں,جس کے ذہن میں یہ گمان ہو کہ "میں جانتا ہوں" وہ لازما سننے والے کو "انجان" سمجھے گا۔ یہ ایک قدرتی امر ہے, اگر آپ دوسرے کو انجان سمجھیں گے تو آپ میں احساس برتری جاگے گا,
اگر با لفرض محال اگر وہ آپ کا سوال سن بھی لیں تو وہ اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے
اور جواب کو اس قدر بے محل بنا دیں گے کہ آپ حیران رہ جائیں گے, پھر وہ بات کو گھما پھرا کراپنی کسی ازبر تقریر سے جوڑ کر اسے تقریر کی شکل دے دیں گے۔ ان علماء کرام کی تقریریں پہلے سے تیار کی ہوئی ہوتی ہیں, رٹی ہوئی ہوتی ہیں, بھڑکیلی ہوتی ہیں صرف ہونٹوں سے ڈلیور کی جاتی ہیں, ان میں دل شامل نہیں ہوتا۔ دل شامل نہ ہو تو اثر کیسا........
ممتاز مفتی کی کتاب"تلاش" سے اقتباس
0 comments so far,add yours