اجتہاد جیسے اہم اور عظیم مقصد کے لیے مجتہدین میں کیا شرائط یا لوازم ہونا چاہئیں۔ اجتہادی اداروں اور فقہی اکیڈمیوں کی تشکیل سے قبل ان پر توجہ بہت ناگزیر ہے۔ اس دور میں کسی ایک مجتہد میں تمام علوم و فنون اور مہارتوں کا پیدا ہونا ممکن نہیں۔ شاید کوئی معجزہ یا کرامت ہی ایسی صورت پیدا کر سکتا ہے۔ یہی باعث ہے کہ اجتہاد اب انفرادی کے بجائے اجتماعی ہونا چاہیے ۔ مجتہد کے لیے عصری شعور سے آگاہی ضروری ہے۔ وہ اپنے عہد کے سماجی، بشری، عمرانی اور ثقافتی ماحول اور میلانات سے کامل آگاہی رکھتا ہو۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ ومن لم یعرف اھل زمانہ فھو جاھل یعنی جو اپنے زمانے سے واقف نہ ہو وہ جاہل ہے۔ اس لیے علماءکو دور جدید کے رجحانات کی معرفت اور ادراک ہونا چاہیے کیونکہ ان تصویر المسئلۃ نصف العلم ( بے شک کسی مسئلے کی ہیئت اور شکل و صورت کو جان لینا آدھا علم ہے ) مجتہد کو مقاصد شریعت کا علم ہونا چاہیے ۔ علم فقہ اور اصول فقہ میں کامل مہارت ہونا چاہیے ۔ اسے عرف و عادات سے واقفیت، احوال و ظروف زمانہ سے آگاہی اور ادلہ شریعہ پر کامل عبور ہونا چاہیے ۔ اجتہاد کی اصطلاح جہد یا جہد سے مشتق ہے جس کے معنی کوشش کرنے اور مشقت اٹھانے کے ہیں لہٰذا ایک مجتہد یا عالم یا فقہیہ کو غیر منصوص احکام کی عدم موجودگی کی صورت میں نئے مسائل کے حل کے لیے احکام شریعہ معلوم کرتے ہوئے پوری استعداد صرف کرنا چاہیے ۔
اسلاف نے مجتہد کے لیے آٹھ علوم میں مہارت کو لازم قرار دیا ہے۔

1. قرآن کا علم
2. سنت کا علم
3. اجتماعی مسائل کا علم
4. مبادیات کا علم
5. عربی زبان کا علم
6. ناسخ و منسوخ کا علم
7. اصول حدیث کا علم

0 comments so far,add yours