دہر بھی میرؔ طُرفہ مقتل ہےجو ہے سو کوئی دم کو فیصل ہےکثرتِ غم سے دل لگا رُکنےحضرتِ دل میں آج دنگل ہےروز کہتے ہیں چلنے کو خوباںلیکن اب تک تو روزِ اوّل ہےچھوڑ مت نقدِ وقت نسیہ پرآج جو کچھ ہے سو کہاں کل ہےبند ہو تجھ سے یہ کھلا نہ کبھودل ہے یا خانۂ مقفل ہےسینہ چاکی بھی کام رکھتی ہےیہی کر جب تلک معطل ہےاب کے ہاتھوں میں شوق کے تیرےدامنِ بادیہ کا آنچل ہےٹک گریباں میں سر کو ڈال کے دیکھدل بھی کیا لق و دق جنگل ہےہجر باعث ہے بد گمانی کاغیرتِ عشقِ ہے تو کب کل ہےمر گیا کوہکن اسی غم میںآنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہےمیر تقی میرؔ
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments so far,add yours