میثاق مدینہ
(کائنات انسانی کا پہلا تحریری دستور)
مصنف : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
 
 
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ اپنی غایت اور نصب العین کے حوالے سے گزشتہ تمام انبیاء و رسل سے ممتاز ہے۔ کیونکہ آپ کو وہ عظیم منصب عطا کر کے مبعوث کیاگیا جو آپ سے قبل کسی دوسرے نبی کو عطا نہیں کیا گیا اور جس عظیم منصب کی عطائیگی نے آئندہ کسی نبی کی آمد کی ضرورت و احتیاج کو بھی کلیتہً ختم کردیا اس منصب کو قرآن حکیم نے یوں بیان فرمایا :۔
هو الذی ارسل رسوله بالهدی و دين الحق ليظهره علی الدين کله
(48 : 28)
(اللہ) وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کر دے۔
اظہار علے الدین کلہ کا یہ عظیم کام اس وقت تک انجام پذیر نہیں ہوسکتا تھا جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرب کے کفر و شرک پر مبنی معاشرے کی بنیادوں تک کو نہ بدل ڈالتے اور اس معاشرے کو ایک ایسی طرح نو عطانہ کرتے جو الھدی اور دین حق کی تعلیمات پر مبنی ہوتی۔ یہ امر صرف اخلاقی و مذہبی وعظ و تلقین سے ممکن نہ تھا۔ بلکہ اس کے لئے تو ایک ہمہ گیر جدوجہد کی ضرورت تھی جو ہر طبقہ زندگی کے افراد اور ہر سطح زندگی (بشمول انفرادی، قومی اور بین الاقوامی) پر دین حق کی تعلیمات کے اثر و نفوذ کے فروغ کی حامل ہوتی۔ یہی وہ بنیادی مقصد تھا جس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد کو کبھی بھی محدود نہ ہونے دیا۔ دور اول سے جب آپ پر اقراء سے نزول وحی کا آغاز ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت حق کے فروغ کے لئے ہر اس اقدام کو اختیار فرمایا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت فروغ پذیر ہوسکتی تھی اور ہر اس امر کی نفی فرمائی اور اسے مسترد کر دیا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت حق کے آفاقی اور عالمی تشخص کے متاثر ہونے کا امکان پیدا ہوتا تھا چاہے اس کے لئے آپ کو بے شمار مشکلات اور مصائب ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔ وہ تمام اقدامات جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین حق کے اظہار علی الدین کلہ کے لئے موقع بموقع اختیار فرمائے ان میں سے میثاق مدینہ کو کئی حوالوں سے ایک مرکزی اور محوری مقام حاصل ہے کیونکہ میثاق مدینہ ہجرت کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا جو تاریخ اسلام کا ایک اہم اور بے مثال باب ہے۔ میثاق مدینہ کے ساتھ ہی ایک باقاعدہ اسلامی مملکت وجود میں آگئی جو غلبہ دین حق کی خشت اول تھی۔ اگر سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد کی نہج کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ میثاق مدینہ کوئی ایسا عمرانی و سیاسی معاہدہ نہ تھا جو حادثاتی طور پر معرض وجود میں آگیا ہو بلکہ اس کا اپنا پس منظر ہے۔ ہجرت سے کئی سال پہلے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نوعیت کے اقدام کی تیاری شروع کردی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اکثر عرب قبائل اور ان کے سردار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کے لئے یہ شرط پیش کرتے تھے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اسلامی مملکت اور حکومت کے وارث ہوں گے۔ اسی باقاعدہ پروگرام کے تحت ہجرت مدینہ کا عمل تکمیل پذیر ہوا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو یہ موقع ملا کہ انہیں ایک الگ اور آزاد ریاست میسر آئے جس کی سربراہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہو اور یہاں وہ نہ صرف اسلام کے احکامات پر آزادانہ عمل کرسکیں بلکہ اس آزاد مملکت کو اپنا Base Camp بنا کر غلبہ دین حق کے لئے عملی جدوجہد کا آغاز کرسکیں اور مخالفین کے خلاف سراپا جدوجہد ہوسکیں۔
اس حقیقت کا اظہار کہ ہجرت اور میثاق مدینہ تاریخ کے حادثاتی عوامل نہ تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پہلے خطبے سے بھی ہوتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کے فوراً بعد مدینہ میں ارشاد فرمایا :
الحمد ﷲ أحمده واستعينه، وأستغفره واستهديه، وأومن به ولا أکفره، و أعادي من يکفره وأشهد أن لا إله إلا اﷲ وحد ه لا شريک له، وأن محمداً عبده ورسوله أرسله بالهدي و دين الحق والنور والموعظةعلي فترة من الرسل، وقلة من العلم، وضلالة من الناس، وانقطاع من الزمان، ودنو من الساعة، و قرب من الاجل. من يطع اﷲ ورسوله فقد رشد، ومن يعصهما فقد غوي و فرط وضل ضلالا بعيداً، وأوصيکم بتقوي اﷲ فانه خير ما أوصي به المسلم المسلم أن يحضه علي الاخرة. وأن يأمره بتقوي اﷲ. فاحذروا ماحذرکم اﷲ من نفسه، ولا أفضل من ذلک نصيحة، ولا أفضل من ذلک ذکري. وإنه تقوي لمن عمل به علي وجل ومخافة، وعون صدق علي ما تبتغون من أمر الاخرة، ومن يصلح الذي بينه و بين اﷲ من أمر السر والعلانية لا ينوي بذلک إلا وجه اﷲ يکن له ذکرا في عاجل أمره وذخراً فيما بعد الموت حين يفتقر المرء الي ما قدم، وما کان من سوي ذلک يود لو ان بينه و بينه أمداً بعيداً، ويحذرکم اﷲ نفسه واﷲ روف بالعباد والذي صدق قوله وانجز وعده، لا خلف لذلک فانه يقول تعالي (ما يبدل القول لدي وما أنا بظلام للعبيد) واتقوا اﷲ في عاجل أمرکم وآجله في السر والعلانية فانه (من يتق اﷲ يکفر عنه سيئاته ويعظم له أجراً) (ومن يتق اﷲ فقد فاز فوزاً عظيما) وإن تقوي اﷲ توقي مقته، وتوفي عقوبته، وتوفي سخطه. و إن تقوي اﷲ تبيض الوجه، وترضي الرب، وترفع الدرجة، خذوا بحظکم ولا تفرطوا في جنب الله قد علمکم اﷲ کتابه، ونهج لکم سبيله ليعلم الذين صدقوا وليعلم الکاذبين فاحسنوا کأحسن اﷲ اليکم، وعادوا أعداه وجاهدوا في اﷲ حق جهاده هو اجتبا کم و سما کم المسلمين ليهلک من هلک عن بينة و يحي من حي عن بينة ولا قوة إلا باﷲ، فاکثروا ذکر اﷲ واعملوا لما بعد الموت فانه من أصلح ما بينه و بين اﷲ يکفه ما بينه و بين الناس ذلک بأن اﷲ يقضي علي الناس ولا يقضون عليه، ويملک من الناس ولا يملکون منه، اﷲ أکبر ولا قوة إلا باﷲ العلي العظيم
(البدايه والنهايه جلد 3، صفحه 213)
تمام تعریفیں صرف خدا ہی کے لیے ہیں۔ میں اس کی تعریف بیان کرتا ہوں۔ اسی سے مدد کا خواستگار ہوں، اسی سے بخشش طلب کرتا ہوں اور اس کے منکر کا مخالف ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ہے۔ صرف وہی ایک خدا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے خاص بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، جنہیں خدا نے ہدایت، نور اور سرتاپا نصیحت بنا کر مبعوث فرمایا۔ جب کہ پیغمبروں کو دنیا میں آئے ہوئے کافی وقفہ ہوچکا تھا، علم کم ہوچکا تھا، گمراہی عام ہوچکی تھی۔ جہالت پر طویل زمانہ گزرچکا تھا، قیامت اور آخرت کے قرب کا زمانہ آگیا تھا۔ پس جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ ہدایت پاگیا اور جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا اور کھلی گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔
میں تمہیں زہد و تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو اس سے بہتر نصیحت نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد کا درجہ یہ ہے کہ بھائی ایک دوسرے کو آخرت کی ترغیب دیں اور اسے تقویٰ کی ہدایت کریں۔ پس خدا نے جس بات سے تمہیں بچنے کا حکم دیا ہے اس سے بچو۔ اس سے بہتر اور کوئی نصیحت نہیں ہے اور نہ اس سے افضل اور کوئی ذکر ہے۔ حقیقی تقویٰ اس کا ہے جو دل میں اپنے رب کا خوف اور اخروی امور کی صداقت کا جذبہ لیے ہوئے اس پر عمل کرے اور جو شخص اپنے اور اپنے خدا کے درمیان معاملہ کو ظاہر و باطن میں ٹھیک رکھے اور اس سے صرف اللہ کی خوشنودی کی نیت رکھے تو یہ عمل دنیا میں اس کے ذکر خیر کا باعث اور موت کے بعد ذخیرہ آخرت ہوگا۔ جس روز انسان اپنے پچھلے اعمال کا محتاج ہوگا اور اس کے سوا جو کچھ ہوگا اس کے متعلق وہ خواہش کرے گا کہ کاش اس کے اور اس کے عمل کے درمیان طویل مدت کا فاصلہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے عذاب سے بھی ڈراتا ہے ساتھ ہی وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان بھی ہے۔ اللہ اپنے قول میں صادق اور اپنے وعدہ کو پورا کرنے والا ہے، اس کا ارشاد ہے : ’’ما یبدل القول لدی وما انا بظلام للعبید،،
پس اے لوگو اپنے دنیوی و اخروی سب امور میں ظاہر و باطن میں اللہ سے ڈرو کیونکہ جو خدا سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کا کفارہ کردیتا ہے اور اس کے اجر میں اضافہ فرما دیتا ہے جو خدا سے ڈرتا ہے وہ عظیم الشان کامیابی حاصل کرتا ہے۔ اللہ سے تقویٰ انسان کو خدا کے غضب اور ناراضگی سے محفوظ رکھتا ہے خدا کا تقویٰ متقیوں کے چہروں کو سفید و منور رکھے گا۔ اور ان سے رب کو راضی کردے گا۔ ان کے مراتب بلند کر دے گا۔
اے لوگو! اپنا اپنا حصہ حاصل کرلو اور اللہ کے معاملہ میں زیادتی سے کام نہ لو۔ اللہ تعالی نے تمہیں اپنی کتاب کی تعلیم دی اور تمہاری نجات کے لیے ایک طریقہ مقرر فرما دیا تاکہ وہ اس کی تصدیق کرنے والوں اور اس کے جھٹلانے والوں کو جان لے۔ پس جس طرح خدا نے تم سے بھلائی کی ہے تم بھی بھلائی کرو۔ خدا کے دشمنوں سے تم بھی عداوت رکھو۔ اس کی راہ میں جہاد کا حق پوری طرح ادا کرو۔ اس نے تمہیں اسلام کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ اور تمہارا نام مسلمان رکھا ہے تاکہ وہ جسے ہلاک کرے اسے قطعی دلیل کے ساتھ ہلاک کردے اور جسے زندہ رکھے اسے دلیل کے ساتھ زندہ رکھے۔ خدا کے سوا کائنات میں کوئی اور طاقت نہیں ہے۔ پس تم لوگ اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو اور آخرت کے لیے نیک عمل کرتے رہو۔ کیونکہ جس نے اپنے اور خدا کے درمیان کا معاملہ ٹھیک کرلیا تو خدا اس کے اور لوگوں کے درمیان ہونے والے معاملات کے لیے کافی ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ لوگوں پر حکم چلاتا ہے لوگ اس پر حکم نہیں چلاتے اور اللہ ہی لوگوں کے معاملات کا مالک و مختار ہے۔ لوگ اس کے معاملات کے مختار نہیں۔ اللہ بہت بڑا ہے اور کائنات میں کوئی طاقت سوائے خدائے عظیم کی طاقت کے نہیں ہے۔
اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ میں ارشاد فرمائے گئے پہلے خطبے کا جائزہ لیں تو مندرجہ ذیل امور سامنے آتے ہیں :
1۔ اس خطبے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کے سامنے اپنا منصب اور مقام بیان فرمایا کہ انسانیت ایک طویل عرصے تک گمراہی میں مبتلا رہی اور سلسلہ انبیاء علیہ السلام کو منقطع ہوئے ایک زمانہ گزر گیا تھا۔ لہذا رب ذوالجلال نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے نور ہدایت کو عام کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو اطاعت حق کا درس دیا۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ کتب سیر کی روایات کے مطابق ہجرت کے بعد آپ کا یہ پہلا خطبہ ہے مگر اس خطبے کے مندرجات سے ایسا کوئی تاثر نہیں ابھرتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل مدینہ کے درمیان کوئی بعد، دور ی یا اجنبیت نظر آتی ہو۔ انداز کلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ عرصہ دراز سے سامعین سے مخاطب رہے ہیں۔مزید یہ کہ ایسا کوئی تاثر بھی نظر نہیں آتا کہ یہ خطاب ایک ایسی شخصیت کا ہے جو اپنے وطن سے بے سرو ساماں ہوکر نکل آئی ہو اور ایک نئے دیس میں پناہ و قیام کی متلاشی ہو۔ بلکہ یہ خطاب ایک رہنما، مقتدیٰ اور حکمرانی ہستی کا محسوس ہوتا ہے جو متبعین اور followers سے کیا جا رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبے کے انداز تکلم اور سامعین کے ماحول سے یہ امر ہویدا ہوتا ہے کہ آپ کی آمد نہ تو اہل مدینہ کے لئے نئی تھی اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ پہنچ کر کوئی اجنبیت محسوس کر رہے تھے بلکہ سالہا سال تک اس امر پر کام ہوچکا تھا (جس کی تفصیل آگے آرہی ہے) جس کا نتیجہ یہ تھا کہ تحریک اسلام ایک نئے مرحلے کی طرف بتدریج شعوری طور پر بڑھ رہی تھی۔
2۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پورے خطبہ میں اہل مکہ، کفار مکہ کے ظلم و ستم، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف گھناونی سازشوں، مسلمانوں کے مصائب و آلام اور وہ حالات جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے کا تذکرہ تک نہ فرمایا۔ نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستے کی مشکلات کا تذکرہ کیا کہ کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفار مکہ کے جاسوسوں اور کارندوں سے بچ کر مدینہ پہنچے۔ بلکہ اس کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ میں ان عظیم اقدار اور ابدی و آفاقی اقدار حیات کا ہی تذکرہ فرمایا جن کا فروغ و نشر آپ کا مقصد حیات تھایہ امر جہاں ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمتہ للعلمینی، درگزر، عفو و بردباری، شائستگی اور اعلی ظرفی کا ثبوت ہے وہاں آپ کی سیاسی بصیرت اور حکمت کا آئینہ دار بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پہلے ہی خطبے میں اپنی آمد اور آنے والے دور کو منفی بنیادوں پر استوار نہیں فرمانا چاہتے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی آمد کے بعد اپنے مد نی دور کا آغاز ایک مثبت اور تعمیری رویے سے فرمایا۔ کیونکہ منفی انداز عمل اختیار کرنے سے آپ کے مقاصد ہجرت پس منظر میں چلے جاتے مگر مثبت انداز عمل کا نتیجہ ایک نئے معاشرے، ریاست کے قیام کی شکل میں سامنے آیا جس کا لازمی اور منطقی انجام کفر و طاغوت کی بیخ کنی اور سرکوبی بھی تھا۔
3۔ اس خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیک وقت دینی اور دنیاوی معاملوں کا تذکرہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :۔
’’میں تمہیں زہد و تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو اس سے بہتر نصیحت نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد کا درجہ یہ ہے کہ بھائی ایک دوسرے کو آخرت کی ترغیب دیں اور تقوی کی ہدایت کریں پس خدا نے جس بات سے تمہیں بچنے کا حکم دیا اس سے بچو۔ اس سے بہتر اور کوئی نصیحت نہیں ہے اور نہ اس سے افضل اور کوئی ذکر ہے۔ حقیقی تقویٰ اس کا ہے جو دل میں اپنے رب کا خوف اور اخروی امور کی صداقت کا جذبہ لئے ہوئے اس پر عمل کرے۔،،
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان ارشادات سے ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامعین جو شہر مدینہ کے مکینوں پر مشتمل تھے اسلام کی دعوت سے کلی طور پر نا آشنا نہ تھے۔ بلکہ اپنی آمد سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل مدینہ کے دین اسلام سے تعارف کے لئے اقدامات فرما دیئے تھے۔ اور مدینہ میں لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ذہنی و فکری طور پر اس حد تک تیار ہوچکی تھی کہ وہ دین حق کی تعلیمات کی قدر و قیمت کو کما حقہ Evaluate کرسکتے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :۔
’’جو شخص اپنے اور اپنے خدا کے درمیان معاملہ کو ظاہر و باطن میں ٹھیک رکھے اور اس سے صرف اللہ کی خوشنودی کی نیت رکھے تو یہ عمل دنیا میں اس کے ذکر خیر کا باعث اور موت کے بعدذخیرہ آخرت کا باعث ہوگا۔،،
اور یہ کہ :۔
’’اے لوگو ! اپنے دنیوی و اخروی سب امور میں ظاہر و باطن میں اللہ سے ڈرو کیونکہ جو خدا سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی برائیوں کا کفارہ کردیتا ہے اور اس کے اجر میں اضافہ کردیتا ہے جو خدا سے ڈرتا ہے وہ عظیم الشان کامیابی حاصل کرتا ہے،،
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبہ میں دنیا اور آخرت کی کامیابی کی شرط براہ راست تقوی اور ظاہری و باطنی معاملات میں الوہی رضا جوئی کو قرار دیا۔ جسے اختیار کرنا اس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامعین دین اسلام سے ابتدائی واقفیت حاصل نہ کرچکے ہوتے۔
4۔ اس خطبے میں دنیاوی اور اخروی فلاح کے لئے اصول و ضوابط بیان فرمانے کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجمالاً ایک اسلامی معاشرے اور اسلامی ریاست کا نقشہ بھی بیان فرما دیا کہ اہل ایمان کو باہمی معاشرتی برتاؤ کس طرح کرنا ہوگا اور ایک اسلامی ریاست میں باہمی ربط و اشتراک کی نوعیت اور اہل کفر و طاغوت کے مقابل ان کے رویے کی نوعیت کیا ہوگی :
’’اے لوگو! اپنا اپنا حصہ حاصل کرلو۔ اور اللہ کے معاملے میں زیادتی سے کام نہ لو۔ اللہ تعالی نے تمہیں اپنی کتاب کی تعلیم دی اور تمہاری نجات کے لئے ایک طریقہ مقرر فرما دیا تاکہ وہ اس کی تصدیق کرنے والوں اور اس کے جھٹلانے والوں کو جان لے۔ پس جس طرح خدا نے تم سے بھلائی کی ہے تم بھی بھلائی کرو۔ خدا کے دشمنوں سے تم بھی عداوت رکھو اس کی راہ میں جہاد کا حق پوری طرح ادا کرو۔ اس نے تمہیں اسلام کے لئے منتخب فرمایا ہے اور تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔
5۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ خطبہ جہاں مثالی معاشرے کے خصائص اور بنیادی تشکیلی عناصر کو بیان کرتا ہے۔ وہاں اس معاشرے کے قیام کے حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال یقین و اعتماد کا عکاس بھی ہے۔ ایک نئی سر زمین میں آ کر انسان جن خطرات اور تحفظات سے خود کو دوچار محسوس کرتا ہے ان کا شائبہ تک بھی اس خطبے میں نہیں۔ بلکہ رب ذوالجلال کی ذات پر یقین کامل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ قوت ہے جس کا بل بوتے پر آپ ایک نئی مسلم ریاست کی بنیاد رکھنے کے لئے کہ نہ صرف خود مصروف کار ہیں بلکہ دیگر اہل ایمان کو بھی دعوت دیتے ہیں :۔
’’اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے تاکہ جسے ہلاک کرے اسے قطعی دلیل کے ساتھ ہلاک کرے اور جسے زندہ رکھے اسے دلیل کے ساتھ زندہ رکھے۔ خدا کے سوا کائنات میں کوئی اور طاقت نہیں ہے۔ پس تم اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو اور آخرت کے لئے نیک عمل کرتے رہو۔ کیونکہ جس نے اپنے اور خدا کے درمیان کا معاملہ ٹھیک کرلیا تو خدا اس کے اور لوگوں کے درمیان ہونے والے معاملات کے لئے کافی ہوگا۔ اس لئے کہ اللہ لوگوں پر حکم چلاتا ہے لوگ اس پر حکم نہیں چلاتے اور اللہ ہی لوگوں کے معاملات کا مالک و مختار ہے لوگ اس کے معاملات کے مختار نہیں۔ اللہ بہت بڑا ہے اور کائنات میں کوئی طاقت سوائے خدائے عظیم کی طاقت کے نہیں ہے۔،،
مختلف روایات میں یہ خطبہ قدرے مختلف انداز سے بھی آیا ہے تاہم یہ انہی بنیادی خصوصیات کا عکاس ہے جن کا تجزیہ اوپر پیش کیا گیا :۔
أما بعد أيها الناس فقدموا لانفسکم تعلمن واﷲ ليصعقن احدکم ثم ليدعن غنمه ليس لها راع، نم ليقولن له ربه. ليس له ترجمان ولا حاجب يحجبه دونه. ألم يأتک رسولي فبلغک، وآتيتک مالا وأفضلت عليک، فما قدمت لنفسک فينظر يمينا وشمالا فلا يري شيئا، ثم ينظر قدامه فلا ير غير جهنم، فمن استطاع أن يقي وجهه من النار ولو بشق تمرة فليفعل، ومن لم يجد فبکلمة طيبة فان بها تجزي الحسنة أمثالها إلي سبع مائة ضعف والسلام علي رسول اﷲ ورحمة الله وبرکاته
(البدايه والنهايه جلد 3، صفحه 214)
لوگو! اپنی ذات و حیثیت پر پہلے غور کرو، اللہ تمہیں بتاتا ہے اور پھر تم سے پوچھتا ہے کہ اگر تم میں سے کسی پر اس کے حکم سے بجلی گر پڑے تو کیا اس کے بعد اس کے بکریوں کے گلے کو بلانے والا اور چرواہا کوئی ہوگا؟ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی تمہارا ترجمان ہے اور نہ کوئی تمہارا پردہ پوش، وہ تم سے یہ بھی فرماتا ہے کہ کیا اس نے تمہاری ہدایت کے لیے اپنا رسول نہیں بھیجا؟ کیا اس نے تمہیں مال و دولت نہیں دی؟ کیا اس نے تم پر اپنا فضل نہیں کیا؟ پھر تم اپنے نفس کی پیروی پر کیوں مائل ہو؟ ایسا کروگے تو پھر اگر تم اپنے دائیں بائیں دیکھوگے تو تمہیں کوئی چیز نظر نہیں آئے گی اور اگر نیچے نظر ڈالوگے تو آتش جہنم کے سوا کچھ نہ دیکھ سکوگے۔ کاش تم ایک لمحے کے لیے اس پر غور کر کے اعمال نیک کی طرف آؤ۔تمہارے لیے ایک ہی بہتر راستہ ہے یعنی کلمہ طیبہ (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) اعمال حسنہ کا اجر دینے کے لیے دس سے لے کر سات سو بلکہ اس سے بھی زیادہ ضرب در ضرب بے شمار مثالیں ہیں۔ والسلام علی رسول اللہ ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔،،
أن الحمد ﷲ أحمده واستعينه، نعوذ باﷲ من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده اﷲ فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له. وأشهد أن لا إله إلا اﷲ (وحده لا شريک له)، إن أحسن الحديث کتاب اﷲ، قد أفلح من زينه اﷲ في قلبه وأدخله في الاسلام بعد الکفر و اختاره علي ماسواه من أحاديث الناس، إنه أحسن الحديث وأبلغه، أحبوا من أحب اﷲ، أحبوا اﷲ من کل قلوبکم (ولا تملوا کلام اﷲ وذکره ولا تقسي عنه قلوبکم) فانه من يختار اﷲ و يصطفي فقد سماه خيرته من الاعمال وخيرته من العباد والصالح من الحديث ومن کل ما أوتي الناس من الحلال والحرام فاعبد وا اﷲ ولا تشرکوا به شيئا واتقوه حق تقاته واصدقوا اﷲ صالح ما تقولون بأفواهکم وتحابوا بروح اﷲ بينکم إن اﷲ يغضب أن ينکث عهده والسلام عليکم ورحمة اﷲ و برکاته.
(البدايه والنهاية جلد 3، صفحه 214)
’’الحمدللہ! میں اس کی حمد کرتا ہوں اور اس سے امداد طلب کرتا ہوں، ہم اپنے نفس کے فتنوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں، اللہ جس کو گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں (وہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں) سب سے بہتر کلام اللہ تعالیٰ کی کتاب (قرآن) ہے، اس نے فلاح پائی جس کے قلب کو اللہ تعالیٰ نے زینت بخشی اور اسے کفر کے بعد اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور اسے اختیار بخشا کہ وہ ہدایات اسلام کے علاوہ دنیا کے تمام انسانوں کی باتوں کو رد کردے۔ کلام الہی سب سے زیادہ بہتر کلام ہے، اس کی تبلیغ کرو، جسے اللہ چاہے اسے تم بھی چاہو، اللہ کو اپنے دل کی تمام گہرائیوں سے چاہو، اللہ کے کلام اور اس کے ذکر کو نہ الٹ پلٹ کرو نہ اپنے قلوب میں اس کی کمی آنے دو، جسے اللہ تعالیٰ نے اختیار بخشا اور اس کے قلب کو مصفا بنایا اس نے (گویا) اس کے اعمال کو بھی نیک بنایا اور اپنے تمام بندوں میں اسے بھلائی کے لیے چن لیا، بہترین بات یہ ہے کہ کوئی دوسروں کو حرام و حلال میں فرق کرنا سکھائے۔ اللہ کی عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ، تقوی کو اتنا اختیار کرو جتنا اس کا حق ہے، جو کچھ منہ سے نکالویعنی جو بات کرو) اس میں اللہ کو حاضر وناظر جان کر صداقت کا سب سے زیادہ خیال رکھو، آپس میں جو معاہدہ کرو اسے خوشنودی خداوند کے لئے پورا کرو، کیونکہ جو معاہدات پورے نہیں کرتے ان سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ریاست مدینہ کے قیام کیلئے ابتدائی اقدامات :

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت حق کے آغاز میں اپنی دعوت کو ممکنہ حد تک وسعت پذیر کرنے کیلئے اقدامات فرمانے شروع کردیئے۔ مکہ مکرمہ میں ہونے والی شاید ہی کوئی ایسی عوامی و سماجی تقریب ہو جس میں گرد و نواح سے آنے والے لوگوں تک آ پ کی دعوت نہ پہنچی ہو یہی وجہ تھی کہ قریش مکہ باہر سے آنے والے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بدظن کرنے اور دور رکھنے کیلئے مصروف کار رہتے ان کی یہ منفی سرگرمیاں بھی ایک لحاظ سے اسلام ہی کے فروغ اور آپ کے تعارف کا باعث بنتیں۔
سال دس نبوی میں حج کے زمانے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبائل عرب میں دعوت حق کیلئے ایک رات نکلے آپ مقام عقبہ سے گزر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبیلہ خزرج کے کچھ لوگ ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں انہوں نے جواباً کہا کہ ہم قبیلہ خزرج کے کچھ لوگ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا آپ یہود کے ہمسائے ہیں انہوں نے کہا ہاں۔ ان سے ابتدائی تعارف کے بعد جو دراصل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ کے حالات پر گہری نظر اور مدنی قبائل کے بارے میں وسیع معلومات کا عکاس تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سامنے دعوت حق کا پیغام رکھا۔ انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن پڑھ کر سنایا ان لوگوں میں سے ایک شخصیت کا دل کلام الہی سے بے حد متاثر ہوا یہ خو ش نصیب حضرت ایاس بن معاذ رضی اللہ عنہ تھے وہ اپنے وفد کے لوگوں سے کہنے لگے اللہ کی قسم تم جس غرض سے یہاں آئے ہو یہ دعوت اس سے بدرجہا بہتر ہے لیکن قائد وفد نے ان کی بات نہ مانی تاہم حضرت ایاس ا بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرلیا۔
(البدايه ولنهايه)
بعض روایات کے مطابق اول وفد نے عرض کی کہ ابھی ہماری آپس میں اوس اور خزرج کی خانہ جنگی ہو رہی ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ا س وقت مدینہ تشریف لے آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت پر سب کا اجتماع نہ ہوسکے گا اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سال تک اس ارادہ کو ملتوی فرمائیں اور اس عرصہ میں خانہ جنگی صلح سے بدل جائے تو اوس و خزرج مل کر اسلام قبول کرلیں گے۔ آئندہ سال ہم پھر حاضر ہونگے اس وقت اس کا فیصلہ ہوسکے گا۔
(طبقات ابن سعد)
جب اس وفد کے لوگوں نے اسلام کا پیغام سنا تو وہ اس حقیقت کوجان گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی وہ پیغمبر آخر الزمان ہیں جن کا تذکرہ اکثر یہود کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے میں یہود سے سبقت لے جانے کے جذبہ کے تحت یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسلام میں داخل ہوگئے اور یثرب کو مرکز اسلام بنانے کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا وفد قرار پایا جس کی کوششوں سے انصار کے گھروں میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر نہ ہوتا ہو۔

بیعت عقبہ اولی

سال گیارہ نبوی میں حسب وعدہ بارہ اشخاص کا ایک وفد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے مکہ مکرمہ میں آیا۔ اس وفد میں پانچ افراد تو وہی تھے جو پچھلے سال آئے تھے اور سات ان کے علاو ہ تھے۔ ان لوگوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس پر بیعت کی اور یہ بیعت بیعت عقبہ اولیٰ کے نام سے مشہور ہوئی۔ بیعت کرنے والے حضرات کے نام یہ تھے :
  1. حضرت ابو امامہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ
  2. حضرت عوف بن الحارث رضی اللہ عنہ
  3. حضرت رافع بن مالک رضی اللہ عنہ
  4. حضرت ابو الہیثم مالک بن تیہان رضی اللہ عنہ
  5. حضرت عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ
  6. حضرت قطیہ بن عامر بن حدیدہ رضی اللہ عنہ
  7. حضرت معاذ بن حرث رضی اللہ عنہ
  8. حضرت عقبہ بن عامر
  9. حضرت زکوان بن قیس رضی اللہ عنہ
  10. حضرت خالد بن مخلد رضی اللہ عنہ
  11. حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ
  12. حضرت عباس بن عبادہ رضی اللہ عنہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے درج ذیل امور پر بیعت لی۔
  1. ہم اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں گے۔
  2. چوری سے باز رہیں گے۔
  3. زنا نہیں کریں۔
  4. اولاد (خصوصاً لڑکیوں) کو قتل نہیں کریں گے۔
  5. کسی پر جھوٹی تہمت نہیں لگائیں گے۔
  6. چغلی نہ کھائیں گے۔
  7. ہر اچھی بات (معروف) میں رسول اللہ کی اطاعت کریں گے۔
جن امور پر بیعت عقبہ اولیٰ ہوئی ان کے تحت مدینہ میں ایک اسلامی معاشرے کی بنیادیں رکھ دی گئیں جہاں ایک طرف یثرب میں موجود برائیوں کے قلع قمع کا عہد لیا گیا وہاں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا عہد بھی لیا گیا یعنی انفرادی اخلاقی اصلاح سے لے کر اجتماعی معاشرتی انقلاب تک کے تمام امور کو اجمالاً اس بیعت میں شامل کردیا گیا۔
بیعت کے بعد مدینہ رخصت ہونے سے قبل اہل وفد نے یہ درخواست کی کہ ہمارے ساتھ ایک معلم بھی بھیج دیجئے جو ہمیں دین کی تعلیم دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی درخواست کو منظور فرماتے ہوئے حضرت مصعب ابن عمیر رضی اللہ عنہ کو ان کے ہمراہ روانہ فرمایا۔ یثرب میں حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ جو کہ عمائدین یثرب میں سے تھے کو حضرت مصعب بن عمیر کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت مصعب ابن عمیر رضی اللہ عنہ کی کوششوں سے مدینہ سے قبا تک اسلام پھیل گیا۔ قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد ابن معاذ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرلینے سے پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔

بیعت عقبہ ثانیہ

حضرت مصعب ابن عمیر رضی اللہ عنہ کی دعوتی اور تبلیغی مساعی کا ثمر یہ سامنے آیا کہ نبوت کے بارہویں سال حج کے ایام میں حضرت مصعب ابن عمیر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جو قافلہ مکہ پہنچا وہ 73 تہتر مردوں اور دو عورتوں پر مشتمل تھا۔ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کے ارادے سے آئے تھے۔ ان لوگوں نے رات کی تاریکی میں انتہائی رازداری کے ساتھ ملاقات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قرآن حکیم پڑھ کر سنایا اور اسلام کی تلقین کی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے اس وفد میں اوس و خزرج دونوں قبائل کے لوگ موجود تھے جب وفد کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس پر بیعت شروع کی حضرت عباس جو اس وقت تک اگرچہ مسلمان نہیں ہوئے تھے بنو خزرج سے جو تعداد میں زیادہ تھے ایسا خطاب فرمایا جو نہ صرف اسلام کے انقلابی مزاج کا آئینہ دار ہے بلکہ وہ بیعت کے بعد آنے والے دور کے حالات پر بھی محیط تھا۔ اگرچہ یہ بیعت کفار مکہ سے خفیہ طے پارہی تھی مگر حضرت عباس کو اسلام قبول نہ کرنے کے باوجود اس موقع پر اپنے ساتھ لے جانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی بصیرت کا مظہر ہے کیونکہ اس بیعت کے مضمرات سے حضرت عباس ہی بیعت کرنے والو ں کو مطلع کرسکتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس پر بیعت کے بعد وہ اس حقیقت کو سمجھ سکیں کہ وہ اپنے آپ کو کن حالات کے سپرد کر رہے ہیں۔ حضرت عباس نے اپنے خطاب میں کہا تمہیں معلوم ہے کہ قریش مکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانی دشمن ہیں اگر تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی عہد و پیمان کرنے لگے ہو تو یہ سمجھ کر کرنا کہ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ ان سے عہد و اقرار کرنا سرخ و سیاہ طبقات سے جنگ کو دعوت دینا ہے۔ وہ تمہارے پاس جانا چاہتے ہیں ہم ان کے لئے ہمیشہ سینہ سپر رہے اگر تم بھی مرتے دم تک ان کا ساتھ دے سکو تو بہتر ورنہ ابھی جواب دے دو۔ جو اقدام بھی کرو سوچ سمجھ کر کرو ورنہ کچھ بھی نہ کرو۔ حضرت عباس کے خطاب کے بعد ابو الہیثم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوکر عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !ہم یہود کے حلیف ہیں اس بیعت کے بعد ان سے ہمارے تعلقات ختم ہوجائیں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قوت و اقتدار حاصل ہوجائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں چھوڑ کر اپنے وطن واپس لوٹ جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں تمہارا خون میرا خون ہے۔ تم میرے اور میں تمہارا ہوں۔
جن امور پر بیعت کے دوران آپ نے زور دیا وہ یہ تھے۔
  1. کہ تم دین حق کی اشاعت میں میرے ساتھ پورا پورا تعاون کروگے۔
  2. جب میں تمہارے شہر میں جا کر قیام پذیر ہو جاؤں تو تم میری اور میرے ساتھیوں کی حمایت اپنے اہل و عیال کی طرح کرو گے۔
یہ سن کر خزرج کے سردار براء ابن معرور نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دست اقدس تھام لیا اور عرض کیا ’’خدا کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا ہے ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی طرح حفاظت کریں گے جس طرح اپنی عورتوں کی کرتے ہیں۔ ہم خدا کی قسم جنگ جو اور سامان حرب والے ہیں۔،،
جب بیعت ہوچکی اور اس امر کا فیصلہ ہوگیا کہ اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فروغ دعوت حق کے لئے مدینہ منتقل ہونگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں سے بارہ نقیب منتخب فرمائے تھے اسی طرح میں بھی جبریل کے اشارہ سے تم میں سے بارہ نقیب منتخب کرتا ہو ں تاکہ یہ لوگ اپنی اپنی قوم کے کفیل اور ذمہ دار ہوں۔ جس طرح حواری عیسیٰ علیہ السلام کے کفیل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہ اشخاص کا انتخاب فرمایا جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں:۔

قبیلہ خزرج

  1. اسعدبن زرارہ رضی اللہ عنہ
  2. سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ
  3. عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ
  4. سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ
  5. منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ
  6. براء بن معرور رضی اللہ عنہ
  7. عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ
  8. عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ
  9. رافع بن مالک رضی اللہ عنہ

قبیلہ اوس

  1. اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ
  2. ابو الہیثم بن تیہان رضی اللہ عنہ
  3. سعد بن خثیمہ رضی اللہ عنہ
بیعت عقبہ ثانیہ ان امور کے حوالے سے جن پر بیعت کی گئی بیعت عقبہ اولیٰ سے کلیتہ مختلف تھی۔ بیعت عقبہ اولٰی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ میں ایک اخلاقی اور معاشرتی انقلاب کی بنیاد رکھی تھی۔ جبکہ اس بیعت کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف اہل وفد سے اسلام کے لئے کٹ مرنے اور دین حق کی حمایت میں جان تک لڑا دینے کا عہد لے لیا بلکہ ہر موثر گروہ پر اپنا نقیب بھی مقرر کردیا دراصل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اقدام بالواسطہ طور پر مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقتدار کے قیام کی علامت تھا۔

ہجر ت مدینہ

بیعت عقبہ ثانیہ ایک لحاظ سے اس امر کا اعلان تھی کہ مستقبل قریب میں تحریک اسلام کا مرکز مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ منتقل کردیا جائے گا۔ اس بیعت کے ساتھ ہی آپ نے مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت فرما دی۔ ہجرت کا حکم ملتے ہی مسلمان آہستہ آہستہ یثرب چلے گئے۔ ہجرت اتنے وسیع پیمانے پر ہوئی کہ مکہ میں محلے کے محلے خالی ہوگئے۔ اہل اسلام کی مکہ سے مدینہ ہجرت جہاں نئے مرکز اسلام میں اہل حق کی افرادی قوت کا باعث تھی وہاں ان مہاجرین کی تبلیغی و دعوتی مساعی کی بدولت فروغ اسلام کا سبب بھی تھی۔

ہجرت کے لئے حبشہ پر مدینہ کو ترجیح دینے کی وجوہات :

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آٹھ سال قبل بھی کفار مکہ کے مظالم کے وجہ سے اہل اسلام کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود حبشہ ہجرت نہ فرمائی جبکہ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے لیے آپ نے باقاعدہ منصوبہ بندی کی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کے لئے حبشہ پر مدینہ کو ترجیح اس لئے دی کہ :۔
1۔ حبشہ میں باقاعدہ حکومت موجو د تھی۔ نجاشی شاہ حبش کی فرماں روائی میں وہاں ایک باقاعدہ سیاسی نظام چل رہا تھا۔ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی حبشہ ہجرت فرماتے تو ایک سیاسی حکومت میں مہمان یا عام شہری کی حیثیت سے آپ تشریف لے جاتے جبکہ مدینہ میں طویل خانہ جنگی کی وجہ سے نراج کی کیفیت تھی۔ اور کوئی باقاعدہ حکومت موجود نہ تھی۔ اس طرح مدینہ منورہ میں اس امر کے زیادہ مواقع موجود تھے کہ آپ وہاں ایک باقاعدہ سیاسی مملکت کی بنیاد رکھ سکتے۔
2۔ حبشہ میں بہت سے مسلمان پہلے سے موجود تھے اس طرح ان پر زیادہ بوجھ ڈالنا کسی طرح بھی مناسب نہ تھا۔
3۔ حبشہ کا سفر دشوار بھی تھا اور اسے طے کرنے کے لئے سمندر عبور کرنا پڑتا تھا، مکہ کے حالات اور کفار و مشرکین کی مسلسل سازشوں کے سبب سے حبشہ کا سفر کسی طور محفوظ نہ تھا۔
4۔ حبشہ کی کسی ذمہ دار جماعت نے قبول اسلام کے بعد بیعت عقبہ ثانیہ کی طرز کا کوئی معاہدہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حبشہ آنے اور حبشہ کو مرکز اسلام بنانے کی دعوت نہ دی تھی۔ اس طرح سیاسی و معاہداتی تحفظ اس امر کا متقاضی تھا کہ آپ حبشہ کی بجائے مدینہ میں ہی تشریف لے جاتے۔
5۔ بیعت عقبہ اولیٰ و ثانیہ کے بعد مختلف مبلغین اور نقباء کے تقرر سے یثرب میں اسلام کے فروغ اور قبول عام کی فضا سے یہ حقیقت ھویدا تھی کہ حبشہ کی نسبت مدینہ میں فروغ اسلام کے زیادہ مواقع تھے۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ اور اہل مدینہ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ :۔
’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایسے بھائی اور ایسا گھر فراہم کردیا ہے کہ وہاں بے خوف و خطر رہ سکتے ہو۔،،
(البدايه والنهايه)
6۔ مدینہ منورہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ننھیال تھے۔ اس حوالے سے آپ کئی بار مدینہ تشریف لے گئے تھے اور شہر مدینہ کے ماحول اور وہاں کے پورے نقشہ سے آپ پوری طرح آگاہ تھے۔
7۔ حبشہ کی سر زمین قریش کی تجارتی منڈی تھی۔ جہاں جاکر وہ تجارت کرتے تھے۔ حبشہ میں اہل مکہ کے کثرت سے آمد ورفت کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ حبشی زبان کے کئی الفاظ عربوں کے ہاں مستعمل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے بھی متعدد حبشی الفاظ کو استعمال کیا ہے اپنے مخاطبین کو سمجھانے کے لئے سمندر کے حالات طوفان، خراب موسم اور کشیتوں کے چلنے جیسے حوالوں کو استعمال کیا ہے۔ جن سے عربوں کی شناسائی کا ایک بڑا سبب ان کا سفر حبشہ بھی تھا۔ عربوں کے اہل حبشہ سے گہرے تجارتی اور معاشی تعلقات بھی تھے کہ جب مسلمان ہجرت کے بعد حبشہ پہنچے تو انہیں ملک بدر کروانے کے لئے قریش مکہ نے عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ جیسی امیر اور تاجر شخصیات کو سفیر بنا کر حبشہ روانہ کیا۔ اگرچہ اس وقت مسلمانوں کی حکمت عملی اور نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر کے خطاب نے قریش کی اس سازش کو ناکام بنا دیا مگر مستقبل میں اس امر کا امکان موجود تھا کہ قریش مکہ اپنے اسی تعلق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کے لئے کوئی بڑی مشکل کھڑی کردیتے۔ اندریں حالات یہ قرین مصلحت تھا کہ حبشہ کی بجائے مدینہ منورہ کو ہی نئے مرکز اسلام کے لئے منتخب کیا جاتا۔

ہجرت کے وقت مدینہ کے حالات کا تجزیہ

اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے وقت کے مدینہ کے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہی کہ اس دور کے مدینہ کے حالات اس حوالے سے سازگار تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شہر کو مرکز اسلام بنا کر وہاں سے دعوت حق اور غلبہ دین کی جدوجہد کو موثر انداز میں آگے بڑھاتے اور وہ تمام تر مشکلات جن کا سامنا آپ کو مکہ میں تھا ان سے ماوراء ہوکر تحریک اسلام کے فروغ کے لئے اقدامات فرماتے۔
اس دور میں یثرب میں دو قومیں آباد تھیں۔
  1. یہود
  2. مشرک اور بت پرست
چونکہ یہود سماجی معاشی اور سیاسی اعتبار سے ایک با شعور قوم تھے انہوں نے صنعت و تجارت اور معاشرت و معیشت پر اپنی گرفت مضبوط کررکھی تھی ان کی حریف قوم اوس اور خزرج دو قبیلوں میں منقسم تھی چونکہ یہ دونوں قبیلے جنگجو فطرت کے حامل تھے اس لیے ان کی متحدہ قوت کسی وقت بھی یہود کے لئے خطرہ بن سکتی تھی۔ سو یہود کی قوت اور سیاسی و سماجی حیثیت کی بقا، تحفظ اور تسلسل اس صورت میں ممکن تھا کہ اوس و خزرج کسی طور بھی متحد نہ ہوتے اور باہم انتشار و افتراق کا شکار رہتے۔ یہود کی ان سازشوں کا نتیجہ یہ تھا کہ اوس اور خزرج باہمی نفاق کا شکار تھے اور کبھی متحد نہ ہوسکے تھے۔ اسی وجہ سے وہ معاشی اور معاشرتی طور پر مدینہ کے معاشرے میں پسماندہ تھے۔ قبل ہجرت کے زمانے میں یہود کی سازشوں کی وجہ سے ان پر جنگ کے بادل چھائے ہوتے تھے۔ چونکہ اوس، خزرج کے مقابلے میں کمزور تھے انہوں نے خزرج کے متقابل موثر مزاحمت کے لئے قریش مکہ کو اپنا حلیف بنانے کے لئے کوشش کی۔ انہی کوششوں کے دوران وہ اسلام کی دعوت سے بھی روشناس ہوئے تھے۔
سال 2 قبل ہجرت میں ہی اوس اور خزرج کو جنگ بعاث کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ اس میں اوس اور خزرج کے حلیف یہودیوں قبائل نے بھی حصہ لیا مگر بڑا جانی و مالی نقصان انہی قبائل کو ہوا جس کے نتیجے میں وہ عسکری، معاشی، سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے کمزور ہوگئے۔ گو انہیں یہود کی سازشی حکمت عملی کا ادراک تھا مگر آپس کی ناچاقی، خلفشار و انتشار کے سبب سے وہ یہود کے خلاف کوئی موثر حکمت عملی اختیار نہ کرسکتے تھے۔ علاوہ ازیں یہود کو ان پر ایک نفسیاتی برتری بھی حاصل تھی جس کے سبب اوس و خزرج احساس کمتری کا شکار رہتے تھے۔ یہود اکثر اپنی الہامی کتب کی اس پیش گوئی کو بیان کرتے تھے کہ ’’عنقریب نبی آخر الزمان کا ظہور ہونے والا ہے۔ ہم اس کی پیروی کریں گے اور اس کے ساتھ مل کر تمہیں ہلاک کردیں گے جس طرح عاد و ارم ہلاک ہوئے تھے۔ ،،
اس پیش گوئی ہی کا اثر تھا کہ جب مدینہ سے مکہ آنے والے وفد نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی اور دعوت اسلام سنی تو نبی آخر زماں پر ایماں میں سبقت لے جانے کے جذبے کے تحت فوراً دین اسلام قبول کرلیا اور ان کی ایمان و اسلام کی یہ اندرونی تحریک بالاخر بیعت عقبہ ثانیہ پر منتج ہوئی۔
اوس وخزرج کے مابین ہونے والی جنگ بعاث کے اثرات بہت ہی مہلک، انتشار انگیز اور تباہ کن تھے۔ جب جنگ ختم ہوئی تو سیاسی انارکی کا ماحول تھا۔ اوس و خزرج کے ارباب و اکابرین نے اس امر کا فیصلہ کیا کہ دونوں قبیلوں میں تنازعات کے خاتمے اور اتحاد و اتفاق کے قیام کے لئے کسی ایک شخص کو متفقہ طور پر بادشاہ بنا دیا جائے۔ گویا کہ اس ماحول میں مدینہ میں ایک مستقل سیاسی خلا موجود تھا جسے پر کرنے کے لئے خود مدینہ کے لوگ کسی قابل اعتماد، معتبر، اور متفقہ قیادت کے متلاشی تھے۔ اسی اثناء میں عبداللہ بن ابی بن سلول کے متفقہ حکمران کے طور پر تقرری پر لوگ رضامند ہوگئے۔ قبل اس کے کہ اس باقاعدہ حکمرانی کا اعلان ہوتا ہجرت نبوی وقوع پذیر ہوگئی اور اس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمہ گیر اور ’’قابل قبول قیادت کے سامنے عبداللہ بن ابی کا چراغ نہ جل سکا۔ اس صدمے کو عبداللہ بن ابی زندگی بھر نہ بھلا سکا۔ اور سازشوں کے تانے بانے بنتا رہا تاآنکہ اپنے نفاق کی بدولت وہ رئیس المنافقین بن گیا۔
ہجرت کے وقت کا انتخاب جس میں بلا شبہ الوہی راہنمائی کا عنصر بھی شامل تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثال بصیرت اور حکمت عملی کا مظہر تھا۔ کیونکہ بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد مسلمانوں نے آپ کی اجازت سے مکہ سے مدینہ ہجرت شروع کردی تھی مگر آپ اپنی ہجرت کو مسلسل ملتوی فرماتے رہے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بار بار اجازت طلب کرنے کے باوجود آپ نے انہیں بھی روکے رکھا کیونکہ :۔
1۔ شروع ہی میں اگر آپ مکہ سے مدینہ ہجرت فرما جاتے تو مکہ میں رہ جانے والے کثیر تعداد میں مسلمانوں میں بددلی پھیلتی لہذا ضروری تھا کہ جب تک مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد مدینہ نہ پہنچ جاتی آپ مکہ میں ہی قیام پذیر رہتے۔
2۔ آپ کے مقرر کردہ نقباء اور مبلغین اگرچہ مدینہ میں دعوتی اور تبلیغی کوششیں جاری رکھے ہوئے تھے مگر پھر بھی مدینہ کے سیاسی نراج کی کیفیت میں یہ ضروری تھا کہ مکہ سے کچھ لوگ ہجرت کرکے پہلے مدینہ چلے جائیں تاکہ اہل مدینہ کے اسلام قبول کرنے پر مخالفین کی طرف سے آپ کی آمد کے بعد کی مزاحمت کی صورت میں افرادی قوت کا اضافہ ہوچکا ہوتا۔
3۔ اگرچہ مکہ میں شروع دن سے ہی کفار و مشرکین نے آپ کے خلاف اور اہل اسلام کے خلاف ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا مگر یہ آپ کا کمال صبر و تحمل اور ضبط و استقلال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت تک اپنا گھر نہ چھوڑا جب تک آپ کو یہ اطلاع نہ ملی کہ قریش کے سردار آپ کی جان کے درپے ہوگئے ہیں۔ اندریں حالات آپ نے اس وقت مکہ چھوڑا جبکہ آپ کے در اقدس کا قتل کے ارادے سے محاصرہ کیا جاچکا تھا۔
4۔ مکہ میں آپ صادق و امین مشہور تھے۔ کفار کی تمام تر مخالفتوں کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں کی ایک معتبر، قابل اعتماد اور قابل بھروسہ شخصیت تھے۔ اکثر لوگوں کی امانتیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھیں۔ مکہ چھوڑنے سے قبل ضروری تھا کہ آپ ان امانتوں کو ان کے مالکوں تک پہنچانے کا باقاعدہ انتظام فرماتے جیسا کہ کتب سیرت سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ چھوڑنے سے قبل حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ ذمہ داری سونپی۔
5۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصود صرف ہجرت ہی نہ تھا بلکہ مدینہ کو مرکز اسلام بنا کر وہاں ایک آزاد اسلامی ریاست کا قیام بھی تھا۔ اگرچہ جنگ بعاث کے بعد مدینہ کے قبائل سیاسی استحکام کی تلاش میں تھے مگر بجائے مدینہ جاکر اسلامی اقتدار کے قیام کے لئے از خود مہم جوئی کے یہ زیادہ مناسب تھا کہ حالات کے فطری ارتقاء کے تحت اس مناسب وقت کا انتظار کیا جاتا کہ ماضی کے خلفشار اور باہمی جنگ و جدل کے اثرات سے تنگ آئے ہوئے قبائل خود اس نتیجے پر پہنچ جاتے کہ مدنی قبائل کو کسی متفقہ سیاسی قیادت کے تحت متحد کردیا جائے۔
ان حالات میں ہجرت مدینہ ظہور پذیر ہوئی، اور آپ کے مدینہ تشریف لے جاتے ہی آزا د اسلامی ریاست کی تشکیل عمل میں آگئی اور میثاق مدینہ طے پایا جس کے تحت تمام طبقات مدینہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سربراہ حکومت تسلیم کرلیا۔

میثاق مدینہ کے اثرات :

دنیا کے پہلے تحریری دستور ’’میثاق مدینہ،، کے تحت نہ صرف مدینہ میں موجود تمام طبقات ایک سیاسی وحدت میں بدل گئے اور وہاں کافی عرصے سے رائج سیاسی نراج، سیاسی استحکام میں بدل گیا بلکہ تحریک اسلام کے حوالے سے بھی میثاق مدینہ کے دیرپا اثرات مرتب ہوئے۔ جو تحریک اسلام کے فروغ اور سر زمین عرب میں کفر و شرک کے خاتمے پر منتج ہوئے :۔
1۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تشخص صرف دعوتی یا تبلیغی ہی نہ رہا بلکہ آپ کو سربراہ مملکت تسلیم کرلیا گیا۔ اسی طرح اس دستور کے تحت سیاسی، سماجی، عسکری اور قانونی و عدالتی اختیارات کا مرکز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ کو تسلیم کرلیا گیا۔
2۔ مدینہ میں پہلی مرتبہ ایک باقاعدہ منظم ریاست وجود میں آئی۔ اور اسے ایک مضبوط آئینی و دستوری اساس فراہم کردی گئی جسے داخلی یا خارجی دشمنوں کی کوئی بھی سازش متزلزل نہ کرسکی۔
3۔ اسلام کو ایک مذہبی تحریک سے ماسوا مدینہ میں مختلف طبقات کی موجودگی کے باوجود ایک سیاسی قوت بھی تسلیم کرلیا گیا۔
4۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی حیثیت کے اعتراف نے مدینہ و گرد و نواح میں اسلام کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
5۔ یہ معاہدہ تحریک اسلام کی تاریخ میں ایک بہت بڑی پیش قدمی تھا۔ جس سے اسلام کو بے شمار علاقائی، سماجی، سیاسی اور مذہبی اکائیوں میں ایک نمایاں حیثیت مل گئی اسلام ایک مذہبی و دعوتی تحریک سے بلند ہوکر اس دورکی باقاعدہ سیاسی حکومتوں اور سلطنتوں کی سطح پر آگیا۔
6۔ مسلمان مکہ سے مدینہ میں نو آور د تھے۔ جہاں کے مختلف سیاسی، سماجی اور معاشرتی حالات میں قدم جمانے کے لئے مسلمانوں کو پر امن فضا درکار تھی۔ اگرچہ اب وہ کفار مکہ کی ستم آرائیوں سے محفوظ و مامون ہوچکے تھے مگر وہ اس حقیقت سے بھی غافل نہ تھے کہ کفار مکہ مسلسل ان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ میثاق مدینہ کے تحت یہود اور مشرک قبائل ان کے حلیف بن گئے اور ریاست مدینہ کے دفاع کی ذمہ داری کو سب نے مشترکہ طور پر قبول کرلیا۔ اگر میثاق مدینہ کے ذریعے مسلمانوں نے اپنی دفاعی حکمت عملی کو ٹھوس اور محفوظ بنیادوں پر استوار نہ کرلیا ہوتا تو کفار کی مدینہ کی طرف پیش قدمی کی صورت میں مسلمان اتنا موثر ردعمل نہ ظاہر کرسکتے اور اپنے دفاع میں انہیں کہیں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔
7۔ میثاق مدینہ نے دفاعی معاہدہ ہونے کے ناطے ریاست مدینہ کے لئے ایک حفاظتی حصار کا کام کیا۔ اس کے علاوہ گرد و نواح کے قبائل پر مسلمانوں کی فوقیت اور برتری کی دھاک بیٹھ گئی کیونکہ مدینہ طیبہ میں یہود نے جو کہ غیر معمولی اثر و رسوخ کے حامل تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی حاکمیت اور اقتدار کو تسلیم کرلیا تھا۔ اگرچہ قبل ازیں اسلام کو ایک نیا مذہب سمجھ کر اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی مگر اس نمایاں سیاسی پیش رفت کے بعد گرد و نواح کے قبائل نے بھی اسلام کا دست و باز بننا شروع کردیا۔
8۔ میثاق مدینہ میں تمام ریاستی طبقات کے ساتھ برداشت، بقائے باہمی اور احترام و وقار کا سلوک روا رکھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صلح جو، اعلی ظرف اور معتدل مزاج قیادت کا تصور ابھرا۔ اس طرح مخالفین نے آپ کے خلاف جو غلط فہمیاں پھیلا رکھی تھیں وہ چھٹنے لگیں۔ عوام الناس کو آپ کے قریب آنے کا موقع ملا اور اس طرح تحریک اسلام کے فروغ کا باعث بنا۔
9۔ میثاق مدینہ کے تحت ریاست مدینہ میں ایک عادلانہ اور منصفانہ معاشرے کا قیام ممکن ہوا۔ اس سے قبل مذہبی اور سماجی اختلافات و تضادات کے باعث ہر قبیلہ اپنے اپنے رسوم و رواج کے تحت مقدمات کا فیصلہ کرتا تھا۔ میثاق مدینہ کے تحت پہلی مرتبہ یہاں ایک مرکزی عدالتی نظام وجود میں آیا۔ جس کے تحت آخر ی اعلی ترین عدالتی اتھارٹی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلیم کیا گیا۔ اگرچہ میثاق مدینہ کے تحت لوکل لاء کا احترام بھی محفوظ رکھا گیا مگر ایک مرکزی عدالتی نظام کے قیام سے باہمی تضادات اور قانونی انتشار کا خاتمہ ہوگیا۔
10۔ میثاق مدینہ کی کثیر الجہاتی افادیت ہی کا نتیجہ تھا کہ اسلام کی قوت میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ ہجرت کے وقت مہاجر و انصار صحابہ کرام کی تعداد 400 تھی۔ صلح حدیبیہ کے وقت یعنی 6 ھ جری میں یہ تعداد 1400 ہوگئی جبکہ فتح مکہ کے وقت مسلمانوں کا لشکر 10,000 افراد پر مشتمل تھا۔ طائف کے محاصرے میں 12,000 مسلمان شریک تھے اور ہجر ت کے صرف 10 سال بعد حجۃ الوداع کے تاریخی موقع پر موجود مسلمانوں کی تعداد سوا لاکھ کے قریب تھی۔ 10 سال کے قلیل عرصے میں سر زمین عرب کے وسیع و عریض حصہ اور کثیر تعداد افراد کو اسلام کا حصہ بنا دینا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثال بصیرت، اور موثر و نتیجہ خیز حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔ جس میں میثاق مدینہ کو ایک اساسی سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ 
 


میثاق مدینہ کی خصوصیات

میثاق مدینہ نہ صرف دنیا کا پہلا تحریری دستور ہونے کے ناطے امتیازی حیثیت کا حامل ہے بلکہ اپنے نفس مضمون اور مافیہ کے اعتبار سے بھی اعلیٰ ترین دستوری و آئینی خصوصیات کا مرقع ہے۔ اگر جدید آئینی و دستوری معیارات اور ضوابط کی روشنی میں میثاق مدینہ کا تجزیہ کیا جائے تو وہ تمام بنیادی خصوصیات جو ایک مثالی آئین میں ہونی چاہئیں، میثاق مدینہ میں موجود نظر آتی ہیں جن میں سے چند ایک کا تذکرہ ذیل میں کیا گیا ہے۔
1۔ اللہ تعالی کی حاکمیت اعلیٰ
 

(Sovereignty of Almighty Allah)
2۔ رسول اللہ کی حاکمیت
(State Authority of the Holy Prophet)
3۔ تحریری دستور
(Written Constitution)
4۔ مستقل آئینی اساس
(Permanent Constitutional Foundation)
5۔ تقسیم اختیارات کا تصور
(Devolution of Powers)
6۔ متوازن دستور
(Balanced Constitution)
7۔ مملکت کی اخلاقی اساس
(Moral Foundation of State)
8۔ آئینی طبقات کا تصور
(Concept of Constitutional Communities)
9۔ سیاسی وحدت کا تصور (تصور مملکت)
(Concept of Political Unity)
10۔ امت مسلمہ کا تصور
(Concept of Muslim Ummah)
11۔ قانون کی حکمرانی اور نظام کی بالا دستی
(Rule of Law)
12۔ مقامی رسوم و قوانین کا احترام
(Respect of Local Customs & Law)
13۔ معاشی کفالت کا تصور
(Concept of Economic Support)
14۔ دفاعی معاہدہ
(Defence Pact)
15۔ بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت
(Guarantee of Fundamental Human Rights)
16۔ مذہبی آزادی کا تحفظ
(Protection of Religious Freedom)
17۔ اقلیتوں کا تحفظ
(Protection of Minorities)
18۔ خواتین کے حقوق کا تحفظ
(Protection of Women's Rights)
19۔ مخالفین کی سازشوں کا تدارک
(Eradication of Opponents' Conspiracies)
20۔ مدینہ کا دارالامن قرار دیا جانا۔
(Madina was Declared Sanctuary)

1۔ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ
(Sovereignty of Almighty Allah)

ریاست مدینہ کا پہلا دستور اس لحاظ سے تاریخ اسلام میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ باوجودیکہ اس ریاست میں مختلف مذہبی اور نسلی قومیتیں آباد تھیں جن کے وجود کو آئینی طور پر اس دستور میں تسلیم بھی کیا گیا، یہ امر اصولی طور پرطے کر دیا گیا کہ ریاستی معاملات اللہ تعالی کی حاکمیت اعلی کے تحت ہی چلائے جائیں گے۔ حاکمیت اعلی کو کسی دنیاوی شخصیت یا ادارے کی بجائے اللہ تعالی سے متعلق کر دینا ہی وہ بنیادی خشت اول تھی جس نے اسلامی ریاست کو ایک غیر اسلامی ریاست سے ممتاز کر دیا۔ میثاق مدینہ میں یہ قرار دیا گیا کہ حاکمیت اعلی اللہ تعالی ہی کے لئے ہے اور ہر انفرادی اور اجتماعی و ریاستی معاملے میں اللہ تعالی ہی کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
و انکم مما اختلفتم فيه من شيء فان مرده الي الله و الي محمد
(آرٹيکل : 28)
اوریہ کہ جب کبھی تم میں کسی چیز کے متعلق اختلاف ہوتو اسے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے گا (کیونکہ آخری اور حتمی حکم اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ہے)
و انه ما کان بين اهل هذه الصحيفة من حدث او اشتجار يخاف فساده فان مرده الي الله و الي محمد رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم و ان الله علي اتقي ما في هذه الصحيفة و ابره
(آرٹیکل : 52)
اور یہ کہ اس دستور والوں میں جو بھی قتل یا جھگڑا رونما ہو جس سے فساد کا ڈر ہو اس میں خدا اور خدا کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رجوع کیا جائے گا اور خدا اس شخص کے ساتھ ہے جو اس دستور کے مندرجات کی زیادہ سے زیادہ احتیاط اور زیادہ سے زیادہ وفا شعاری کے ساتھ تعمیل کرے۔
جبکہ مغربی تصور ریاست میں حاکمیت اعلی کا تعلق ریاست کے نمائندہ مقتدر ادارے کے ساتھ ہے مثلاً برطانیہ کے قانون کے مطابق :
"The law assumes that Parliament is omnipotent and paramount. It can make or unmake laws on any matter what-so-ever."
(Finer, S.E., Five Constitutions)
اسی طرح ریاستہائے متحدہ امریکہ کے دستور کی آرٹیکل I میں قرار دیا گیا :
"All legislative powers herein granted shall be vested in a Congress of the United States, which shall consist of a Senate and House of Representatives."
یعنی حاکمیت اعلی کے تعین نے اسلامی اور غیر اسلامی ریاست کے مزاج، تشکیل اور اس کے نظام کار کی ہیت میں واضح امتیاز پیدا کر دیا کیونکہ حاکمیت اعلی رب ذوالجلال کے لئے ہی قرار دینے میں انسانیت کی فلاح کا راز مضمر ہے اور حاکمیت اعلی کا مقصود اسی طور حاصل ہو سکتا ہے :
"Sovereignty is not an end itself; it is a means to government just as government is not an end but a means to the good life."
(Levontin, The Myth of International Security)
یعنی ایک مثالی فلاحی معاشرے کا قیام تب ہی ممکن ہے جب اس کی اساس الوہی قانون ہو جو نہ صرف اپنی جامعیت کے حوالے سے جملہ شعبہ ھائے حیات کو محیط ہو گا بلکہ اس کی اطاعت بھی دنیاوی قوانین کے مقابلے میں بتمام و کمال کی جائے گی، حاکمیت اعلی اس تصور کو دستور میں شامل کر کے درج ذیل مقاصد کے حصول کو ممکن بنا دیا گیا :
  1. کہ اس دستور کے تحت قائم ریاست کے افراد رواداری، برداشت اور بقائے باہمی کے اصولوں پر کاربند ہوں۔
  2. افراد ریاست اپنے اس رویہ سے ایک فلاحی اور احترام حقوق پر مشتمل معاشرہ تشکیل دیں جو قوانین کی بلا امتیاز پابندی سے عبارت ہو۔
  3. افراد ریاست احترام حقوق و قیام امن ہی کے علمبردار نہ ہوں بلکہ ان کی باہمی یگانگت اس امر کی ضامن ہو کہ وہ کسی بیرونی قوت کی جارحیت کا شکار نہ بنیں بلکہ جہاں دوسری اقوام ان کی طرف سے امن وآشتی کے رویہ کا عملی مظاہرہ دیکھ رہی ہوں وہاں وہ دوسری اقوام کی طرف سے کسی بھی جارحیت پر اس کا موثر تدارک بھی کر سکیں۔
اس طرح کا معاشرہ تب ہی وجود میں آ سکتا تھا جب تمام افراد معاشرہ اپنے ہر نوعیت کے رشتہ و قرابت (Near & Dear) کو خاطر میں لائے بغیر دستور و قانون کی پابندی کرتے اور یہ پابندی اللہ تعالی کی حاکمیت اعلی کو تسلیم کئے بغیر ممکن نہ تھی۔ اس لئے اس حاکمیت اعلی کو تسلیم کرنے کے عملی اظہار کے لئے دستور میں یہ شق رکھی گئی :
و ان المومنين المتقين ايديهم علي کل من بغي منهم او ابتغي دسيعة ظلم او اثما او عدوانا او فسادا بين المومنين و ان ايديهم عليه جميعا ولو کان ولد احدهم
(آرٹیکل : 16)
اور متقی ایمان والوں کے ہاتھ ہر اس شخص کے خلاف اٹھیں گے جو ان میں سرکشی کرے یا استحصال بالجبر کرنا چاہے یا گناہ یا تعدی کا ارتکاب کرے یا ایمان والوں میں فساد پھیلانا چا ہے اور ان کے ساتھ سب مل کر ایسے شخص کے خلاف اٹھیں گے خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
اللہ تعالی کے حاکمیت اعلی کے تصور کو معناً و عملاً دستور کا جزو لاینفک بنانے کے لئے دستور کے آخر میں آرٹیکل : 60 میں اس حقیقت کو بیان کر دیا گیا کہ اس دستور کو اللہ تعالی کی منظوری (Approval) اور حمایت (Favour) حاصل ہے :
و ان الله علی اصدق ما فی هذه الصحيفة و ابره
اور جو کچھ اس دستور میں شامل ہے اسے اللہ تعالی کی منظوری اور حمایت حاصل ہے۔
اس آرٹیکل کی رو سے :
  1. اس دستور کے جملہ مندرجات کی منظوری حاکم اعلی (Supreme Sovereign) یعنی اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی۔
  2. اس دستور کی پابندی کرنے والوں کو الوہی حمایت (Favour of Supreme Sovereign) کا حقدار قرار دیا گیا۔

2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاکمیت
(State Authority of the Holy Prophet SAW)

چونکہ میثاق مدینہ میں یہ امر اصولی طور پر طے کر دیا گیا کہ ریاستی معاملات اللہ کی حاکمیت کے تحت ہی چلائے جائیں گے۔ لہذا اس آئینی اصول کو عملی شکل دینے کیلئے تمام ریاستی اختیارات (State Authority) کا مرکز و محور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرار دیا گیا۔ اگرچہ اس دور تک ریاستی اداروں (State Organs) کی باقاعدہ تقسیم عمل میں نہیں آئی تھی، بایں ہمہ تمام شعبہ ہائے ریاست کے امور کی انجام دہی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات اور رہنمائی کا پابند ٹھہرایا گیا اور یہ اصول بیان کردیا گیا کہ جہاں کہیں بھی کوئی اختلاف، تضاد یا الجھاو پیدا ہوگا تو اس کے حل کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہی رجوع کیا جائے گا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اس عالم دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے نمائندہ اور اس کے احکامات بندوں تک پہنچانے والے ہیں۔ دستور کے آرٹیکل 28 میں قرار دیا گیا ہے کہ : ۔
وانکم مما اختلفتهم فيه من شئ فان مرده الی الله والی محمد
اور یہ کہ جب کبھی تم میں کسی چیز کے متعلق اختلاف ہو تو اسے طے کرنے کے لئے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رجوع کیا جائے گا۔ ( کیونکہ آخری اور حتمی حکم اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ہے)
اسی طرح آرٹیکل 52 میں کہا گیا : ۔
وانه ما کان بين اهل هذه الصحيفة من حدث او اشتجار يخاف فساده فان مدده الي الله والي محمد رسول الله و ان الله علياتقي ما في هذه الصحيفة و ابره.
اور یہ کہ اس دستور والوں میں جو کوئی قتل یا جھگڑا رونما ہو جس سے فساد کا ڈر ہو تو اس میں اللہ اور اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رجوع کیا جائے گا۔ اور خدا اس شخص کے ساتھ ہے جو اس دستور کے مندرجات کی زیادہ سے زیادہ احتیاط اور زیادہ سے زیادہ وفاشعاری کے ساتھ تعمیل کرے گا۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں کفر اور شرک کا دور دورہ ہو اللہ کی حاکمیت کو دستوری طور پر رائج کردینا اور اس معاشرے میں موجود مختلف طبقات سے اسے تسلیم کروا لینا بلا شبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عدیم المثال سیاسی بصیرت کا ثبوت ہے۔ جملہ ریاستی معاملات میں اللہ کی طرف رجوع کرنا دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع کرنا ہے یعنی اللہ کی حاکمیت کا کوئی بھی تصور رسول اللہ کی اطاعت کے بغیر ممکن نہیں اسی لئے اس بنیادی آئینی اور دستوری اصول کو میثاق مدینہ کے پہلے آرٹیکل میں طے کر دیا گیا : ۔
هذا کتاب من محمد النبی (رسول الله) صلی الله عليه وآله وسلم
یہ اللہ کے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دستوری تحریر ہے۔
دستور کا منبع ذات نبوت کو قرار دے کر اس امر کو بھی طے کردیا گیا کہ ایک اسلامی ریاست میں ذات نبوت کی دستوری حیثیت کیا ہوگی۔ گویا اسلامی ریاست کے پہلے دستور میں : ۔
  1. مدینہ کے تمام طبقات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاکمیت کو منوا کر آپ کے ریاست اسلامی کے مقتدر اعلی ہونے کو واضح کر دیا گیا اور یہ کہ ایک اسلامی ریاست میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکمل اطاعت کے بغیر اللہ کی حاکمیت کا کوئی تصور نہیں۔
  2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دستور دہندہقرار دے کر اس امر کا فیصلہ کردیا گیا کہ اسلامی ریاست کے تمام شعبہ جات بشمول انتظامیہ، عدلیہ، مقننہ اور دفاع کے مقتدر اعلیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہوں گے۔ اور تمام متعلقہ معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو حکم کی حیثیت حاصل ہوگی۔
  3. ھذا کتاب من محمد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلمات ایک لطیف آئینی و دستوری نکتے کا مظہر ہیں۔ کہ ریاست اسلامی کا مطاع مشھود ذات نبوت ہی ہوگی اور آپ کی اطاعت سے ہی اطاعت و اتباع ربانی حقیقت پذیر ہوگی۔

3۔ تحریری دستور
(Written Constitution)

دنیا کی سیاسی اور آئینی و دستور ی تاریخ میں یہ امتیاز صرف میثاق مدینہ کو حاصل ہے کہ ریاست مدینہ کا دستور ہونے کے ناطے یہ دنیا کا پہلا تحریری دستور ہے۔ تاریخ انسانی کے مختلف ادوار میں سیاسی قواعد و ضوابط اور حکمرانی کے اصولوں کے حوالے سے کئی افکار و قوانین کو تحریری شکل میں لکھا گیا۔ مثلا منوسمرتی (500 ق م) جو راجہ کے فرائض پر مشتمل ہے کوتلیا کی آرتھ شاستر (300 ق م) اور اس کے ہم عصر ارسطو (384۔ 322 ق م) کی تحریروں کو سیاسیات پر مشتمل تصانیف گردانا جاتا ہے اسی طرح گزشتہ صدی میں شہر اینتھنز کا دریافت ہونے والا دستور ہے مگر ان تمام تحریروں کی حیثیت حکمرانی کے لئے نصیحتی و مشاورتی یا درسی نوعیت کی ہے اور ان میں سے کوئی بھی تحریر ایسی نہیں ہے جسے کسی باقاعدہ اور منظم ریاست کا قابل نفاذ دستور کہا جاسکے۔
میثاق مدینہ کے ذریعے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ ایک باقاعدہ تحریری دستور کا تصور دیا بلکہ وہ مذہب جس کی تبلیغ آپ مکہ میں فرما رہے تھے۔ مدینہ آتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی سیاسی حیثیت کو اس نئے شہر کے مختلف المذاہب باسیوں سے منوا لیا۔ اس دستور کے ذریعے سے : ۔
  • آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کا باقاعدہ تعین فرمایا۔
  • مہاجرین مکہ کی آباد کاری (Rehabilitation) اور ان کی معاشی بحالی کا انتظام فرمایا۔
  • شہر مدینہ کے غیر مسلموں اور خصوصا یہود سے معاہداتی تعلق استوار کر کے اپنے فروغ و نفوذ کے امکانات کو وسیع کرلیا۔
  • شہر مدینہ کے نظم و نسق و تحفظ کے لئے آئینی، سیاسی اور دفاع و عسکری اقدامات کرلئے۔
  • قریش مکہ کی طرف سے مسلمانوں کو پہنچنے والے ممکنہ خطرات سے تحفظ کے لیے اقدامات فرما لئے۔
دستور مدینہ کو تحریری طور پر تشکیل دینے کے حوالے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی بصیرت اس بات سے ہویدا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نینہ صرف اس دستور کو خود تحریر کروایا بلکہ اسے ’’ھذا کتاب من محمد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،، قرار دیا۔ کتاب جہاں ایک طرف لکھے ہوئے مسودہ کی طرف اشارہ ہے وہاں اس امر کی وضاحت بھی ہے کہ یہ ایک مقتدر اعلی شخصیت کی طرف سے نافذ العمل قانون ہے۔ حالانکہ اس زمانے میں آپ نے اپنے ذاتی اقوال و فرامین لکھنے سے کم از کم نو عمر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو منع فرمایا ہوا تھا۔

4۔ مستقل آئینی اساس
(Permanent Constitutional Foundation)

میثاق مدینہ صرف ریاست مدینہ ہی کا آئین نہیں ہے بلکہ یہ دستاویز اسلامی ریاست کیلئے بنیادی اور مستقل آئینی اساس کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ وہ تمام بنیادی اصول جو اس دستاویز میں طے کئے گئے وہ اسلام کی تعلیمات کے ارتقاء کے باوجود موجود رہے اور مزید ترقی پذیر روایت کی شکل اختیار کرتے رہے مثلاً اللہ تعالی کی حاکمیت کو اس دستور کا بنیادی عنصر قرار دیا گیا جسے قرآن حکیم نے قانونی شکل میں یوں بیان کیا :
ومن لم يحکم بما انزل الله فاولئک هم الکفرون
(5 : 44)
اور جو کوئی اس کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے فیصلہ نہ کرے تو وہی لوگ کفر کرنے والے ہیں۔
ومن لم يحکم بما انزل الله فاولئک هم الظلمون
(5 : 45)
اور جو کوئی اس کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے فیصلہ نہ کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
ومن لم يحکم بما انزل الله فاولئک هم الفسقون
(5 : 47)
اور جو کوئی اس کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے فیصلہ نہ کرے تو وہی لوگ فاسق (گنہگار) ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دستور میں مقتدر اعلی اور مطاع مشہود قرار دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقام کو قرآن حکیم نے ایک مستقل اور ابدی قانون کی شکل میں یوں بیان کیا :
وما اتاکم الرسول فخذوه وما نهکم عنه فانتهوا
(59 : 7)
اور جو کچھ رسول تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع فرما دیں اس سے رک جاؤ۔
من يطع الرسول فقد اطاع الله
(4 : 80)
جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔
يايها الذين امنوا اطيعوا الله و اطيعوا الرسول و اولي الامر منکم فان تنازعتم في شيء فردوه الي الله و الرسول ان کنتم تومنون بالله واليوم الاخر ذلک خير و احسن تاويلا
(4 : 59)
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے (اہل حق) صاحبان امر کی۔ پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہمی اختلاف کا شکار ہو جاؤ تو اسے (حتمی فیصلہ کیلئے) اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹا دو۔ اگر تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو یہ (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔
اسی طرح بنیادی انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی، اقلیتوں کے تحفظ، خواتین کے حقوق کا تحفظ، معاشی کفالت کا تصور اور دیگر بنیادی اصول جو میثاق مدینہ میں طے کئے گئے آنے والے نظام قانون و سیاست میں ایک اساس کے طور پر قائم رہے جو مسلم امہ کی قابل فخر دستوری و آئینی روایت (Constitutional Tradition) کی حیثیت رکھتے ہیں۔

5۔ تقسیم اختیارات کا تصور
(Devolution of Powers)

میثاق مدینہ کے تحت وجود میں آنے والی ریاست مدینہ میں مہاجرین، انصار اور مدینہ کے غیر مسلموں اور ان کے متبعین پر مشتمل کئی ریاستی اکائیاں شامل تھیں ان کے باہمی اشتراک سے وجود میں آنے والی ریاست میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سربراہ تسلیم کر لیا گیا۔ اس دستور کے تحت جہاں مختلف مملکتی طبقات کو آئینی طور پر Define کیا گیا، ان کے باہمی حقوق و فرائض اور آئینی ذمہ داریوں کو بیان کیا گیا وہاں اس امر کا لحاظ بھی رکھا گیا کہ آئینی قواعد و ضوابط کی پابندی ہر سطح پر یقینی ہو اور ہر سطح پر معاملات کو آئینی طور پر چلایا جا سکے اس کے لئے میثاق مدینہ میں تقسیم اختیارات کا تصور رکھا گیا تاکہ مقامی سطح پر نظم و ضبط کے قیام کے لئے انتظامی اختیارات تفویض کئے جائیں :
المهاجرون من قريش علی ربعتهم يتعاقلون علي ربعتهم يتعاقلون بينهم معاقلهم الاولي وهم يفدون عانيهم بالمعروف والقسط بين المومنين
(آرٹیکل : 4)
قریش میں سے ہجرت کر کے آنے والے اپنے محلے پر (ذمہ دار) ہوں گے اور اپنے خون بہا باہم مل کر دیا کریں گے تاکہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف کا ہو۔
اس آرٹیکل میں مقامی سطح پر ذمہ داری اور اختیارات کی تفویض کی حکمت بھی بیان کر دی گئی کہ اس کا مقصود ہر سطح پر پابندی قانون اور انصاف کا قیام ہے۔ اسی طرح آرٹیکل : 5 سے آرٹیکل : 12 تک میں بنو عوف، بنو حارث، بنو ساعدہ، بنو جشم، بنو نجار، بنو عمرو، بنو نبیت اور بنو اوس کے لئے بھی ان کے قبائلی قوانین دیات کی توثیق کو بیان کیا گیا۔
ریاست مدینہ کے دفاع کے لئے بھی مختلف طبقات ریاست کی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے یہ قرار دیا گیا کہ :
علی کل اناس حصتهم من جانبهم الذی قبلهم
(آرٹیکل : 57 )
ہر گروہ کے حصے میں اسی رخ کی مدافعت آئے گی جو اس کے مقابل ہو۔
مقامی سطح پر تقسیم اختیارات کے ان آئینی اہتمامات (Constitutional Provisions) کے باوجود اس تقسیم اختیارات کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریاستی حکمرانی (State Authority) کے ماتحت رکھا گیا :
و انکم مما اختلفتم فيه من شیء فان مرده الی الله و الی محمد
(آرٹیکل : 28)
اوریہ کہ جب کبھی تم میں کسی چیز کے متعلق اختلاف ہوتو اسے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے گا (کیونکہ آخری اور حتمی حکم اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ہے)

6۔ متوازن دستور
(Balanced Constitution)

اسلام ایک فطری اور وسعت پذیر دین ہے جو اپنی عالمگیر یت کے سبب ہر صاحب عقل سلیم کو اپنے دائرہ اثر میں لے لیتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دستور کوتحریر کرواتے وقت اسلام کی انہی خصوصیات کو میثاق مدینہ کی بنیاد بنایا۔ اور آنے والے دور کے نئے امکانات کو نظر انداز نہ کیا۔ حد سے زیادہ جامد یا غیر لچکدار کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے متوازن رکھا اور اسے وسعت پذیری کی خصوصیات سے مملو کرتے ہوئے مزید طبقات کی شمولیت کی گنجائش اور امکان کو دستور میں شامل کیا گیا، آرٹیکل نمبر 2 میں لکھا گیا: ۔
بين المومنين والمسلمين من قريش و (اهل) يثرب ومن تبعهم فلحق بهم وجاهد معهم.
یہ معاہدہ قریش میں سے مسلمانوں اور اہل یثرب میں سے ایمان اور اسلام لانے والوں اور ان لوگوں کے مابین ہے جو ان کے تابع ہوں اور ان کے ساتھ شامل ہوجائیں اور ان کے ہمراہ جنگ میں حصہ لیں۔
اس آرٹیکل کے مطابق اس امر کو طے کردیا گیا کہ اگرچہ اساسی طور پر تو میثاق مدینہ قریش اور مدنی مسلمانوں کے درمیان طے پا رہا ہے مگر اس کے مطابق مستقبل میں کسی بھی دوسرے طبقے کی دستور ہذا کی شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے اس معاہدے میں شمولیت پر کوئی پابندی نہیں۔ بلکہ ہر وہ طبقہ جو مستقبل میں ان مذکورہ لوگوں کی اتباع اور ان کے ہمراہ جنگ میں حصہ لینا قبول کرلیں وہ بھی اس دستور کے تحت طے پانے والے معاہدہ عمرانی کا حصہ بن سکتے ہیں۔
اس طرح دستور ہذا کے آرٹیکل نمبر 20 میں درج کیا گیا: ۔
و انه من تبعنا من يهود فان له النصر والاسوة و غير مظلومين ولامتناصر عليهم
اور یہ کہ یہودیوں میں سے جو ہماری اتباع کرے گا تو اسے مدد اور مساوات حاصل ہوگی نہ ان پر ظلم کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی مدد دی جائے گی۔
چونکہ یہودی مدینہ میں آباد ایک موثر سیاسی گروہ تھے۔ لہذا ان سے مستقبل میں کسی بھی طرح کے سیاسی تعلق کار کو خارج از امکان نہیں قرا ر دیا گیا اور اس کے لئے دستوری گنجائش (Constitutional Provision) رکھی گئی کہ اگر مستقبل میں یہودی میثاق مدینہ میں طے کئے گئے دستوری لائحہ عمل کی پابندی اور اہل ایمان کی اتباع کی راہ اختیار کریں تو انہیں بھی مدد، مساوات حاصل ہوگی اور ظلم و تعدی سے تحفظ دیا جائے گا میثاق مدینہ کے اسی Constitutional Provision کی وجہ سے آنے والے زمانے میں یہودی بھی مسلمانوں کے ساتھ اس دستور میں شریک ہوگئے اور غزوہ بدر کے بعد جب مسلمانوں کا اقتدار مزید مستحکم ہوتا نظر آیا تو یہودی اس امر پر مجبور ہوگئے کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ میثاق مدینہ کے اندر رہتے ہوئے ماتحتانہ تعاون کریں کیونکہ اس سے ان کی مذہبی آزادی بھی محفوظ ہوسکتی تھی۔ اگر دستور کا مزاج غیر لچکدار (Rigid) رکھا گیا ہوتا اور دیگر طبقات کی اس وفاقی وحدت (Federal Unity) میں شمولیت کی گنجائش نہ رکھی گئی ہوتی تو شاید یہود غزوہ بدر کے بعد مسلمانوں سے اشتراک عمل کی بجائے اپنی مذہبی آزادی کے تحفظ کے لئے کسی دوسری راہ کا انتخاب کرتے۔ غزوہ بدر کے بعد یہود کی میثاق مدینہ میں شمولیت کا تذکرہ کرتے ہوئے امام ابو داود نے اپنی کتاب سنن میں (سنن ابی داود کتاب الخراج باب کیف کان اخراج الیھود من المدینہ رقم : 3000) دستور ہذا کے حصہ دوم کو جنگ بدر کے بعد کا واقعہ قرار دیا ہے۔

7۔ مملکت کی اخلاقی اساس
(Moral Foundation of State)

میثاق مدینہ میں مختلف طبقات ریاست کے حقوق و فرائض، ریاست کے مختلف اداروں کے وظائف اور آئینی و دستوری نظم کے قیام کے لئے قواعد و قوانین ہی نہیں بیان کئے گئے بلکہ ان قواعد و قوانین پر عمل درآمد کے لئے اخلاقی و روحانی اساس بھی مہیا کی گئی۔ کیونکہ ایک مضبوط اخلاقی و روحانی اساس کے بغیر محض قوانین پر عمل درآمد کا تقاضا کما حقہ نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا بقول روسو:
’’ریاست کے لئے نہایت ضروری ہے کہ ہر شہری کا ایسامذہب ہو جس کی وجہ سے اسے ادائیگی فرض میں خوشی حاصل ہو مگر اس کے مذہبی عقائد نہ ریاست سے کوئی تعلق رکھتے ہوں نہ جماعت سے، سوائے اس کے کہ ان کا اثر اخلاق اور ان کے فرائض پر پڑے جو ’’حقوق العباد،، سے متعلق ہیں،،۔
(معاهده عمرانی از ژان ژاک روسو)
یعنی مغربی مفکرین نے بھی مذہب کے بارے میں جزوی نکتہ نظر کا حامل ہونے کے باوجود ایک مثالی ریاست کے لئے اس کی اخلاقی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔
میثاق مدینہ میں ایک صالح، آئین و قانون کے پابند معاشرے کے قیام کے لئے اخلاقی و روحانی اساس فراہم کی گئی :
و ان البر دون الاثم لا يکسب کاسب الاعلی نفسه
(آرٹیکل : 59)
(ریاست مدینہ کے شہریوں سے) نیکی کی توقع کی جاتی ہے نہ کہ گناہ اور عہد شکنی کی اور یہ کہ جو کوئی جس طرح کا عمل کرے گا (نیکی یا برائی) اس کے اثرات اس کی ذات پر مرتب ہوں گے۔
و ان الله جار لمن بر و اتقی و محمد رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم
(آرٹیکل : 63 )
اور اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے نگہبان ہیں جو نیکی اور تقوی (اعلی کردار) کا حامل ہو۔

8۔ آئینی طبقات کا تصور (Concept of Constitutional Communities)

میثاق مدینہ میں ریاست کے آئینی طبقات کا تصور دیا گیا جو اس آئین و دستور کی اطاعت کے پابند ہوں گے۔ آرٹیکل نمبر 2 میں لکھا گیا : ۔
بين المومنين والمسلمين من قريش و (اهل) يثرب و من تبعهم فلحق بهم و جاهد معهم
یہ معاہدہ قریش میں سے مسلمانوں اور اہل یثرب میں سے ایمان اور اسلام لانے والوں اور ان لوگوں کے مابین ہے جو ان کے تابع ہوں اور ان کے ساتھ شامل ہوجائیں اور ان کے ہمراہ جنگ میں حصہ لیں۔
اس طرح اس آرٹیکل کے تحت ریاست مدینہ کے درج ذیل آئینی طبقات قرار پائے۔
  1. مہاجرین (قریش کے مسلمان لوگ)
  2. اہل یثرب میں سے مسلمان لوگ
  3. وہ لوگ جو مذکورہ دونوں طبقات کے ساتھ الحاق کریں اور شرائط الحاق بشمول جہاد کی پابندی کریں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آئینی طبقات کی تخصیص و تشکیل کرتے وقت دستور میں حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو عام طبقات سے بالاتر رکھا گیا۔ اگر دستور کی آرٹیکل نمبر 1 اور 2 کو تقابلی انداز سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اس نو تشکیل شدہ دستور میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آئینی حیثیت مطاع (Super-Ordinate) اور دیگر طبقات کی آئینی حیثیت مطیع (Sub-Ordinate) کی ہے۔ آئینی حیثیت کے تعین کایہی فرق امت مسلمہ کو آئین و دستور سازی کے حوالے سے رہنما اصول بھی عطا کرتا ہے۔

9۔ سیاسی وحدت کا تصور(تصور مملکت)
(Concept of Political Unity)

میثاق مدینہ میں دینی، مذہبی اور اعتقادی وحدت سے ماسوا سیاسی اور معاہداتی وحدت کا تصور بھی دیاگیا۔ یہ تصور سیاسی مفہوم کی ایک ایسی نئی توسیع تھا جس کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ مملکت کے اندر دینی اور مذہبی وحدت کے علاوہ موجود دیگر اکائیوں کو ایک جاندار ریاستی کردار عطا کرنے کیلئے ضروری تھا کہ انہیں بھی ایک ایسا باوقار سیاسی، ریاستی مقام دیا جاتا کہ وہ بھی اپنے آپ کو ریاست کا ایک عضو فعال تصور کرتے ہوئے ایک ذمہ دار کردار ادا کرتے۔ اس لئے وہ تمام فریق جن کے درمیان میثاق مدینہ طے پایا اور ان کی اتباع میں مستقبل میں اس میثاق میں شریک ہونے والے فریقوں کو میثاق مدینہ کے آرٹیکل نمبر 3 کے تحت وحدت قرار دیا گیا۔
انهم امت واحدة ومن دون الناس
تمام دنیا کے لوگوں کے مقابل میثاق مدینہ میں شریک فریقوں کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت ہوگی۔
اسی طرح میثاق مدینہ کی آرٹیکل نمبر30 میں قرار دیا گیا کہ
و ان يهود بني عوف امت مع المومنين لليهود دينم وللمسلمين دينهم مواليهم وانفسهم الا من ظلم و اثم فانه لا يوتغ الا نفسه و اهله بيته
اور نبی عوف کے یہودی مومنین کے ساتھ سیاسی وحدت تسلیم کیے جاتے ہیں یہودیوں کو ان کا دین اور مسلمانوں کو ان کا دین موالی ہوں یا اصل ہاں جو ظلم یا عہد شکنی کا ارتکاب کرے تو اس کی ذات یا گھرانے کے سوائے کوئی مصیبت میں نہیں پڑے گا۔

10۔ امت مسلمہ کا تصور
(Concept of Muslim Ummah)

میثاق مدینہ میں جہاں ایک طرف ریاست کی سیاسی وحدت کا تصور دیا گیا وہاں امت مسلمہ کا الگ سے تشخص اجاگر کر کے مستقبل میں پیدا ہونے والے اس مغالطے کا ازالہ بھی کردیا گیا کہ ریاست کے تمام فریقوں کے ایک سیاسی وحدت ہونے کے ناطے مسلم اور غیر مسلم ایک ہی آئینی مرتبے (Constitutional Status) کے حامل ہیں بلکہ میثاق مدینہ کی متعدد دفعات میں امت مسلمہ کا فائق اور ریاست کے دیگر آئینی طبقات سے ممتاز مقام واضح کیا گیا۔ امت مسلمہ کے الگ وحدت کے تصور کو دفعہ نمبر 19 میں یوں بیان کیا گیا۔
و ان المومنين بعضهم موالي بعض دون الناس
اور ایمان والے باہم بھائی بھائی ہیں ساری دنیا کے لوگوں کے مقابل
ریاستی معاملات میں امت مسلمہ کے کردار کا تعین آرٹیکل نمبر21 میں یوں کیا گیا : ۔
و ان سلم المومنين واحدة لا يسالم مومن دون مومن في قتال في سبيل الله الا علي سواء وعدل بينهم
اور ایمان والوں کی صلح ایک ہی ہوگی اللہ کی راہ میں لڑائی ہوگی تو کوئی ایمان والا دوسرے ایمان والے کو چھوڑ کر دشمن سے صلح نہیں کرے گا جبکہ یہ صلح ان کیلئے برابر و یکساں نہ ہو۔
آرٹیکل نمبر 23میں بیان کیا گیا :
و ان المومنين يبيئ بعضهم عن بعض بمانال دماؤهم في سبيل الله
اور ایمان والے باہم اس چیز کا انتقام لیں گے جو خدائی راہ میں ان کو پہنچے۔
اس طرح ریاست مدینہ میں میثاق مدینہ کے تحت آئینی و دستوری پابندی کو امت مسلمہ کا خاصہ قرار دیا گیا۔
آرٹیکل نمبر 24 کے مطابق
و ان المومنين المتقين علی احسن هدی واقوامه
اور بے شک متقی ایمان والے سب سے اچھے اور سب سے سیدھے راستے پر ہیں۔
آرٹیکل نمبر 27 میں قرا ر دیا گیا : ۔
و انه لا يحل مومن اقربما في هذه الصحيفة وامن بالله واليوم الاخر ان ينصر محدثا او يوويه و ان من نصره او آواه فان عليه لعنة الله و غضبه يوم القيمة ولا يوخذ منه صرف ولا عدل
اور کسی ایسے ایمان والے کے لئے جو اس دستور العمل کے مندرجات کی تعمیل کا اظہار کرچکا اور خداو یوم آخرت پر ایمان لاچکا ہو یہ بات جائز نہ ہوگی کہ کسی قاتل کو مدد یا پناہ دے اور جو اسے مدد یا پناہ دے اس پر قیامت میں خدا کی لعنت اور غضب نازل ہونگے اور اس سے کوئی رقم یا معاوضہ قبول نہ ہوگا۔
اسی طرح خون مسلم کی حرمت کے تصور کو اس دستور میں اجاگر کیا گیا آرٹیکل نمبر 26 میں قرار دیا گیا۔
و انه من اعتبط مومنا قتلا عن بينة فانه قود به الا ان يرضي ولي المقتول بالعقل و ان المومنين عليه کافة ولا يحل لهم الاقيام عليه
اور جو شخص کسی مومن کو عمدا قتل کرے اور ثبوت پیش ہو تو اس سے قصاص لیا جائے گا۔ بجز اس کے کہ مقتول کا ولی خون بہا پر راضی ہوجائے اور تمام ایمان والے اس کی تعمیل کیلئے اٹھیں اور اس کی تعمیل کے سوا انہیں کوئی چیز جائز نہ ہوگی۔

11۔ قانون کی حکمرانی اور نظام کی بالادستی
(Rule of Law)

اس دستور کے تحت قانون کی حکمرانی کو لازمی قرا ردیا گیا اور کئی دفعات کے تحت ایسے اقدامات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ نو تشکیل شدہ ریاست مدینہ کے اندر ایک ایسا ماحول پیدا کیا جاسکے جہاں کوئی بھی ریاستی فریق قانون کی حکمرانی سے بغاوت نہ کرسکے۔
آرٹیکلنمبر 17 کے مطابق :
ولا يقتل مومن مومنا فی کافر ولا ينصر کافرا علی مومن
اور کوئی ایمان والا کسی ایمان والے کو کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کرے گا اور نہ کسی کافر کی کسی ایمان والے کے خلاف مدد کر ے گا۔
اسی طرح اہل ایمان کے درمیان بھی مختلف معاملات اور امور کے ضمن میں قانون، اصول اور ضابطے کی پاسداری کو لازمی قرار دیا گیا۔ آرٹیکل نمبر 15 کے مطابق :
و ان لا يحالف مومن مولی مومن دونه
اور یہ کہ کوئی مومن کسی دوسرے مومن کے مولی (معاہداتی بھائی) سے خود معاہدہ برداری پیدا نہیں کرے گا
اسی طرح اس دستور میں قانون پر عمل درآمد میں حائل تمام تر ممانعات کا تدارک کیا گیا تاکہ ریاست کے اندر ہر شخص کو جان مال اور آبرو کا تحفظ میسر آسکے آرٹیکل نمبر 42 کے مطابق : ۔
وانه لا ينحجز علی ثار جرح
اور کسی مار، زخم کا بدلا لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی
آرٹیکل نمبر 43 کے مطابق : ۔
و انه من فتک بنفسه فتک و اهل بيته الامن ظلم و ان الله علي ابرهذا
جو خون ریزی کرے تو اس کی ذات اور اس کا گھرانہ ذمہ دار ہوگا ورنہ ظلم ہوگا۔ اور خدا اس کے ساتھ ہے جو اس دستور العمل کی زیادہ سے زیادہ وفا شعارانہ تعمیل کرے۔

12۔ مقامی رسوم و قوانین کا احترام
(Respect of Local Customs & Laws)

میثاق مدینہ کی شکل میں اگرچہ ریاست مدینہ کو قومی زندگی کا ایک نیا ضابطہ دیا گیا تاکہ قومی سطح پر نظم و نسق پیدا کیا جاسکے مگر آئین و قانون کی تشکیل نو کے اس مرحلے پر اس حکمت کو نظر انداز نہیں کیا گیا کہ صدیوں سے رائج رسوم و رواج سے عوام الناس کو یک لخت علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا ایک نیا دستور متعارف کراتے ہوئے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ کے مختلف فریقوں کے پہلے سے مروجہ مقامی قوانین کو نظر انداز نہیں فرمایا بلکہ حتی الامکان حد تک انہیں ریاستی دستور کے اندر Accommodate کیا گیا۔
دستور کے آرٹیکل 4 سے 12 تک جب مختلف آئینی طبقات کے لئے قانون دیت کے نفاذ کی بات کی گئی تو یہ قرار دیا گیا کہ مہاجرین، قریش، بنی عوف، بنی حارث، بنو ساعدہ، بنو جشم، بنو نجار، بنو عمرو، بنو نبیت اور بنو اوس خون بہا کی ادائیگی کے لئے اپنے اپنے قبائلی قوانین کی پابندی کریں گے۔

13۔ معاشی کفالت کا تصور
(Concept of Economic Support)

اسلامی ریاست حقیقی معنوں میں ایک فلاحی ریاست ہوتی ہے جس کے شہریوں کو نہ صرف جان و مال کا تحفظ حاصل ہوتا ہے بلکہ افراد معاشرہ کو بنیادی لوازمات حیات کی فراہمی کیلئے بھی ریاست ممکنہ اقدامات بروئے کار لاتی ہے۔ معاشی کفالت کے اس تصور کو میثاق مدینہ کا جزو بھی بنایا گیا۔ آرٹیکل نمبر 14 میں یہ قرار دیا گیا کہ
’’اور ایمان والے کسی قرض کے بوجھ سے دبے ہوئے کو مدد کیے بغیر نہیں چھوڑیں گے جن کے ذمہ زر فدیہ یا دیت ہے،،
آرٹیکل نمبر 13 میں ہر ریاستی طبقہ کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ اپنے گروہ کے قیدیوں کا زر فدیہ ادا کرے۔
وکل طائفة تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المومنين
ہر گروہ اپنے قیدیوں کا زر فدیہ ادا کر کے (اسے رہائی دلائے گا) اور اس ضمن میں مسلمانوں کے درمیان قانون انصاف کے بلا امتیاز اطلاق کو یقینی بنائے گا،،

14۔ دفاعی معاہدہ
(Defence Pact)

میثاق مدینہ نہ صرف ایک سیاسی دستور کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ یہ ریاست مدینہ کے شہریوں کیلئے ایک دفاعی معاہدہ بھی تھا۔ جس کے اندر نہ صرف ریاست مدینہ کے دفاع کیلئے ضروری امور کو طے کرلیا گیا بلکہ اس بنیادی ضابطے کو بھی طے کر دیا گیا کہ جس طرح دستوری، قانونی، انتظامی اور عدالتی اختیارات کا منبع اور سرچشمہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے اسی طرح ریاست کی اعلیٰ ترین فوجی قیادت (Commander in Chief) بھی آپ ہی کی ذات ہوگی۔ آرٹیکل نمبر41 کے مطابق : ۔
وانه لا يخرج منهم احد الا باذن محمد
اور یہ کہ ان میں سے کوئی بھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت کے بغیر فوجی کارروائی کیلئے نہیں نکلے گا،،
ریاست کی اعلی ترین فوجی قیادت کے تعین کے بعد ان امور کو میثاق مدینہ میں بیان کیا گیا : ۔
1۔ جنگی اتحادیوں کیلئے امداد باہمی پر مبنی قانون متعارف کروایا گیا۔
و ان کل غازيه غزت معنا يعقب بعضها بعضا
(آرٹیکل 22)
اور ان تمام اتحادیوں کو جو ہمارے ہمراہ جنگ کریں باہم نوبت بہ نوبت چھٹی دلائی جائے گی۔
2۔ یہودی مسلمانوں کے جنگی اتحادی ہونے کے ناطے مسلمانوں کے ساتھ جنگی اخراجات بھی برداشت کریں گے۔
و ان اليهود ينفقون مع المومنين ما داموا محاربين
(آرٹیکل 29)
اور یہودی اس وقت تک مومنین کے ساتھ اخراجات برداشت کرتے رہیں گے جب تک وہ مل کر جنگ کرتے رہیں گے۔
3۔ جہاں ضرور ی ہو وہاں یہود اور مسلمان اپنے اپنے جنگ کے اخراجات جداگانہ برداشت کریں گے۔
و ان علی اليهود نفقتهم و علی المسلمين نفقتهم
(آرٹیکل44)
اور یہودیوں پر ان کے خرچ کا بار ہوگا اور مسلمان پر ان کے خرچ کا
4۔ اس دستور میں شریک تمام فریقین پر باہم ایک دوسرے کا دفاع لازم ہوگا۔
و ان بينهم النصر علی من حارب اهل هذه الصحيفه
(آرٹیکل 45)
اور جو کوئی اس دستور والوں سے جنگ کرے تو ان (یہودی اور مسلمانوں) میں باہم امداد عمل میں آئے گی
5۔ بیرونی حملہ کی صورت میں ریاست مدینہ کا دفاع سب کی مشترکہ ذمہ داری ہوگی
و ان بينهم النصر علی من دهم يثرب
(آرٹیکل54)
کسی بیرونی حملہ کی صورت میں ریاست مدینہ کا دفاع یہودی و مسلمانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہوگی۔
6۔ ہر فریق ریاست کی طرف سے طے پانے والے معاہدہ امن کی لازمی پابندی کرے گا۔
واذا دعوا الی صلح يصالحونه ويلبسونه فانهم يصالحونه ويلبسونه و انهم اذا دعوا الي مثل ذلک فانه لهم علي المومنين
(آرٹیکل 55)
اور اگر ان کو کسی صلح میں مدعو کیا جائے تو وہ بھی صلح کریں گے اور اس میں شریک رہیں گے اور اگر وہ کسی ایسے ہی امر کی طرف بلائیں تو مومنین کا بھی فریضہ ہوگا کہ ان کے ساتھ ایسا ہی کریں گے۔
7۔ میثاق مدینہ دفاعی معاہدہ ہونے کے ناطے ایک سیاسی اور ریاستی دفاعی معاہدہ ہوگا نہ کہ دینی و مذہبی دفاعی معاہدہ یعنی ریاست مدینہ یا اس کے کسی بھی فریق کا طے کردہ کوئی بھی دفاعی معاہدہ امت مسلمہ کی حفاظت دین کی ذمہ داری کو معطل نہیں کرسکتا۔
(فانه لهم علی المومنين) الا من حارب فی الدين
(آرٹیکل 56)
اسی طرح مسلمانوں پر لازم ہے کہ اگر انہیں کسی امن معاہدے میں شرکت کی دعوت دی جائے تو وہ اس کی پابندی کریں گے بجز اس کے کہ کوئی دینی جنگ کرے۔

15۔ بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت
(Guarantee of Fundamental Human Rights)

میثاق مدینہ میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا۔ اس امر کا لحاظ رکھا گیا کہ ریاست کے شہریوں کا حق زندگی، حق ملکیت اور جمہوری آزادی کسی طور پر بھی متاثر نہیں ہو گی یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جدید مہذب دنیا نے اس حوالے سے بہت بعد میں ارتقائی منازل طے کیں۔ 26 جون 1945ء کو اقوام متحدہ کا چارٹر منظور کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے قیام کے مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے آرٹیکل 1 (3) میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا تذکرہ کیا گیا :
"Article 1 :
The Purposes of the United Nations are :
3. To achieve international co-operation in solving international problems of an economic, social, cultural, or humanitarian charachter, and in promoting and encouraging respect for human rights and for fundamental freedoms for all without distinction as to race, sex, language, or religion; ........"
(Phyllis Bennis, Calling the Shots)
’’اقوام متحدہ کے قیام کے مقاصد یہ ہیں کہ :
3۔ عالمی سطح پر اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانی (حقوق ) کے مسائل کو حل کرنے کے لئے بین الاقوامی تعاون کا حصول تاکہ انسانی حقوق کا فروغ و حوصلہ افزائی اور بغیر نسل، جنس، زبان یا مذہب کی تمیز کے بنیادی آزادیوں کی فراہمی ممکن ہوسکے،،
اسی طرح اس چارٹر کے آرٹیکل 55میں بنیادی حقوق کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ طے کیا گیا :
"Article 55 :
With a view to the creation of conditions of stability and well-being which are necessary for peaceful and friendly relations among nations based on respect for the principle of equal rights and self-determination of peoples, the United Nations shall promote :
a. higher standars of living full employment, and conditions of economic and social progress and development;
b. solutions of international economic, social, health, and related problems; and international cultural and educational co-operation; and
c. universal respect for, and observance of, human rights and fundamental freedoms for all without distinction as to race, sex, language, or religion."
(Phyllis Bennis, Calling the Shots)
’’عالمی سطح پر اقوام عالم کے مابین برابر حقوق اور عوام کے حق خود ارادیت کے اصول کی بنیاد پر امن اور دوستانہ تعلقات کے قیام کے لئے اولین ضرورت یعنی استحکام اور بہبود کے حصول کے لئے اقوام متحدہ بایں طور کوشاں رہے گی کہ :
  • اعلیٰ معیار زندگی، کلی روزگار، اور اقتصادی و سماجی ترقی کو فروغ دیا جائے گا۔
  • بین الاقوامی اقتصادی، سماجی اور صحت سے متعلقہ مسائل کو حل کیا جائے گا اور بین الاقوامی ثقافت و تعلیمی تعاون کو فروغ دیا جائے گا اور
  • عالمی سطح پر رنگ و نسل، جنس، زبان یا مذہب کے امتیاز کے بغیر انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام کو فروغ دیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کا ’’عالمی منشور حقوق انسانی،، 10 دسمبر 1948ء کو منظور کیا گیا اگرچہ یہ ایک اعلان تھا نہ کہ معاہدہ جس کی پابندی تمام اقوام عالم پر ضروری ہوتی پھر بھی اکثر ممالک نے اس کے حق میں ووٹ دینے سے اجتناب کیا۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی اگر مغربی معاشرے میں بنیادی حقوق کی صورت حال اتنی حوصلہ افزاء نہیں۔ مغرب میں مدتوں عورت کو قانونی بنیادوں پر بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا :
"That all law has been discriminatory against women is beyond dispute. One need only to recall that women were specifically denied the right to vote prior to the passage of the Nineteenth Amendment. Less well known, but very important, was the 1824 Mississippi Supreme Court decision upholding the right of husbands to beat their wives (the United States Supreme Court finally prohibited this practice in 1891). In another case....... the Supreme Court ruled that the "equal protection" clause of the Fourtheenth Amendment did not apply to women."
(D. Stanley Fitzen, In Conflict and Disorder)
’’یہ حقیقت کہ (مغرب میں) خواتین کے قوانین امتیازی رہے شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ حتی کہ یہاں (امریکہ میں) انیسویں ترمیم کے منظور ہونے سے قبل عورتوں کو حق رائے دہی بھی حاصل نہ تھا۔ اگرچہ یہ بات اتنے زیادہ لوگوں کو معلوم نہیں مگر (اس روایت کی وضاحت کے لئے) اہم ضرور ہے کہ 1824 میں سپریم کورٹ نے مردوں کا یہ حق قرار دیا تھا کہ وہ عورتوں کو زد و کوب کرتے رہیں۔ اگرچہ اسے امریکی عدالت عالیہ نے 1891ء میں غیر قانونی قرار دے دیا۔ عورتوں کے لئے امتیاز ی سلوک کی ایک اور مثال مقدمے میں امریکی عدالت عالیہ کا یہ فیصلہ ہے کہ چودھویں آئینی ترمیم کے ’’مساوی حقوق،، کے حصے کا اطلاق عورتوں پر نہیں ہوتا یعنی انہیں معاشرے میں مردوں کے برابر حقوق نہیں دیے جاسکتے۔،،
مغرب میں بنیادی حقوق کے حوالے سے عورتوں سے یہ سلوک آج بھی جاری ہے۔ اس کی تازہ مثال امریکی دستور ساز ایوان میں جون 1982ء میں مسترد ہونے والی وہ ترمیم ہے جس کا تعلق عورتوں کو برابر حقوق دینے سے تھا۔ اس کے متن میں درج تھا کہ
"Equality of rights under the law shall not be denied or abridged by the United States or by any State on account of Sex."
(D. Stanley Fitzen, In Conflict and Disorder)
’’یعنی قانون کے تحت ریاست ہائے متحدہ امریکہ یا اس کی کوئی بھی ریاست جنس کی بنیاد پر مساوی حقوق کی ضمانت کی نفی نہیں کرے گی۔،،
مگر ریاست مدینہ کے آئین میں رنگ و نسل اور جنس کے امتیاز کے بغیر بنیادی انسانی حقوق کی واضح اور یقینی طور پر ضمانت دی گئی۔
و ان المومنين المتقين ايديهم علي کل من بغي منهم او ابتغي دسيعة ظلم او اثما او عدوانا او فسادا بين المومنين و ان ايديهم عليه جميعا ولو کان ولد احدهم
(آرٹیکل : 16)
اور متقی ایمان والوں کے ہاتھ ہر اس شخص کے خلاف اٹھیں گے جو ان میں سرکشی کرے یا استحصال بالجبر کرنا چاہے یا گناہ یا تعدی کا ارتکاب کرے یا ایمان والوں میں فساد پھیلانا چاہے اور ان کے ساتھ سب مل کر ایسے شخص کے خلاف اٹھیں گے خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح جان و مال اور آبرو کے تحفظ میں بھی ریاستی شہریوں میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا گیا۔
و ان الجار کالنفس غير مضار ولا اثم
(آرٹیکل : 50)
پناہ گزین سے وہی برتاؤ ہو گا جو اصل (پناہ دہندہ) کے ساتھ نہ اس کو ضرر پہنچایا جائے گا اور نہ خود وہ عہد شکنی کرے گا۔

16۔ مذہبی آزادی کا تحفظ
(Protection of Religious Freedom)

میثاق مدینہ میں نہ صرف ریاست مدینہ کے شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی اور اس کے لئے باقاعدہ قانون و آئینی اقدامات وضع کئے گئے بلکہ ریاست مدینہ میں آباد اقلیتوں کے لئے بھی مذہبی آزادی کو یقینی بنایا گیا۔ تاہم بطور ایک ذمہ دار شہری کے ریاست مدینہ میں آباد اقلیتوں سے اس پابندی کا اقرار لیا گیا کہ وہ آئین کی پابندی کریں گے اور کسی طور بھی آئین اور دستور کی خلاف ورزی یا معاشرہ میں فتنہ پروری و ظلم آفرینی کا باعث نہیں بنیں گے۔
و ان يهود بني عوف امة مع المومنين لليهود دينهم وللمسلمين دينهم مواليهم و انفسهم الامن ظلم و اثم فانه لا يوتغ الا نفسه و اهل بيته
اور بنی عوف کے یہودی، مومنین کے ساتھ ایک سیاسی وحدت تسلیم کئے جاتے ہیں یہودیوں کے لئے ان کا دین اور مسلمانوں کے لئے ان کا دین موالی ہوں یا اصل، ہاں جو ظلم یا عہدشکنی کا ارتکاب کرے تو اس کی ذات یا گھرانے کے سوا کوئی مصیبت میں نہیں پڑے گا۔
(آرٹیکل : 30)
مزید طے پایا کہ مذہبی آزادی کے اس تحفظ کو کسی ایک طبقہ کے ساتھ مخصوص نہ کیا جائے بلکہ
  • ریاست مدینہ میں آباد یہود قبائل، بشمول بنی نجار، بنی الحارث، بنی ساعدہ، بنی جشم، بنی الاوس، بنی ثعلبہ، بنی شطیبہ سب کا فرداً فرداً تذکرہ کیا گیا کہ تمام یہودی قبائل کو مذہبی آزادی کا آئینی تحفظ حاصل ہو گا۔
  • یہ بھی قرار دیا گیا کہ ان یہودی قبائل کی ذیلی شاخوں اور ان کے موالی کو بھی مذہبی آزادی کا حق اسی طرح حاصل ہو گا۔

17۔ اقلیتوں کا تحفظ
(Protection of the Minorities)

میثاق مدینہ کے تحت آئینی طبقات کو بیان کرتے ہوئے امت مسلمہ کے علاوہ ریاست کے دوسرے فریقوں کو نہ صرف ایک باوقار دستوری مرتبہ دیا گیا بلکہ اس سے بڑھ کر ایک سیاسی وحدت تسلیم کیے جانے کے ساتھ ساتھ مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت بھی دی گئی۔ آرٹیکل نمبر 30 میں قرار دیا گیا۔
’’اور بنی عوف کے یہودی مسلمانوںکے ساتھ ایک سیاسی وحدت تسلیم کئے جاتے ہیں یہودیوں کے لئے ان کا دین اور مسلمانوں کے لئے ان کا دین۔ موالی ہوں یا اصل، ہاں جو ظلم یا عہد شکنی کا ارتکاب کرے تو اس کی ذات یا گھرانے کے سوائے کوئی مصیبت میں نہیں پڑے گا۔،،
اسی طرح آرٹیکل نمبر 31 سے آرٹیکل نمبر 40 تک یہ بیان کیا گیا کہ میثاق مدینہ میں شامل تمام یہودیوں بشمول بنی نجار، بنی حارث، بنی ساعدہ، بنی جشم، بنی اوس، بنی ثعلبہ، جفنہ، بنی شطیبہ اور ان کی موالی یہودیوں کو بھی وہ تمام حقوق حاصل ہونگے جو بنی عوف کو حاصل ہونگے تاہم اقلیتوں کو اتنی زیادہ واضح مذہبی آزادی فراہم کیے جانے پر ایک بنیادی شرط کا پابند بھی کیا گیا اور وہ شرط تھی دستور کی پابندی اور یہی شرط مسلمانوں کے لئے بھی یکساں تھی۔ آرٹیکل نمبر 38 میں قرار دیا گیا۔
و ان البر دون اثم
یہود سے وفا شعاری نہ کہ عہد شکنی کی توقع کی جاتی ہے

18۔ خواتین کے حقوق کی ضمانت
(Guarantee of Women's Rights)

میثاق مدینہ میں جہاں مختلف طبقات ریاست کے حقوق کے تحفظ کی بات کی گئی وہاں تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ خواتین کی عزت، حرمت اور سماجی مرتبے کے تحفظ کی ضمانت دی گئی اور ا س امر کو طے کیا گیا کہ ریاست مدینہ کے اندر خواتین کے معاملات کے حوالے سے کسی بھی ایسے اقدام کی اجازت نہیں دی جائے گی جو معروف معنوں میں خواتین کی عزت، حرمت اور وقار کے منافی ہو۔
و انه لا تجار حرمة الا باذن اهلها.
(آرٹیکل51)
اور کسی عورت کو اس کے خاندان (اہل خانہ) کی رضامندی سے ہی پناہ دی جائے گی۔

19۔ مخالفین کی سازشوں کا تدار ک
(Eradication of Opponents' Conspiracies)

میثاق مدینہ کے تحت جہاں مسلمانان مدینہ کو ایک جامع دفاعی معاہدے کے تحت استحکام اور تمکن حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا گیا وہاں اس امر کا بھی اہتمام کیا گیا کہ مسلمانوں کے وہ ازلی دشمن جن کی وجہ سے وہ ترک وطن پر مجبور ہوئے ان کی بیخ کنی کا موثر اہتمام کیا جائے تاکہ مستقبل میں کسی بھی طور پر مسلمانوں کو اس خطرے کی شدت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ا۔ یہ طے پایا کہ نہ ہی تو قریش کو پناہ دی جائے گی اور نہ ہی قریش کے معاونین کے ساتھ کسی نوعیت کا کوئی معاملہ روا رکھا جائے گا۔ تاکہ اس سماجی مقاطعہ کے نتیجے میں قریش کی قوت فروغ پذیر نہ ہوسکے۔
و انه لا تجار قریش ولا من نصرها.
(آرٹیکل53)
اور قریش کو پناہ نہیں دی جائے گی اور نہ اس کو جو انہیں مدد دے۔
ب۔ یہ امر قرار پایا کہ مسلمان کو کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اہل ایمان کسی معاملے میں اہل ایمان کے مقابل اہل کفر کے معاون ہونگے۔
ولا يقتل مومن مومنا فی کافر ولا ينصر کافرا علی مومن
(آرٹیکل17)
اور کوئی ایمان والا کسی ایمان والے کو کسی کافر کے بدلے میں قتل نہیں کرے گا اور نہ کسی کافر کی کسی ایمان والے کے خلاف مدد کرے گا۔

20۔ مدینہ کا دارالامن قرار دیا جانا
(Madina was declared Sanctuary)

میثاق مدینہ میں طے پانے والے دیگر امور کے علاوہ سیاسی اور دینی و مذہبی نقطہ نظر سے نمایاں ترین امر مدینہ میں رہنے والے مختلف النوع طبقات سے مدینہ کو دارالامن اور حرم تسلیم کروا لینا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ تب ہوتا ہے جب ہم اس دور میں مکہ مکرمہ کے حرم ہونے کے مقام و مرتبہ کو مستحضر رکھیں۔ بلا شبہ اہل مدینہ سے ریاست مدینہ کے قیام کے بعد مدینہ کو حرم تسلیم کروا لینا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثال سیاسی بصیرت اور معاملات پر کلی گرفت کا آئینہ دار ہے : ۔
و ان يثرب حرام جوفهالاهل هذه الصحيفه
(آرٹیکل49)
اور یثرب کا جوف (یعنی میدان جو پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے) اس دستور والوں کیلئے حرم (دار الامن ) ہوگا (یعنی یہاں آپس میں جنگ کرنا منع ہوگا)۔
مدینہ کو حرم قرار دے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف اپنی حاکمیت مدینہ کے مختلف النوع طبقات سے منوالی بلکہ مدینہ میں آئے روز کی بے مقصد جنگ و جدال کے قلع قمع کا موثر اور مستقل اہتمام بھی کر دیا۔ 


میثاق مدینہ مستشرقین کی نظر میں

مستشرقین نے جب کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں لکھا، حقائق کے بیان اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیغمبرانہ عظمت کو کما حقہ بیا ن کرنے کے لئے انہوں نے حقیقت پسندی سے کم ہی کام لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ میں آئین ریاست مدینہ کی جو اہمیت ہے اس کا آج تک ان کی طرف سے اعتراف نہیں کیا گیا مگر سیرت نبوی پر اپنی تحقیق و تحریر میں اہل مغرب میثاق مدینہ کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کر سکے۔ ذیل میں آئین ریاست مدینہ کے بارے میں چند مستشرقین کے تاثرات دیئے جا رہے ہیں:

تھامس آرنلڈ (Sir Thomas Arnold)

In order to appreciate his position after the Flight, it is important to remember the peculair character of Arab society at that time, as far at least as this part of the peninsula was concerned. There was an entire absence of any organised Administration or Judicial system such as in modern times we connect with the idea of a Government. Each tribe or class formed a separate and absolutely independent body, and this independence extended itself also to the individual members of the tribe, each of whom recognised the authority or leadership of his chief only as being the exponent of a public opinion which he himself happend to share but he was quite at liberty to refuse his conformity to the (even) unanimous resolve of his fellow clansmen. Further there was no regular transmission of the office of Chieftain . . . . . .
We can understand how Muhammad could establish himself at Madina as the head of a large and increasing body of adherents who looked upto him as their head and leader and acknowledged no other authority, . . . . . . . . without exciting any feeling of insecurity, or any fear of encroachment on recognised authority, . . . . . Muhammad thus exercised temporal authority over his people just as any other independent chief might have done, the only difference being that on the case of the Muslims a religious bond took the place of family blood ties.
(The Preaching of Islam)
ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوزیشن کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس دور کے عرب کے یا کم از کم جزیرہ نما ئے عرب کے اس متعلقہ حصے (مدینہ منورہ) کے حالات کو سامنے رکھا جائے۔ اس وقت وہاں کسی بھی طرح کا کوئی انتظامی یا عدالتی نظام نہیں تھا جس طرح آج حکومت کے تصور کے ساتھ ہمارے ذہنوں میں آتا ہے ہر قبیلہ یا جماعت کا الگ آزادانہ وجود تھا اور پھر اس قبیلہ یا جماعت کی یہ آزادی اس کے افراد تک پھیلی ہوئی تھی۔ یعنی ان میں سے ہر فرد اپنے سردار کے اختیار کو صرف اس لئے مانتا تھا کہ وہ قبیلہ بھر کی مشترکہ رائے کا مظہر ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ اس امر میںآزاد تھا کہ وہ اپنے ہم قبیلہ ساتھیوں کی اجتماعی رائے سے بھی اختلاف کرے۔ مزید یہ کہ قبیلہ کے سردار کا باقاعدہ کوئی اختیاراتی نظام بھی نہیں تھا۔
(ان حالات کے پیش نظر) ہم سمجھ سکتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس طرح مدینہ کے مختلف النوع افراد سے بطور سربراہ اپنے آپ کو اور اپنے اختیار کو منوالیا تھا (جو آپ کی کمال سیاسی بصیرت کا مظہرہے) اور لوگوں نے یہ سب کچھ بغیر کسی احساس عدم تحفظ یا کسی حکومتی جبر و دباؤ کے کیا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح اپنے لوگوں پر دنیاوی اختیار حاصل کیا جس طرح دوسرے آزاد سردار وں کو اپنے قبائل پر حاصل تھا۔ مگر یہاں ایک واضح فرق موجود تھا کہ یہاں باہمی رشتہ خون پر مبنی تعلق نہیں بلکہ مذہب تھا۔

آر۔ اے۔ نکلسن (R. A. Nicholson)

Muhammad's first care was to renconcile the desperate factions within the city and to introduce law and order among the heterogeneous elements which have been described. "He drew up in writing a charter between the Emigrants and the Helpers, in which charter he embodied a covenant with the Jews, confirming them in the exercise of their religion and in the possession of their properties, imposing upon them certain obligations and granting to them certain rights." This remarkable document is extant in Ibn Hisham's Biography of Muhammad. Its contents have been analysed in masterly fashion by Wellhausen, who observes with justice that it was no solemn covenant, accepted and duly ratified by the representatives of the parties concerned, but merely a decree of Muhammad based upon condition already existing which developed since his arrival in Madina.
At the same time no one can study it without being impressed by the political genius of the author. Ostensibly a cautious and tactful reform, it was in reality a revolution. Muhammad durst not strike openly at the independence of the tribes, but he destroyed it, in effect, by shifting the centre of power from the tribe to the community; and although the community included Jews and pagans as well as Muslims, he fully recognised, what his opponents failed to see, that the Muslims were active, and must soon be the predominant partners in the newly founded state.
(A Literary History of the Arabs)
مدینہ آنے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا کام شہر کے اندر مختلف طبقوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور مختلف النوع عناصر میں امن و امان کا قیام تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے مابین ایک معاہدہ طے کروایا اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کے ساتھ بھی معاہدہ کیا جس کے تحت انہیں اپنے مذہب پر رہنے اور اپنی املاک کی ملکیت کا اختیار دیا گیا اس کے ساتھ ہی انہیں کچھ حقوق دیتے ہوئے کچھ فرائض کا بھی پابند کیا گیا۔ یہ تاریخی دستاویز ابن اسحاق کی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اب بھی موجود ہے۔ ول ھاسن نے اس کے مشمولات و مندرجات کا ماہرانہ تجزیہ بھی کیا ہے جس کا خیال یہ ہے کہ (قطع نظر اس سے کہ ول ھاسن کا خیال کتنا صائب ہے!) یہ کوئی ایسا با ضابطہ معاہدہ نہ تھا جس کی متعلقہ پارٹیوں کے نمائندوں نے باہمی اتفاق کے بعد توثیق کی ہو بلکہ یہ پہلے سے موجود انہی شرائط و حالات پر مبنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان تھا جو آپ کے مدینہ آنے پر سامنے آئے تھے۔
(یہ ایک حقیقت ہے کہ) کوئی شخص بھی اس دستاویز کا مطالعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی بصیرت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں کرسکتا۔ یہ دستاویز بدیہی طور پر ایک محتاط اور مبنی پر بصیرت اصلاح تھی، حقیقتاً یہ ایک انقلاب تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظاہراً تو قبیلوں کی آزادی پر کوئی ضرب نہیں لگائی مگر درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرکز قوت کو قبیلہ سے قوم کی طرف منتقل کر کے اس کے اثر کو ختم کردیا۔ اگرچہ قوم میں یہود، کفار اور مسلمان شامل تھے جیسا کہ دستور میں تسلیم کیا گیا، مگر اس حقیقت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف نہ دیکھ سکے کہ مسلمان فعال اور متحرک تھے اور بہت جلد نوتشکیل شدہ ریاست کے نمایاں اور غالب حکومتی حصہ دار بننے والے تھے۔

ول ھاسن J. Wellhausen))

The community (of Madina) was divided into two hostile camps - Aus and the Khazraj. Murder and manslaughter were the order of the day; no body dared venture out of his quarter without danger; there reigned a tumult in which life was impossible. What was wanted was a man to step into banish anarchy; but he must be neutral and not involved in the domestic rivalry. Then came the Prophet from Mecca, as if God-sent. Blood, as a bond of union, had failed; he put faith in its place. He brought with him a tribe of Believers, the companions of his flight from Mecca, and slowly advancing steadly step by step, he established the commonwealth of Madina on the basis of religions as an Ummat Allah, a congregation of God ....... what had to be done was the elementary work, the establishment of order and the restoration of peace and right. Since there was no other authority a religious authority took the lead, got the power into its hands and secured its position by performing what was expected of it. Muhammad displayed the gift of ability to deal with affairs in the mass .....
In the circumstances stated the power of the religion appeared chiefly as a political force. It created a community, and over it an authority which was obeyed. Allah was the personification of the state supermacy. What with us is done in King's name was done in the name of Allah ..... The idea of ruling authorities, till then absolutely foreign to the Arabs, was introduced through Allah. In this there was also the idea that no outward or human power, but only a power inwardly acknowledged and standing above mankind, had the right to rule. The theocracy is the negation of the Mulk, or earthly kingdom. The privilege of ruling is not a privilege for the enjoyment of the holder of it; the kingdom belongs to God, but His Plenipotentiary,who knows and carries out His will is the Prophet. He is not only the harbinger of truth, but also the only lawful ruler upon earth. Besides him no king was a place, and also no other prophet ...... The Prophet represents the rule of God upon earth; Allah and His messenger and always bound up in each other, and stand together in the Creed. The theocracy may be defined as the commonwealth, at the head of which stands, not the king and the usurped or inherited power, but the Prophet and the Law of God.
(Arab Kingdom and its Fall)
مدینہ کی آبادی دو حریف گروہوں اوس اور خزرج میں تقسیم ہوچکی تھی۔ قتل عام روزانہ کا معمول تھا۔ کوئی آدمی بھی اپنے گھر سے باہر خطرہ مول لئے بغیر نہ نکل سکتا تھا۔ وہاں ایسی افراتفری کا بازار گرم تھا کہ زندگی محال تھی۔ اب یہاں ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جو اس لاقانونیت کا خاتمہ کرتی۔ لیکن وہ شخص غیر جانبدار ہوتا اور کسی مقامی حریفانہ آویزش میں شامل نہ ہوتا۔ اندرآں حالا ت مکہ سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے گویا آپ کو (مدینہ) میں خدا نے ہی بھیجا۔ خون کا رشتہ جو تعلق باہمی کی بنیاد کے طور پر ناکام ہوچکا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جگہ عقیدہ کو رکھا۔ آپ اپنے ساتھ اہل ایمان کا ایک گروہ بھی لائے اور آہستہ آہستہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں ایک دولت مشترکہ کی بنیاد رکھ دی جس کی اساس امۃ اللہ یعنی اللہ کا گروہ تھا۔ آپ کے سامنے جو کرنے کے کام تھے ان میں ابتدائی کام قانون کا نفاذ اور امن و امان کی بحالی تھا چونکہ (مدینہ میں) کوئی حکمران نہ تھا سو (مذہبی حکمران کے طور ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیادت سنبھال لی، قوت اپنے ہاتھوں میں لے اور اپنی پوزیشن کو ایسے اقدامات سے مضبوط کرلیا جو ان حالات میں متوقع تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان معاملات کو طے کرنے میں کمال (سیاسی) بصیرت و حکمت کا مظاہرہ کیا۔
ان حالات میں مذہب کی قوت ایک سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی اس سے ایک معاشرہ اور اس سے بھی بڑھ کر ایک مقتدر قوت سامنے آئی جس کی اطاعت کی جاتی تھی۔ ریاست کا اعلیٰ ترین برتر حاکم ذات الہی کو قرار دیا گیا۔ جو کچھ ہمارے ہاں بادشاہ کے نام پر ہوتا ہے، اللہ کے نام پر (یعنی اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کے تحت) کیا جانے لگا۔ حکمرانی کا اختیار و اقتدار، اللہ کے اقتدار کے حوالے سے متعارف کروایا گیا جو اب تک عربوں کے لئے ایک اجنبی تصور تھا۔ اس طرح یہ تصور متعارف کروایا گیا کہ کوئی دنیاوی طاقت یا انسان حکمرانی کا (مطلقاً) حق نہیں رکھتا بلکہ یہ حق صرف ذات باری تعالیٰ کے لئے ہے جس کا اقرار اہل ایمان دل سے کرتے ہیںاور جو انسانوں سے بالاتر ہستی ہے۔ مذہب کی ریاست کا مطلب ملک یعنی زمینی بادشاہت کی نفی ہے۔ (انسان کے لیے) حکمرانی کے حق کا یہ مطلب نہیں کہ اسے اس حکمرانی سے لطف اندوز ہونے کا حق بھی ہے کیونکہ حکمرانی کا اور سلطنت کا (اصلاً) تعلق تو خدا سے ہے لیکن اس کا رسول اس کے احکامات کو لینے والا اور اس کی مرضی کے مطابق روبہ عمل کرنے والا ہے۔ پیغمبر نہ صرف سچائی کی طرف ہدایت کرنے والا بلکہ زمین پر واحد مجاز حکمران ہے۔ آپ کے علاوہ نہ ہی تو کوئی حکمران ہے اور نہ ہی کوئی پیغمبر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں اللہ کی حکمرانی کے نمائندہ ہیں۔ تعلیم و عقیدہ میں اللہ اور اس کا پیغمبر باہم دیگر متعلق ہیں۔ تھیوکریسی ایک ایسی دولت مشترکہ ہے جس کا سربراہ نہ کوئی بادشاہ ہے نہ ہی کوئی جبری یا وراثتی طاقت اور جہاں کا قانون خدا کا قانون ہے۔

فرانٹس بہل (Frants Buhl)

The task which awaited him placed the greatest strain on his diplomatic and organizing abilities. He could only rely with the absolute certainty on those who had migrated with him (the Muhajirun), for their whole existence depended entirely on him, and of course only there had migrated who were firmly convinced for the truth of his mission. In addition, there were those Madinese who had already adopted Islam or did so soon after his arrival, the so-called Ansar or ''helpers'' who, however, formed only a portion of the inhabitants of Madina. He only found direct opposition in a few families, like the Aws but at the same time there were a number who while they did not exactly oppose him reluctantly accepted the new relationship, the so-called munafikun who were to cause him much anxiety. . . . . A further danger lay in the fact that the old and bitter feud between the two chief parties, the Aws and Khazraj, had by no means died down but might easily break out again on any occassion. Finally, there were the Jews and the Judaicised tribes in Madina who played an important part because of their wealth and the support they had in the Jewish colonies of Khaiber . . . . .
Muhammad had to form a united community out of these heterogeneous elements. The first problem was how to procure the necessary means of subsistence for the emigrants, who were for the most part without means or work, which could for the time being only be done through the self-sacrifice of the Ansar. To strengthen their claims for protection, he ordered the relationship of brotherhood, to be created between each emigrant and a man of Madina.....
On the other hand, we possess for a some what later period when relationship between Muhammad and the Jews had begun to be strained, a valuable document in Muhammad's constitution which has been preserved by Ibn Ishak. It reveals his great diplomatic gifts for it allow the ideal which he cherished of an Umma definetly religious in outlook to sink temporarily into the background and is shaped essentially by practical considerations. It is true that the highest authority is with Allah and Muhammad, before whom all matters of importance are to be laid, but the Umma included also Jews and pagans . . . . .
(Shorter Encyclopaedia of Islam)
(ہجرت مدینہ کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس امر کا سامنا تھا وہ آپ کی سیاسی اور تنظیمی صلاحیتوں کے لئے عظیم ترین مشقت کا باعث تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورے وثوق کے ساتھ اپنے انہی ساتھیوں پر اعتماد کرسکتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے۔ کیونکہ ان کی بقا کا انحصار کلیتہ آپ کے ساتھ وابستگی پر ہی تھا۔ اور یہ کہ ہجرت کرنے والے وہی لوگ تھے جنہوں نے پورے شرح صدر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کی صداقت کو قبول کرلیا تھا۔ (ان مہاجرین) کے علاوہ اہل مدینہ میں سے بھی کچھ لوگ تھے جو یا تو آپ کی ہجرت سے پہلے ہی یا آپ کی ہجرت کے فوراً بعد اسلام قبول کرچکے تھے۔ انہیں انصار کا نام دیا گیا تھا تاہم یہ لوگ مدینہ کے باشندوں کا صرف ایک حصہ تھے۔ (مدینہ میں) آپ کو چند ایک خاندانوں مثلاً ’’اوس،، کی طرف سے بھی مخالفت کا سامنا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے بھی تھے جنہوں نے براہ راست آپ کی مخالفت نہیں کی بلکہ بادل نخواستہ انہوں نے اس نئے تعلق کو قبول کرلیا یہ لوگ منافقین کہلائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کئی پریشانیوں کا باعث بنے۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایک مزید خطرہ جس کا آپ کو سامنا تھا وہ مدینہ کے دو بڑے گروہوں اوس اور خزرج میں موجودہ خطرناک دشمنی تھی جو ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ کسی بھی موقع پر دوبارہ بھڑک سکتی تھی۔ ان کے علاوہ مدینہ میں یہودی اور ان کے قبائل بھی تھے جنہوں نے (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف) اہم کردار ادا کیا کیونکہ وہ نہ صرف دولت مند تھے بلکہ انہیں خیبر میں موجود یہودی آبادیوں کی طرف سے بھی حمایت و مدد حاصل تھی۔
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان مختلف النوع عناصر کو ایک طبقے میں تبدیل کرنا تھا۔ پہلا مسئلہ مہاجرین کی کفالت کے لئے ضروری ذرائع و وسائل پیدا کرنا تھا۔ کیونکہ ان میں سے اکثر و بیشتر بے سروسامان تھے اور ان کی آبادکاری فی الحال انصار کی ایثار و قربانی سے ہی ممکن تھی۔ انہیں مناسب تحفظ کی فراہمی کے لئے آپ نے رشتہ اخوت کے قیام کا اعلان فرمایا جو ایک مہاجر اور ایک انصار ی (مدینہ کے شہری) کے درمیان قائم کیا گیا۔
دوسری طرف، بعد کے دور میں جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور یہودیوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوئے ہمیں ایک قابل قدر دستاویز، ’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آئین،، ملتا ہے جسے ابن اسحاق نے (اپنی کتاب میں) روایت کیا ہے۔ یہ دستوری دستاویز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم سیاسی بصیرت کی عکاس ہے کیونکہ اس کے تحت اس مثالی امۃ کا وجود عمل میں آیا جس کے لئے آپ نے جدوجہد کی تھی اور جو مذہبی مظہر کی حامل تھی اور اس کی تشکیل عملی بصیرت کی بنا پر کی گئی تھی۔ (اس ریاست میں دستور کے تحت) اعلیٰ ترین اقتدار اللہ تعالی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تھا جن کے سامنے امت کے تمام اہم معاملے پیش کئے جاتے تھے، تاہم امت (ملک کی سیاسی وحدت) میں یہودی اور غیر مسلم بھی شامل تھے۔

ماؤرس گا ڈفرائے ڈی مامبائنز (Maurice Gaudferoy Demombynes)

In the course of the negotiations that he had undertaken during these past years, and in the difficult task of guiding the little flock of the faithful, Muhammad had assumed the role of a judge, a lawgiver and a chief, functions for which it would appear that he had become fit, suddenly and miraculously, as soon as he had planted his foot in Quba, at the gates of Madina . . . . . .
On arriving in Madina, Muhammad concluded with the local Arab tribes a pact which, without providing absolutely for their conversion to Islam, bound them to recognise his personal authority.
(Muslim Institutions)
ان آخری سالوں کے دوران کئے جانے والے معاہدوں اور اہل ایمان کی جماعت کی قیادت کے مشکل کام کے دوران محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک منصف، قانون دھندہ، اور سربراہ کا کردار حاصل کرچکے تھے۔ اور ان حیثیتوں میں آپ کی کارکردگی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مدینہ کی دہلیز پر قبا کے مقام پر اپنے قدم جماتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معجزانہ طور پر ان امور کے لئے موزوں ہوچکے تھے (حالانکہ آپ کا سابقہ سفر مذہبی نوعیت کا تھا)....
مدینہ پہنچتے ہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقامی عرب قبائل کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت آپ نے ان کے اسلام کی طرف واضح طور پر نہ پلٹنے کے باوجود بھی انہیں اپنے سربراہی اختیار تسلیم کرنے کا پابند کردیا۔

سرجان بیگٹ گلب (Sir John Bagot Glubb)

It will be seen from the subjects treated in the "covenant with the Jews" that the Messenger of God, immediately on his arrival in Madina, had been drawn into politics, administration and justice. As the executive leader of a growing community which was obliged to provide for its own survival and security, this development was probably inevitable. Neverthless, it marked a complete change in the Apostle's way of life. The patient, dedicated and persecuted Prophet had changed almost overnight into the politician and statesman. The change may, of course, have been more apparent than real. It is probable that he had long since foreseen that his mission would lead him into politics.
(The Life and Times of Muhammad)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کے مشمولات سے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ آنے کے فورا بعد کیا یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اب سیاسی، انتظامی اور عدالتی معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ ایک بڑھتے ہوئے (مسلم) معاشرے کے انتظامی سربراہ کے طور پر، جس کو بقاو تحفظ کی فراہمی ضروری تھی یہ ارتقاء لازمی تھا۔ تاہم اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں نمایاں تبدیلی آگئی۔ صابر، اپنے مشن کے ساتھ مخلص اور ایذا ئیں سہنے والے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یکدم ایک سیاستدان اور حکمران بن گئے۔ یہ بہت ہی نمایاں تبدیلی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت پہلے اس حقیقت کو دیکھ لیا ہو کہ آپ کا مشن آگے چل کر سیاست (کے مرحلے) میں بھی داخل ہوجائے گا۔

مارگولیتھ (D.S. Margoliouth)

That the office of a Prophet involved all the duties of a king, and both religious and political leadership, was doubtless understood by him. And we can imagine the delight with which a man throughly qualified for ruling found himself at last in a position in which his talents could be exercised . . . . . . . The rudimentary organisation which had existed, among the tribes before his arrival did not immediately disappear. Gradually, however, the principle that all authority emanated from Muhammad permeated the constitution of Madina . . . . . . . Disputes between his followers were naturally brought to him to settle, and presently disputes between them and their neighbours.
(Muhammad and the Rise of Islam)
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منصب بادشاہ و پیغمبر یعنی مذہبی اور سیاسی دونوں طرح کے مناصب کو محیط تھا۔ ہم اس موقع پر آپ کی مسرت کا تصور کرسکتے ہیں کیونکہ حکمرانی کا اہل ہوتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اب ایسا منصب حاصل کر لیا تھا جہاں آپ کی سیاسی صلاحیتیں کھل کر روبہ عمل ہوسکتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ابتدائی (معاشرتی) تنظیم جو آپ نے اپنی مدینہ آمد پر مختلف قبائل کے درمیان پائی تھی فوراً تو ختم نہ ہوئی تاہم یہ اصول کہ تمام (ریاستی) اختیارات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی حاصل ہیں بتدریج آئینی اصول بن گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبعین کے باہمی تنازعات، ان کے اور ان کے ہمسایوں کے باہمی تنازعات فیصلہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہی پیش کئے جاتے تھے۔

روبن لیوی (Reuben Levy)

To outward seeming, then, little change immediately affecting the lives of Muslims was introduced by the charter. In reality, however, the document itself makes clear there has been made the great change that henceforward ultimate authority for the doings of the community rested not with the chiefs or the collective voice of the people, but Muhammad and beyond him, with Allah. This introduced an idea foreign to the Arabs namely that of an overlord. The individuals who compose the Islamic community are made to resign a good part of their ancient freedom, to forego their free choice of a leader and to bow to divine authority. They had in fact, become a theocracy, a community of God, a state in which the political power was held by Allah and his apostle Muhammad. There could be no distinction here of church and state. The Umma, the community, partook of the nature of the both and the purposes of one were the purposes of the other. Similarly, the Prophet derived his political power from his divine office, and nothing else.
(The Social Structure of Islam)
ظاہراً دیکھنے سے (ریاست مدینہ کے ) آئین سے ایسی تبدیلی کم ہی آئی جو مسلمانوں کی زندگیوں کو متاثر کرتی مگر درحقیقت جیسا کہ خود اس دستاویز سے ظاہر ہے ایک بہت بڑی تبدیلی وقوع پذیر ہوچکی تھی وہ یہ کہ اب ریاست کے افراد کے معاملات کو چلانے کا اختیار سرداروں یا لوگوں کی اجتماعی رائے کے پاس نہیں بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے پاس تھا۔ اس طرح اس دستاویز نے عربوں کو ایک اجنبی تصور یعنی (دنیا سے) بالا حکمران سے متعارف کروایا۔ جو لوگ اسلامی ریاست کے رکن تھے وہ اپنی پرانی آزادی اور اپنا حکمران چننے کا اختیار ترک کر کے الوہی حاکمیت اعلیٰ کے سامنے جھک گئے تھے۔ اس طرح دراصل انہوں نے ایک تھیوکریسی یعنی خدائی مملکت قائم کی یعنی ایک ایسی ریاست جس میں سیاسی قوت اللہ اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھی اس ریاست میں مذہب و سیاست کی تمیز نہیں تھی امت کے لئے مذہب و سیاست اس طرح یکجان تھے کہ ایک کے مقاصد دوسرے کے بھی مقاصد تھے۔ اس طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے الوہی احکام سے اپنی سیاسی قوت حاصل کی۔

جوزف ھیل (Joseph Hell)

The so-called ordinance governing the community of Madina shows so rare a statesmanship and is of such far-reaching import that we must acquaint ourselves with its main provisions....... these passages read as if they were laying down the basis of an Islamic state.
(The Arab Civilization)
ریاست مدینہ چلانے کے لئے نافذ کئے جانے والے آئین سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عدیم المثل سیاسی بصیرت سامنے آتی ہے اور اس کی اہمیت بہت زیادہ دور رس نتائج کی حامل ہے جس کے لئے ہمیں اس کی نمایاں اور اہم شقوں سے متعارف ہونا ہوگا،۔ ۔۔۔ کہ اس آئین کا متن اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اس کے ذریعے ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھ دی گئی۔

فرانسسکو جبریلی (Francesco Gabrieli)

The polytheists of Makkah appear as the common enemy, to which the composite community of Yathrib stands opposed, whether for religious or political reasons.
(Muhammad and the Conquests of Islam)
(میثاق مدینہ کے تحت) مکہ کے مشرکین اہل مدینہ کے مشترکہ دشمن قرار پائے جن کی مخالفت و مزاحمت کے لئے مذہبی یا سیاسی وجوہات کی بنا پر مدینہ کے تمام طبقات متحد ہوگئے۔

ڈریکاٹ (G.M. Draycott)

The treaty between Mahomet and the Bedouin Tribes markes the begining of a significant development in his foriegn policy. Like the Romans, and all military nations, he knew the worth of making advantageous alliances, while he was clear-sighted enough to realise that the struggle with Mecca was inevitable. During the months preceeding the battle of Bedr he concluded several treaties with desert tribes, and it is to this policy he owned in part his power to maintain his aggressive attitude towards Koreish, for with the alliance of the tribes around the Carvan routes Mahomet could be sure of hampering the Meccan trade.
(Mahomet)
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عرب قبائل کے درمیان معاہدہ آپ کی خارجہ پالیسی میں ایک نمایاں ارتقاء کا مظہر ہے۔ رومیوں اور تمام فوجی قوموں کی طرح آپ جانتے تھے کہ مفید اتحادوں (اور اشتراک) کے تشکیل دینے کی قدر و قیمت کیا ہے۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حقیقت سے بھی آگاہ تھے کہ اہل مکہ کے خلاف جدوجہد ناگزیر تھی۔ جنگ بدر کے بعد کے مہینوں میں آپ نے صحرائی قبائل کے ساتھ بھی کئی معاہدے کئے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریش کے بالمقابل جارحانہ طرز عمل اختیار کرنے کی طاقت کے حامل ہوگئے تھے کیونکہ قبائل سے اتحاد کی حکمت عملی ہی کی وجہ سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یقین تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجارتی شاہراہ پر مکہ کی تجارت کا راستہ بند کرسکتے تھے۔

ہیو کینیڈی (Hugh Kennedy)

To begin with the Emigrants were quartered in the houses of those among the people of Madina who had invited them, now known as the Ansar or Helpers of the Prophet, but if this arrangement had continued, they might have become little more than hangers-on, constantly needing help and protection. To avoid this, a series of agreements were drawn up in the first two or three years after the Hijra, agreements which are known collectively as the Constitution of Madina. This takes the form of agreements between Muhajirun and the people of Yathrib (Madina). All the believers are described as umma, a community apart from the surrounding pagan society, and they are to make war as one. The bond between members of the umma transcends any bonds or agreements between them and the pagans and they are all to seek revenge if any Muslim is killed fighting "in the way of God". If, however, one Muslim kills another, then the normal rules of retaliation continue to operate, with the proviso that the Muhajirun, who had no close relatives in the city, were to be considered as a clan like any of the native clans of Madina. There are also clauses dealing with relations with the Jews, who are partners in the affairs of Madina and bear their share of the expenses of warfare as long as there is no treachery between them and the Muslims, although both Muslims and Jews will keep their own religion Muhammad is only mentioned twice, both times to emphasize that the arbitration of any disputes belongs to God and Muhammad; no other arbitrators are mentioned. The documents, then, tried to solve the problems of justice within the city and relations with outsiders, but they do not suggest that the power of Muhammad was absolute or lay any emphasis on religious affairs. Madina was to be a haram as Mecca was, for its people, and Muhammad was to be its founding holy man.
Clearly the constitution of Madina only illustrates some aspects of Muhammad's authority in the early years after the Hijra. In the eight momentous years which followed, his energies and those of his followers were devoted to establishing his unquestioned authority within Madina, conducting an effective struggle against Mecca, attracting the alliance of as many of the surrounding nomad tribes as would co-operate and working out the rules and role of the Muslim community. All these processes went hand in hand and the struggle against the Meccans was instrumental in the establishment of power within Madina, while the support of outside tribes materially to his eventual success.
(The Prophet and the Age of the Caliphates)
شروع میں مہاجرین اہل مدینہ، جنہوں نے انہیں مدعو کیا تھا، کے گھر وں میں رہ رہے تھے ان اہل مدینہ کو اب انصار یعنی مدد کرنے والا کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہی انتظام جاری رہتا تو مہاجرین انصار پر ہی انحصار کرنے والے رہ جاتے۔ جہاں مہاجرین کو ہمیشہ مدد اور تحفظ کی ضرورت ہوتی۔ اس سے بچنے کیلئے ہجرت کے ابتدائی دو تین سالوں میں کئی معاہدات کئے گئے جنہیں اجتماعی طور پر میثاق مدینہ کہا جاتا ہے اس طرح مہاجرین اور اہل مدینہ کے درمیان معاہدہ طے پاگیا۔ تمام اہل ایمان ایک امت قرار دیئے گئے ایک ایسی قوم جو اردگرد کے اہل کفر معاشرہ سے الگ تھی۔ اور انہوں نے (مخالفین کے خلاف) جنگ بھی متحد ہوکر کرنا تھی۔ اس نو تشکیل شدہ امت کا باہمی رشتہ ان کے کفار کے ساتھ کسی بھی معاہدہ پر فائق تھا۔ اور اگر اللہ کی راہ میں کوئی مسلمان مارا جاتا تو سب نے متحد ہوکر اس کا بدلہ لینا تھا۔ تاہم اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو قتل کرتا تو بدلہ لینے کے عام قوانین پر عمل کیا جاتا تھا اور مہاجرین کو، جن کا مدینہ میں کوئی رشتہ دار یا خاندان نہیں تھا اسی طرح ایک خاندان سمجھا جاتا تھا جس طرح مدینہ میں آباد دوسرے مقامی خاندان۔ اس طرح اس دستور میں یہود سے تعلق کی شقیں بھی تھیں، جو مدینہ کے معاملات کے فریق تھے۔ اور وہ، جب تک مسلمانوں اور ان کے درمیان کوئی معاہدہ شکنی نہ ہو، جنگ کے اخراجات میں اپنا حصہ برداشت کرتے تھے۔ اگرچہ یہود اور مسلمانوں کا الگ الگ مذہب تھا مگر دستور میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دو مرتبہ ذکر کیا گیا اور دونوں مرتبہ اس طرح کے کسی بھی معاملے کے فیصلے کا اختیار اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہے ان کے علاوہ کسی دوسرے منصف کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ اس دستاویز نے شہریوں کے مابین انصاف کے قیام کے مسائل کو حل کرنے اور بیرونی قبائل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لئے بنیادی کردار ادا کیا۔ تاہم اس دستور میں اس بات کی وضاحت نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیارات مطلق ہیں (حالانکہ اس کا تذکرہ موجود ہے) نیز کسی مذہبی معاملات پر زور نہیں دیا گیا۔ مکہ کی طرح مدینہ کو بھی حرم قرار دیا گیا اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حرم کی بنیادی مقدس شخصیت قرار دیا گیا۔
ہجرت کے بعد ابتدائی سالوں میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیارات کو دستور مدینہ بدیہی طور پر بیان کرتا ہے۔ آنے والے اگلے آٹھ سالوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے اپنی توانائیاں مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعلیٰ تر حاکمیت کے قیام کے لئے وقف کردیں۔ جس کے لئے انہوں نے اہل مکہ کے خلاف موثر جدوجہد کی، مدینہ کے گرد آباد قبائل کے ساتھ ممکنہ حد تک اتحاد قائم کیا گیا اور ان کا تعاون حاصل کیا گیا اور مسلم معاشرے کے لئے اصولوں اور اس کے کردار کو واضح کیا گیا یہ سارے مراحل ساتھ ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ اہل مکہ کے خلاف جدوجہد نے مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طاقت کے استحکام میں اور بیرونی قبائل کی حمایت نے انجام کار آپ کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

ٹروڈ اہلرٹ (Trude Ehlert)

A more significant factor in the termination of these early arrangements in Madina may have been the formal agreement established between Muhammad and all of the significant tribes and families. Fortunately, Ibn Ishak preserved a version of this very valuable document, called the Constitution of Madina ....... It reveals his (Holy Prophet's) great diplomatic skills, for it allows the ideal that he cherished of an Ummah (community) based clearly on a religious outlook to sink temporarily into the background and is shaped essentially by practical considerations. It is true that the highest authority with God and Muhammad before whom all matters of importance were to be laid but the Ummah as portrayed in the Constitution of Madina included also Jews and polytheists ......
(The Encyclopaedia of Islam)
مدینہ میں آپ کے کیے جانے والے ابتدائی اقدامات میں ایک بڑا نمایاں اقدام آپ کا مدینہ کے دوسرے تمام نمایاں قبائل اور خاندانوں سے ہونے والا معاہدہ تھا خوش قسمتی سے ابن اسحق نے اس قابل قدر دستاویز کو جسے ’’دستور ریاست مدینہ،، کا نام دیا جاتا ہے محفوظ رکھا۔ اس دستور سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم سیاسی حکمت عملی ظاہر ہوتی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں ہی اس مثالی امت کی تشکیل کی راہ ہموار ہوئی جس کے لئے آپ نے جدوجہد کی تھی۔ یہ ریاست (الوہی قانون کے) پس منظر سے متعلق تھی اور عملی غور و خوض سے تشکیل پذیر ہوئی تھی۔ یہ سچ ہے کہ اعلیٰ تر اختیار اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی تھا۔ جن کے سامنے تمام اہمیت کے معاملات پیش ہوتے تھے لیکن اس دستور میں امت کی تعریف کے مطابق یہود اور غیر مسلموں کو بھی امت میں شامل کیا گیا تھا۔

ولیم تھامسن (William Thomson)

Muhammad's flight from Mecca to Madina the famous Hijra under threat of murder, opened up a new era for Islam and for the world. For in Madina Muhammad set about vigorously from the very beginning to establish his new community, organised, not on the ancient basis of family and tribal loyalty, but on the revolutionary principle of obedience to God and to himself as God's apostle, through whom God's will and law for man were revealed.
(Twentieth Century Encyclopaedia of Religious
Knowledge)
کفار مکہ کی طرف سے قتل کی دھمکیوں کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکہ سے مدینہ کوہجرت سے اسلام اور دنیا بھر کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا کیونکہ مدینہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روز اول سے ہی اپنی نئی ریاست کے قیام کے لئے جدوجہد شروع کردی جو خاندانی تعلقات اور قبائلی وفاداری کی پرانی بنیادوں پر استوار نہ تھی بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے انقلابی اصول پر استوار تھی۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہی اللہ کی رضا اور انسانوں کیلئے اس کے قانون کا اظہار ہوتا تھا۔
Muhammad's stronghold at Madina lay strategically athwart the Meccan carvan route to the North. The Prophet toiled and schemed to gain a stranglehold on their trade by detaching the tribes dwelling along that route from the Meccan affiliations either by skilful diplomacy or by a show of force when necessary this course led inevitably to war with Macca.
(Twentieth Century Encyclopaedia of Religious
Knowledge)
(میثاق مدینہ کے تحت ) مدینہ پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے (سیاسی) اختیار کا مطلب شمال کی طرف سے اہل مکہ کے تجارتی راستے پر اختیار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تجارت پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے سخت منصوبہ بندی کی۔ اس کے لئے آپ نے تجارتی شاہراہ کے ساتھ رہنے والے قبائل کو اہل مکہ سے اپنی ماہرانہ سیاسی حکمت عملی یا طاقت کے اظہار کے ذریعے الگ کردیا جو ناگزیر انداز سے اہل مکہ سے جنگ ( اور پھر فتح مکہ) پر منتج ہوا۔

ایڈورڈ گبن(Edward Gibbon)

Muhammad in the exercise of a peaceful and benevolent mission, had been despoiled and banished by the injustice of his countrymen. The choice of an independent people had exalted the fugitive of Mecca to the rank of a sovereign; and he was invested with the just prerogative of forming alliances and waging defensive and offensive war ...... The injustice of Mecca and the choice of Madina transformed the citizen into a prince the humble preacher into the leader of armies.
(The Decline & Fall of the Roman Empire)
(مکہ میں) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پر امن اور خیرخواہی کے مشن کی وجہ سے اپنے ہم وطنوں نے ظلم کا نشانہ بنایا اور اپنے شہر سے نکال دیا۔ آپ کے آزاد لوگوں یعنی اہل مدینہ کے انتخاب نے آپ کو ہجرت کرنے والے سے حکمران بنا دیا۔ اور اہل مدینہ کی طرف سے (میثاق مدینہ کی صورت میں) آپ کو دوسری قوتوں کے ساتھ اتحاد تشکیل دینے اور دفاعی و اقدامی جنگیں کرنے کا اختیار دے دیاگیا۔
اہل مکہ کے ظلم اور پھر مدینہ کے انتخاب سے ایک عام شہری حکمران اور ایک مبلغ عسکری قائد میں بدل گیا۔

منٹگمری واٹ (W. Montgomery Watt)

(According to the constitution of Madina) The referring of disputes to Muhammad, closely connected with the recognition of him as Prophet. The wording of the constitution is that disputes are to be referred to God and to Muhammad. The idea that one of the functions of a Prophet; to mete out Justice occurs in a Meccan passage of the Quran "each community has a messenger, and when their messenger comes, judgement is given between them with justice and they are not wronged." (10:47,48) This point was doubtless realized by the Medinans when they recognized Muhammad as Prophet, part of what attracted them to him as the hope that he would be able to put an end to the internal disputes that made life in Madina intolerable.
(Muhammad at Madina)
(آئین مدینہ کے مطابق) مختلف ریاستی معاملات کا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا جانا اس بات کی دلیل تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اہل مدینہ نے پیغمبر تسلیم کرلیا۔ (آپ کو صرف پیغمبر ہی نہیں بلکہ ریاستی حکمران بھی تسلیم کیا گیا جس کا اعتراف کرنے میں واٹ نے علمی بخل سے کام لیا ہے ) دستور کے الفاظ یہ ہیں کہ تمام تنازعات فیصلہ کے لئے اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ یہ تصور کہ پیغمبر کے وظائف میں انصاف کا قیام بھی شامل ہے مکی سورۃ قرآن کی اس آیت میں ہے۔
’’ہر قوم کے پاس ایک پیغمبر آیا۔ اور جب رسول آجائے تو ان کے درمیان تمام فیصلے انصاف کے ساتھ کردیئے جاتے ہیں اور ظلم نہیں کیا جاتا۔
(10:47، 48)،،
جب اہل مدینہ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغمبر تسلیم کیا تو یہ بات ان کے ذہن میں تھی اور اسی تصور کے تحت وہ (آپ کو مختار اعلی تسلیم کرنے کے لئے) آپ کی طرف راغب ہوئے کہ آپ ان اندرونی جھگڑوں کو ختم کردیں گے جنہوں نے مدینہ میں زندگی کو ناقابل برداشت بنادیا تھا۔

کتابیات

1۔ القرآن الحکیم
2۔ ابو داؤد السجستانی۔ سنن۔ دار احیائے السنۃ النبویہ۔ بیروت
3۔ ابن سعد، الطبقات الکبری۔ بیروت
4۔ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، مکتبۃ المعارف بیروت الطبعہ الثانیہ 1978 ء
5۔ ژاں ژاک روسو، معاہدہ عمرانی، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد۔ 1998ء
6۔ محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، الوثائق السیاسیۃ، دارالارشاد، بیروت
7۔ محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، عہد نبوی میں نظام حکمرانی، اردو اکیڈمی سندھ 1981ء
8. Afzal Iqbal, Dr; Diplomacy in Early Islam, Institute of Islamic Culture, Lahore, 1988.
9. D.S. Margoliouth, Mohammed and the Rise of Islam, New York, 1905.
10. Edward Gibbon, The Decline and Fall of Roman
Empire,The Modern Library Edition, New York.
11. Encyclopaedia of Islam, Leiden, New York, 1993.
12. Finer, S.E; Five Constitutions.
13. Frants Buhl, Shorter Encyclopaedia of Islam.
14. Francesco Gabrieli, Muhammad and the Conquests of Islam, Weidenfeld & Nicholson, London, 1968.
15. G.M. Draycott, Mahomet, London, 1916.
16. Hugh Kennedy, The Prophet and the Age of the
Caliphates, Longman, New York.
17. J. Wellhausen, The Arab Kingdom and Its Fall,
University of Calcutta, 1927.
18. John Bagot Glubb, Sir, The Life & Times of Muhammad, Stein & Day, New York, 1971.
19. Joseph Hell, The Arab Civilization,W.Heffer & Sons, Cambridge, 1926.
20. Levontin, The Myth of International Security.
21. Maurice Gaudferoy Demombynes, Muslim Institutions, George Allen & Unwin, London, 1954.
22. Phyllis Bennis, Calling the Shots,
Interlink Publishing Group, Inc., New York, 1996
23. R.A. Nicholson, A Literary History of the Arabs,Cambridge University Press, 1953.
24. Reuben Levy, The Social Structure of Islam, Cambridge University Press, 1959.
25. Stanely Fitzen & Maxine Baca Zinn, In Conflict & Order,
Simon and Schuster, Inc., 160 Gould Street,
Massachusetts, USA, 1991.
26. Thomas Arnold, Sir, The Preaching of Islam, Lahore, 1961.
27. Trude Ehlert, The Encyclopaedia of Islam.
28. W. Montgomery Watt, Muhmmad at Madina, OUP, Karachi, 1994.
29. William Thomson, Twentieth Century Encyclopaedia of Religious Knowledge.



متن
میثاق مدینہ
بسم اﷲ الرحمن الرحيم
میثاق مدینہ
The Constitution of
Islamic State of Madina

آرٹیکل نمبر 1

آئینی دستاویز Consitutional Document

عربی
هذا کتاب من محمد النبی (رسول اﷲ) صلی الله علیه وآله وسلم.
انگلش
This is a constitutional document given by Muhammad (SAW), the Prophet, (Messenger of God).
اردو
یہ اللہ کے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دستوری تحریر (دستاویز ) ہے۔

آرٹیکل نمبر 2

ریاست کے آئینی طبقات Constitutional Subjects of the State

عربی
بين المؤمنين والمسلمين من قريش و (أهل) يثرب و من تبعهم فلحق بهم وجاهد معهم.
انگلش
(This shall be a pact) between the Muslims of Quraysh, the people of Yathrib (the Citizens of Madina) and those who shall follow them and become attached to them (politically) and fight along with them. (All these communities shall be the constitutional subjects of the State.)
اردو
یہ معاہدہ مسلمانان قریش اور اہل یثرب اور ان لوگوں کے مابين ہے جو ان کے تابع ہوں اور ان کے ساته شامل ہوجائیں اور ان کے ہمراہ جنگ میں حصہ لیں۔ (یہ سب گروہ ریاست مدینہ کے آئینی طبقات متصور ہوں گے)۔

آرٹیکل نمبر 3

آئینی قومیت کی تشکیل Formation of the Constitutional Nationality

عربی
أنهم أمة واحدة من دون الناس.
انگلش
The aforementioned communities shall formulate a Constitutional Unity as distinct from (other) people.
اردو
تمام (دنیا کے دیگر ) لوگوں کے بالمقابل ان کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت (قومیت) ہوگی۔

آرٹیکل نمبر 4

مہاجرین قریش کے لئے سابقہ قبائلی قانونِ دیّات کی توثیق و نفاذ
Validation and Enforcement of the Former Tribal Laws of Blood Money for the Emigrant Quraysh.
عربی
المهاجرون من قريش علي ربعتهم يتعاقلون بينهم معاقلهم الأولي، وهم يفدون عانيهم بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
The emigrants from Quraysh shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of their prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with the recognised principles of law and justice.
اردو
قریش میں سے ہجرت کر کے آنے والے اپنے محلے پر ( ذمہ دار ) ہوں گے اور اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائیں گے، مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر 5

بنو عوف کے لئے ان کے قبائلی قانونِ دیّات کی توثیق
Validation of the Former Laws of Blood Money for Banu Auf
عربی
و بنو عوف علی ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولي وکل طائفة تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
And the emigrants from Banu Auf shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of their prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with the recognised principles of law and justice.
اردو
اور بنی عوف اپنے محلے پر (ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر6

بنو حارث کے لئے ان کے قبائلی قانون دیات کی توثیق
Validation of the Former Laws of Blood Money for Banu Harith
عربی
و بنو حارث (بن الخزرج) علی ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولي وکل طائفة تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
And the emigrants from Banu Harith shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of thier prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with the recognised principles of law and justice.
اردو
اور بنو حارث بن خزرج اپنے محلے پر (ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر7

بنو ساعدہ کے لئے ان کے قبائلی قانون دیات کی توثیق
Validation of the Former Laws of Blood Money for Banu Saida
عربی
و بنو ساعده علی ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولی وکل طائفة تفدی عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
And the emigrants from Banu Saida shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of their prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with the recognised principles of law and justice.
اردو
اور بنو ساعدہ اپنے محلے پر (ذمہ دار ) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر8

بنو جشم کے لئے ان کے قبائلی قانون دیات کی توثیق
Validation of the Former Laws of Blood Money for Banu Jusham
عربی
و بنو جشم علی ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولي و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
And the emigrants from Banu Jusham shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of their prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with the recognised principles of law and justice.
اردو
اور بنو جشم اپنے محلے پر (ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر9

بنو نجار کے لئے ان کے قبائلی قانون دیات کی توثیق
Validation of the Former Laws of Blood Money for Banu Najjar
عربی
و بنو النجار علی ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولی و کل طائفة تفدی عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
And the emigrants from Banu Najjar shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of their prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with recognised principles of law and justice.
اردو
اور بنو نجار اپنے محلے پر (ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا، مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصا ف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر10

بنو عمرو کے لئے ان کے قبائلی قانون دیات کی توثیق
Validation of the Former Laws of Blood Money for Banu Amr
عربی
و بنو عمرو بن عوف علی ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولی وکل طائفة تفدی عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
And the emigrants from Banu Amr shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of their prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with the recognised principles of law and justice.
اردو
اور بنو عمرو بن عوف اپنے محلے پر (ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا،  مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر11

بنو نبیت کے لئے ان کے قبائلی قانون دیات کی توثیق
Validation of the Former Laws of Blood Money for Banu Nabeet
عربی
و بنو النبيت علي ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولي و کل طائفة تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
And the emigrants from Banu Nabeet shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of their prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with the recognised principles of law and justice.
اردو
اور بنونبیت اپنے محلے پر (ذمہ دار ) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا، مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر12

بنو اوس کے لئے ان کے قبائلی قانون دیات کی توثیق
Validation of the Former Laws of Blood Money for Banu Aws
عربی
و بنو الأوس علی ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولی و کل طائفة تفدی عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
انگلش
And the emigrants from Banu Aws shall be responsible for their ward and they shall, according to their former approved practice, jointly pay the blood money in mutual collaboration and every group shall secure the release of their prisoners by paying the ransom. Moreover, the deal among the believers shall be in accordance with the recognised principles of law and justice.
اردو
اور بنو الاوس اپنے محلے پر (ذمہ دار) ہوں گے اور حسب سابق اپنے خوں بہا باہم مل کر دیا کریں گے اور ہر گروہ اپنے ہاں کے قیدی کو خود فدیہ دے کر چھڑائے گا، مزید یہ کہ ایمان والوں کا باہمی برتاؤ نیکی اور انصاف پر مبنی ہوگا۔

آرٹیکل نمبر 13

تمام طبقات کے لئے بلا امتیاز پابندی قانون و عدل کا حکم
Indiscriminate Rule of Law and Justice for all the Communities.
عربی
و کل طائفة تفدی عانيها بالمعروف و القسط بين المؤمنين.
انگلش
And every group shall secure the release of its captives ensuring that an indiscriminate rule of law and justice is applied among the believers.
اردو
ہر گروہ اپنے قیدیوں کا زرِ فدیہ ادا کر کے انہیں رہائی دلائے گا اور اس ضمن میں مسلمانوں کے درمیان قانون و انصاف کے بلا امتیاز اطلاق کو یقینی بنائے گا۔

آرٹیکل نمبر14

تنفیذ قانون میں تخفیف کی ممانعت
Prohibition of Relaxation in Execution of Law
عربی
و ان المؤمنين لا يترکون مفرحا بينهم أن يعطوه بالمعروف فی فداء او عقل.
انگلش
The believers shall not leave a debtor among them, but shall help him in paying his ransom, according to what shall be considered fair.
اردو
اور ایمان والے کسی قرض کے بوجہ سے دبے ہوئے کو مدد کئے بغیر نہیں چھوڑیں گے، جن کے ذمہ زرِ فدیہ یا دیت ہے۔

آرٹیکل نمبر15

کسی کی ناحق حمایت کی ممانعت
Prohibition of Unjust Favouritism
عربی
و أن لا يحالف مؤمن مولی مؤمن دونه.
انگلش
A believer shall not form an alliance with the associate of (another) believer without the (latter's) consent.
اردو
اور یہ کہ کوئی مومن کسی دوسرے مومن کے مولا (معاہداتی بھائی) سے اس کی مرضی کے بغیر معاہدہ نہیں کرے گا۔

آرٹیکل نمبر16

ظلم، گناہ اور فساد کے خلاف اجتماعی مزاحمت
Collective Resistance against Unjustice, Tyranny and Mischief
عربی
و أن المؤمنين المتقين أيديهم علي کل من بغي منهم أو ابتغي دسيعة ظلم أو إثما أو عدوانا أو فسادا بين المؤمنين و أن أيديهم عليه جميعا ولو کان ولد أحدهم.
انگلش
There shall be collective resistance by the believers against any individual who rises in rebellion, attempts to acquire anything by force, violates any pledge or attempts to spread mischief amongst the believers. Such collective resistance against the perpetrator shall occur even if he is the son of anyone of them.
اردو
اور متقی ایمان والوں کے ہاتھ ان میں سے ہر اس شخص کے خلاف اٹھیں گے جو سرکشی کرے یا استحصال بالجبر کرنا چاہے یا گناہ یا تعدی کا ارتکاب کرے، یا پر امن شہریوں (مومنوں) میں فساد پھیلانا چاہے اور ایسے شخص کے خلاف سب مل کر اٹھیں گے،  خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔

آرٹیکل نمبر17

مسلمان کو مسلمان کے قتل کی ممانعت
Prohibition of Killing of a Muslim by a Muslim
عربی
ولا يقتل مؤمن مومنا فی کافر، ولا ينصر کافرا علی مؤمن.
انگلش
A believer shall not kill (another) believer (in retaliation) for an unbeliever, nor help an unbeliever against a believer.
اردو
اور کوئی ایمان والا کسی ایمان والے کو کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کرے گا، اور نہ کسی کافر کی کسی ایمان والے کے خلاف مدد کرے گا۔

آرٹیکل نمبر18

مسلمانوں کی جانی حفاظت کے مساوی حق کی ضمانت
Guarantee of Equal Right of Life Protection for all the Muslims
عربی
و أن ذمة اﷲ واحدة يجير عليهم أدناهم.
انگلش
The security of God (granted under this constitution) is one. This protection can be granted even by the humblest of the believers (that would be equally binding for all).
اردو
اور اللہ کا ذمہ ایک ہی ہے۔ ان (مسلمانوں) کا ادنیٰ ترین فرد بھی کسی کو پناہ دے کر سب پر پابندی عائد کرسکے گا۔

آرٹیکل نمبر19

دیگر آئینی طبقات کے مقابل امت مسلمہ کا الگ تشخص
Distinctive Identity of the Muslims Against other Constitutional Communities
عربی
و أن المؤمنين بعضهم موالی بعض دون الناس.
انگلش
The believers shall be the associates of one another against all other people (of the world).
اردو
اور ایمان والے بقیہ لوگوں کے مقابلباہم بھائی بھائی ہیں۔

آرٹیکل نمبر20

غیر مسلم اقلیتوں (یہود) کی جانی حفاظت کا حق بھی (مسلمانوں کے) برابر ہے
Non-Muslim Minorities (Jews) have the same Right of Life Protection (like Muslims)
عربی
و أنه من تبعنا من يهود فإن له النصر والأ سوة غير مظلومين ولا متناصر عليهم.
انگلش
A Jew, who obeys us (the state) shall enjoy the same right of life protection (as the believers do), so long as they (the believers) are not wronged by him ( the Jew), and he does not help (others) against them.
اردو
اور یہودیوں میں سے جو ہماری (ریاست مدینہ کی)اتباع کرے گا اسے مدد اور مساوات حاصل ہوگی، جب تک وہ اہل ایمان پر ظلم کا مرتکب نہ ہو یا ان کے خلاف (کسی مخالف کی) مدد نہ کرے۔

آرٹیکل نمبر21

تمام مسلمانوں کیلئے عدل اور برابری پر مبنی یکساں امن و امان کی ضمانت
Guarantee of Peace and Security for all the Muslims based on Equality and Justice
عربی
و ان سلم المومنين واحدة لا يسالم مومن دون مومن في قتال في سبيل اﷲ الا علي سواء و عدل بينهم.
انگلش
And verily the peace granted by the believers shall be one. If there is any war in the way of Allah, no believer shall make any treaty of peace (with the enemy) apart from other believers, unless that is based on equality and fairness among all.
اردو
اور ایمان والوں کی صلح (معاہدہ امن) ایک ہی ہوگی۔ اللہ کی راہ میں لڑائی کے دوران کوئی ایمان والا کسی دوسرے ایمان والے کو چھوڑ کر (دشمن سے ) صلح نہیں کرے گا۔ جب تک کہ (یہ صلح) ان سب کیلئے برابر اور یکساں نہ ہو۔

آرٹیکل نمبر22

جنگی معاونین کی امداد کا قانون
Law of Relief for War Allies
عربی
و أن کل غازية غزت معنا يعقب بعضها بعضا.
انگلش
Every war ally of ours shall receive relief turns (at riding) at all military duties.
اردو
اور ان تمام گروہوں کو جو ہمارے ہمراہ (دشمن کے خلاف) جنگ کریں باہم نوبت بہ نوبت رخصت دلائی جائے گی۔

آرٹیکل نمبر23

مسلمانوں کے لئے ایک دوسرے کی خاطر جنگی انتقام لینے کا قانون
Law of Vengeance for the Muslims in case of Bloodshed in the way of Allah
عربی
و أن المؤمنين يبيئ بعضهم عن بعض بما نال دماء هم في سبيل اﷲ.
انگلش
The believers shall execute vengeance for one another for the bloodshed in the way of Allah.
اردو
اور ایمان والے راہ خدا میں اپنی ہونے والی خونریزی کا ایک دوسرے کے لئے (دشمن سے) انتقام لیں گے۔

آرٹیکل نمبر24

اسلام ہی بہترین نظام حیات ہے
Islam is the Best Code of life
عربی
و أن المؤمنين المتقين علی أحسن هدي و أقومه.
انگلش
All the God-fearing believers are under the best and most correct guidance of Islam.
اردو
اور بلا شبہ ایمان اور تقوی والے سب سے اچھے اور سیدھے راستے پر ہیں۔

آرٹیکل نمبر25

دشمن کوجان و مال کا تحفظ فراہم کرنے کی ممانعت
Prohibition of Providing Security of Life and Property to the Enemy
عربی
و أنه لا يجير مشرک مالاً لقريش و لا نفساً و لا يحول دونه علی مؤمن.
انگلش
No idolater (or any non-believer among the clans of Madina) shall give protection for property and life to (any of the) Quraysh (because of their being hostile to the state of Madina) nor shall intervene on his behalf against any believer.
اردو
اور ( مدینہ کی غیر مسلم رعیت میں سے) کوئی مشرک قریش کی جان و مال کو کوئی پناہ دے گا اور نہ ان کی خاطر کسی مومن کے آڑے آئے گا۔

آرٹیکل نمبر26

مسلمانوں کے قتل کیلئے قانون قصاص کا اجرا
Execution of the Law of Retaliation for a Muslim Murder
عربی
و أنه من اعتبط مؤمناً قتلا عن بينة فإنه قود به، إلا أن يرضی ولی المقتول (بالعقل)، و أنّ المؤمنين عليه کافّة و لا يحل لهم إلاقيام عليه.
انگلش
When anyone intentionally kills a believer, the evidence being clear he shall be killed in retaliation, unless the heirs of the victim are satisfied with the bloodmoney. All the believers shall solidly stand against the murderer and nothing will be lawful for them except opposing him.
اردو
اور جو شخص کسی مومن کو عمداً قتل کرے اور ثبوت پیش ہو تو اس سے قصاص لیا جائے گا، بجز اس کے کہ مقتول کا ولی خوں بہا پر راضی ہوجائے۔ اور تمام ایمان والے اس (قصاص) کی تعمیل کیلئے اٹھیں گے اور اس کے سوا انہیں کوئی اور چیز جائز نہ ہوگی۔

آرٹیکل نمبر27

معاہدہ کی خلاف ورزی میں فتنہ پروری اور فساد انگیزی کرنے والے کیلئے کوئی حفاظت اور رعایت نہیں
No Protection or Concession for the Doer of Mischief and Subversion against the Constitution
عربی
و أنه لا هحل لمؤمن أقرّا بما فه هذه الصحهفة، وآمن باﷲ والهوم الآخر أن هنصر محدثا أو هؤوهه، و أن من نصره، أو آواه، فإن علهه لعنة اﷲ و غضبه هوم القهامة، ولا هؤخذ منه صرف ولا عدل.
انگلش
A believer who believes in God and in the Hereafter and agrees to the contents of this document shall not provide any protection or concession to those who engage in mischief and subversion against this Constitution. Those who do so shall face the curse and wrath of God on the Day of Resurrection. Furthermore, nothing shall be accepted from them as a compensation or restitution (in the life hereafter).
اردو
اور کسی ایسے ایمان والے کیلئے جو اس دستور العمل (صحیفہ) کے مندرجات (کی تعمیل) کا اقرار کرچکا ہو اور خدا اور یوم آخرت پر ایمان لا چکا ہو، یہ بات جائز نہ ہوگی کہ کسی قاتل کو مدد یا پناہ دے اور جو اسے مدد یا پناہ دے گا تو قیامت کے دن اس پر خدا کی لعنت اور غضب نازل ہو گا اور اس سے کوئی رقم یا معاوضہ قبول نہیں کیا جائے گا۔

آرٹیکل نمبر28

جملہ نزاعات میں آخری اور حتمی حکم اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہوگا۔
The Final and Absolute Authority in the Disputes vests in Almighty Allah and Hadrat Muhammad (SAW)
عربی
و أنکم مما اختلفتم فيه من شئ، فإن مرده إلی اﷲ و إلی محمد.
انگلش
When anyone among you differs about anything, the dispute shall be referred to Almighty Allah and to the Prophet Muhammad (SAW) (as all final and absolute authority is vested in them).
اردو
اور جب کبھی تم میں کسی چیز کے متعلق اختلاف ہو تو اسے اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹایا جائے گا۔ (کیونکہ آخری اور حتمی حکم اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے)۔

آرٹیکل نمبر29

یہود کی جنگی اخراجات میں متناسب ذمہ داری
Proportionate Liability of Non-Muslim Citizens (the Jews) in Bearing the War Expenses
عربی
و أن اليهود ينفقون مع المؤمنين ما د اموا محاربين.
انگلش
The Jews (non-Muslim minorities) will be subjected to a proportionate liability of the war expenses along with the believers so long as they (the Jews) continue to fight in conjunction with them.
اردو
اور یہودی اس وقت تک مومنین کے ساتھ (جنگی) اخراجات برداشت کرتے رہیں گے جب تک وہ مل کر جنگ کرتے ر ہیں۔ 


آرٹیکل نمبر30

مسلمانوں اور غیر مسلم اقلیتوں کیلئے مذہبی آزادی کی ضمانت
Guarantee of Freedom of Religion for both the Muslims and Non-Muslim Minorities (the Jews)
عربی
و أن يهود بني عوف أمة مع المومنين، لليهود دينهم، وللمسلمين دينهم، مواليهم و أنفسهم إلا من ظلم و أثم، فإنه لا يوتغ إلا نفسه و أهل بيته.
انگلش
The Jews of Banu Awf (non-Muslim minorities) shall be considered a community alongwith the believers. They shall be guaranteed the right of religious freedom along with the Muslims. The right shall be conferred on their associates as well as themselves except those who are guilty of oppression or the violators of treaties. They will bring evil only on themselves and their family.
اردو
اور بنی عوف کے یہودی، مومنین کے ساتھ ایک سیاسی وحدت تسلیم کئے جاتے ہیں۔ یہودیوں کیلئے ان کا دین ہے اور مسلمانوں کیلئے اپنا دین ہے خواہ ان کے موالی ہوں یا وہ بذات خود ہوں، ہاں جو ظلم یا عہد شکنی کا ارتکاب کرے تو اس کی ذات یا گھرانے کے سوا کوئی مصیبت میں مبتلا نہیں کیا جائے گا۔

آرٹیکل نمبر31

یہود بنی نجار کی یہود بنی عوف کے ساتھ جملہ حقوق میں برابری
Equality of Rights for the Jews of Banu Najjar with the Jews of Banu Awf
عربی
و أن ليهود بني النجار مثل ما ليهود بني عوف.
انگلش
The Jews of Banu Najjar shall enjoy the same rights as granted to the Jews of Banu Awf.
اردو
اور بنی نجار کے یہودیوں کو بھی بنی عوف کے یہودیوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔

آرٹیکل نمبر32

یہود بنی حارث کی یہود بنی عوف کے ساتھ جملہ حقوق میں برابری
Equality of Rights for the Jews of Banu Harith with the Jews of Banu Awf
عربی
و ان ليهود بني الحارث مثل ما ليهود بني عوف.
انگلش
The Jews of Banu Harith shall enjoy the same rights as granted to the Jews of Banu Awf.
اردو
اور بنی حارث کے یہودیوں کو بھی بنی عوف کے یہودیوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔

آرٹیکل نمبر33

یہود بنی ساعدہ کی یہود بنی عوف کے ساتھ جملہ حقوق میں برابری
Equality of Rights for the Jews of Banu Sa'ida with the Jews of Banu Awf
عربی
و أن ليهود بنی ساعدة مثل ما ليهود بنی عوف.
انگلش
The Jews of Banu Sa'ida shall enjoy the same rights as granted to the Jews of Banu Awf.
اردو
اور بنی ساعدہ کے یہودیوں کو بھی بنی عوف کے یہودیوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔

آرٹیکل نمبر34

یہود بنی جشم کی یہود بنی عوف کے ساتھ جملہ حقوق میں برابری
Equality of Rights for the Jews of Banu Jusham with the Jews of Banu Awf
عربی
و أن ليهود بنی جشم مثل ما ليهود بنی عوف.
انگلش
The Jews of Banu Jusham shall enjoy the same rights as granted to the Jews of Banu Awf.
اردو
اور بنی جشم کے یہودیوں کو بھی بنی عوف کے یہودیوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔

آرٹیکل نمبر35

یہود بنی اوس کی یہود بنی عوف کے ساتھ جملہ حقوق میں برابری
Equality of Rights for the Jews of Banu Aws with the Jews of Banu Awf
عربی
و أن ليهود بنی الأوس مثل ما ليهود بنی عوف.
انگلش
The Jews of Banu Aws shall enjoy the same rights as granted to the Jews of Banu Awf.
اردو
اور بنی اوس کے یہودیوں کو بھی بنی عوف کے یہودیوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے.

آرٹیکل نمبر36

یہود بنی ثعلبہ کی یہود بنی عوف کے ساتھ جملہ حقوق میں برابری
Equality of Rights for the Jews of Banu Tha'laba with the Jews of Banu Awf
عربی
و أن ليهود بنی ثعلبة مثل ما ليهود بنی عوف، إلا من ظلم و أثم فإنه لا يوتغ إلا نفسه و أهل بيته.
انگلش
The Jews of Banu Tha'laba shall enjoy the same rights as granted to the Jews of Banu Awf except those who are guilty of oppression or violate treaties, they will bring evil only on themselves and their family.
اردو
اور بنی ثعلبہ کے یہودیوں کو بھی بنی عوف کے یہودیوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔ ہاں جو ظلم یا عہد شکنی کا ارتکاب کرے تو خود اس کی ذات یا گھرانے کے سوا کوئی مصیبت میں نہیں پڑے گا۔

آرٹیکل نمبر37

بنو ثعلبہ کی شاخ جفنہ کی یہود بنی عوف کے ساتھ جملہ حقوق میں برابری
Equality of Rights for Jafna, the branch of Banu Tha'laba, with the Jews of Banu Awf
عربی
و أن جفنة بطن من ثعلبه کأنفسهم.
انگلش
Jafna, a branch of Banu Thalaba, shall enjoy the same rights as granted to Banu Tha'laba.
اردو
اور (قبیلہ) جفنہ کو بھی۔۔ ۔ جو (قبیلہ) ثعلبہ کی ایک شاخ ہے۔۔ ۔ وہی حقوق حاصل ہوں گے جو (قبیلہ) ثعلبہ کو حاصل ہیں۔

آرٹیکل نمبر38

یہود بنی شطیبہ کی یہود بنی عوف کے ساتھ جملہ حقوق میں برابری
Equality of Rights for the Jews of Banu Shutayba with the Jews of Banu Awf
عربی
و أن لبنی الشطيبة مثل ما ليهود بنی عوف، و أن البردون الإثم
انگلش
The Jews of Banu Shutayba shall enjoy the same rights as granted to the Jews of Banu Awf. There shall be complete compliance (with this constitution) and no violation (of its clauses) .
اردو
اور بنی شطیبہ کو بھی بنی عوف کے یہودیوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔ اور (اس دستور سے ) وفا شعاری ہو نہ کہ عہد شکنی۔

آرٹیکل نمبر39

قبیلہ ثعلبہ کے حلیفوں کی جملہ حقوق میں ان کے ساتھ برابری
Equality of Rights for all the Associates of the Tribe Tha'laba
عربی
و أن موالی ثعلبة کأنفسهم.
انگلش
All the associates of Banu Tha'laba shall enjoy the same rights as granted to Banu Thalaba.
اردو
اور ثعلبہ کے موالی کو بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اصل کو۔

آرٹیکل نمبر40

یہود کی تمام شاخوں کی جملہ حقوق میں برابری
Equality of Rights for all Branches of the Jews
عربی
و أن بطانة يهود کأنفسهم.
انگلش
All sub-branches of the Jews shall enjoy the same rights as granted to them (the Jews) .
اردو
اور یہودیوں کی ذیلی شاخوں کو بھی اصل کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔

آرٹیکل نمبر 41

جنگی مہمات میں حتمی اذن اور حکم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہوگ
Final Command and Authority in Military Expeditions Vests in the Prophet Muhammad (SAW)
عربی
و أنه لا يخرج منهم أحد إلا بإذن محمد.
انگلش
Verily, none among the allies shall advance (on a military expedition) without the prior permission of the Prophet Muhammad (SAW) (in whom vests the final command and authority) .
اردو
اور یہ کہ ان میں سے کوئی بھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت کے بغیر (فوجی کارروائی کے لئے) نہیں نکلے گا۔

آرٹیکل نمبر42

قانون قصاص سے کوئی مستشنی نہیں ہے
No Exception from the Law of Retaliation
عربی
و أنه لا ينحجز علی ثأر جرح.
انگلش
There shall be no impediment on anyone who wishes to avenge a wound.
اردو
اور کسی مار، زخم کا بدلہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔

آرٹیکل نمبر43

قتل ناحق کی ذمہ داری
Responsibility of Unlawful Killing
عربی
و أنه من فتک فبنفسه فتک و أهل بيته إلا من ظلم و أن اﷲ علی أبر هذا.
انگلش
Whoever commits an unlawful killing shall be responsible for it himself with his family members but he is exepmted in case he kills a cruel. Verily, Allah (is the Trust Helper) supports those who adhere completely to this Constitution.
اردو
جو خونریزی کرے تو اس کی ذات اور اس کا گھرانہ ذمہ دار ہوگا، الا یہ کہ اس پر ظلم ہوا ہو۔ اور خدا اس کے ساتھ ہے جو اس (دستور العمل) کی زیادہ سے زیادہ وفا شعارانہ تعمیل کرے۔

آرٹیکل نمبر44

یہود اور مسلمانوں کا حالت جنگ میں اپنے اپنے اخراجات کا جداگانہ برداشت کرنا
Separate Liability of War Expenses
عربی
و أن علی اليهود نفقتهم، و علی المسلمين نفقتهم.
انگلش
The Jews and the Muslims shall bear their own war expenses separately.
اردو
اور یہودیوں پر ان کے خرچے کا بار ہوگا، اور مسلمانوں پر ان کے خرچے کا۔

آرٹیکل نمبر45

جنگ کی صور ت میں ایک دوسرے کی لازمی باہمی امداد
Compulsory Mutual Help to one another in Case of War
عربی
و أن بينهم النصر علی من حارب أهل هذه الصحيفة.
انگلش
There shall be mutual help between one another against those who engage in war with the allies of this document.
اردو
اور جو کوئی اس دستور والوں سے جنگ کرے تو ان (یہودیوں اور مسلمانوں) میں باہم امداد عمل میںآئے گی۔

آرٹیکل نمبر46

باہمی صلح اور مشاورت
Mutual Consultation and Honourable Dealing
عربی
و أن بينهم النصح والنصيحة و البردون الإثم.
انگلش
There shall be mutual consultation and honourable dealing between the allies and there shall be the fulfilment not the violation, of all pledges.
اردو
اور ان میں باہم حسن مشورہ اور بہی خواہی ہوگی، اور وفا شعاری ہوگی نہ کہ عہد شکنی۔

آرٹیکل نمبر47

معاہدہ توڑنے کی مخالفت اور مظلوم کی امدا د کا حکم
Law of Prohibition of Treachery and Help of the Oppressed
عربی
و أنه لا يأثم امرء بحليفه، و أن النصر للمظلوم.
انگلش
No one shall violate the pledge due to his ally and verily, help shall be given to the oppressed.
اردو
کوئی فریق یا جماعت اپنے کسی حلیف کی وجہ سے معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں کرے گی اور مظلوم کی داد رسی لازماً کی جائے گی۔

آرٹیکل نمبر 48

یہود (غیر مسلم اقلیتیں) بھی زمانہ جنگ میں ریاست کی مالی معاونت کریں گی۔
The Jews (non-Muslim Minorities) shall also Extend Financial Support to the State during the War Period
عربی
و أن اليهود ينفقون مع المؤمنين ما داموا محاربين.
انگلش
The Jews (non-Muslim minorities) along with the believers shall extend financial support to the State during the war period.
اردو
اور یہودی اس وقت تک مومنین کے ساتھ (جنگی) اخراجات برداشت کرتے رہیں گے جب تک کہ وہ مل کر جنگ کرتے رہیں۔

آرٹیکل نمبر49

ریاست کے مختلف طبقات کے درمیان جنگ اور قتل و غارت گری کی ممانعت
Prohibition of Fighting and Bloodshed among the Various Communities of the State.
عربی
و أن يثرب حرام جوفها لأ هل هذه الصحيفة.
انگلش
The valley of Yathrib is sacred and there shall be prohibition of fighting and bloodshed among the various communities of the State.
اردو
اور یثرب کا جوف (یعنی میدان جو پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے) اس دستور والوں کے لئے حرم (دارالامن) ہوگا (یعنی یہاں آپس میں جنگ کرنا منع ہوگا)۔

آرٹیکل نمبر50

آئینی و ریاستی امن پانے والے ہر شخص کی جان حفاظت میں برابر ہوگی۔
Equal Right of Life Protection shall be Granted to Everyone, Who has been Given the Constitutional Shelter
عربی
و أن الجار کالنفس غير مضارولا آثم.
انگلش
A person given constitutional shelter shall be granted an equal right of life protection as long as he commits no harm and does not act treacherously.
اردو
پناہ گزین سے وہی برتاؤ ہوگا جو اصل (پناہ دہندہ) کے ساتھ، نہ اس کو ضرر پہنچا یا جائے گا اور نہ خود وہ عہد شکنی کرے گا۔

آرٹیکل نمبر51

خواتین کو تحفظ دینے کا قانون
Law of Shelter for the Women
عربی
و أنه لا تجار حرمة إلا بإذن أهلها.
انگلش
A woman shall not be given any shelter without the consent of her family.
اردو
اور کسی عورت کو اس کے خاندان (اہل خانہ ) کی رضا مندی سے ہی پناہ دی جائے گی۔

آرٹیکل نمبر52

ایسے جھگڑوں میں جو باعث جنگ و جدال ہوں، اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم و اختیار قطعی ہوگ
Authority of Allah and the Prophet Muhammad (SAW) shall be Final and Absolute Authority in all Disputes Instigating any Quarrel
عربی
و أنه ما کان بين أهل هذه الصحيفة من حدث، أو اشتجار يخاف فساده، فإن مرده إلي اﷲ و إلي محمد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و أن اﷲ علي أتقي ما في هذه الصحيفة و أبره.
انگلش
And verily if any dispute arises among the parties to this document from which any quarrel may be feared, it shall be referred to God and to Muhammad (SAW) , the Messenger of God, for the final and absolute decision. Verily, God is the Guarantee for the faithful observance of the contents of this Constitution (which shall be enforced by the State) .
اردو
اور یہ کہ اس دستور والوں میں جو بھی قتل یا جھگڑا رونما ہو، جس سے فساد کا ڈر ہو تو اس میں خدا اور خدا کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رجوع کیا جائے گا اور خدا اس شخص کے ساتھ ہے جو اس دستور کے مندرجات کی زیادہ سے زیادہ احتیاط اور زیادہ سے زیادہ وفا شعاری کے ساتھ تعمیل کرے۔

آرٹیکل نمبر53

ریاست مدینہ کے دشمنوں اور ان کے حلیفوں کوپناہ نہیں دی جائے گی
No Refuge for the Enemies of the State nor for Their Allies.
عربی
و أنه لا تجار قريش ولا من نصرها.
انگلش
There shall be no refuge for the Quraysh (the enemies of the State) nor for their allies.
اردو
اور قریش اور ان کے مددگاروں کو پناہ نہیں دی جائے گی۔

آرٹیکل نمبر54

حملہ کی صورت میں ریاست کا دفاع سب کی مشترکہ ذمہ داری ہوگی
Joint Responsibility of Defence in Case of an Attack on the State
عربی
و أن بينهم النصر علی من دهم يثرب.
انگلش
The Muslims and the Jews shall be jointly responsible to defend (the State of ) Madina against any outside attack.
اردو
کسی بیرونی حملہ کی صورت میں ریاست مدینہ کا دفاع امداد باہمی کے تحت ان (یہودیوں اور مسلمانوں) کی مشترکہ ذمہ داری ہوگی۔

آرٹیکل نمبر55

ہر فریق کے لئے معاہدئہامن کی پابندی لازمی ہے
Incumbency of Observance of the Treaty of Peace for Every Ally
عربی
و إذا دعوا إلی صلح يصالحونه ويلبسونه فإنهم يصالحونه و يلبسونه‘ و أنهم إذا دعوا إلي مثل ذلک فإنه لهم علي المؤمنين.
انگلش
It shall be incumbent upon the Jews to observe and adhere to any peace treaty they are invited to participate in. Likewise, it shall also be incumbent upon the Muslims to observe and adhere to any peace treaty, they are invited to.
اردو
اور اگر ان (یہودیوں) کو کسی صلح میں مدعو کیا جائے تو وہ بھی صلح کریں گے اور اس میں شریک رہیں گے اور اگر وہ کسی ایسے ہی امر کے لئے بلائیں تو مومنین کا بھی فریضہ ہوگا کہ ان کے ساتھ ایسا ہی کریں۔

آرٹیکل نمبر56

کوئی بھی معاہدہ حفاظت دین کی ذمہ داری کو معطل نہیں کرسکتے
No Treaty shall Suspend or Negate the Responsibility of the Protection of Deen
عربی
 (فإنه لهم علی المؤمنين) إلا من حارب فی الدين.
انگلش
 (Likewise, it shall be incumbent upon the Muslims also to observe and adhere to any peace treaty that they are invited to) , but no treaty will restrain them from fighting for the protection of their Deen.
اردو
 (اسی طرح مسلمانوں پر لازم ہے کہ اگر انہیں کسی امن معاہدہ میں شرکت کی دعوت دی جائے تو وہ اس کی مکمل پابندی کریں) بجز اس کے کہ کوئی دینی جنگ کرے۔

آرٹیکل نمبر57

ہر فریق معاہدہ پر اس کے بالمقابل سمت کی مدافعت کی
ذمہ داری ہوگی
Every Party to Treaty shall be Responsible for the Defence of its Facing Direction
عربی
علی کل أناس حصتهم من جانبهم الذی قبلهم.
انگلش
Every party to the treaty shall be responsible for the measures and arrangements of the defence of its facing direction.
اردو
ہر گروہ کے حصے میں اسی رخ کی (مدافعت ) آئے گی جو اس کے بالمقابل ہو۔

آرٹیکل نمبر58

اس دستور کے بنیادی اراکین اور ان کے حلیف ایک جیسی آئینی حیثیت کے حامل ہوں گے
The Basic Constituent Members of this Document and their Associates shall Possess the Equal Constitutional Status
عربی
و أن يهود الأوس مواليهم و أنفسهم علی مثل ما لأهل هذه الصحيفة مع البر المحض من أهل هذه الصحيفة.
انگلش
The Jews of Aws (one of the basic constituent members of this document) and their allies shall possess the same constitutional status as the other parties to this document, with a condition that they should be thoroughly sincere and honest in their dealing with the parties.
اردو
اور (قبیلہ) اوس کے یہودیوں کو۔ ۔ ۔ موالی ہوں یا اصل۔۔ ۔ وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اس دستور والوں کو حاصل ہیں اور وہ بھی اس دستور والوں کے ساتھ خالص وفا شعاری کا برتاؤ کریں گے۔
آرٹیکل نمبر59
دستور کی مخالفت کی اجازت کسی کو نہیں ہوگی
No Party shall have any Right of Violation of the Constitution
عربی
و أن البردون الإثم لا يکسب کاسب إلا علی نفسه.
انگلش
No party shall have the right to violate the constitution. Every person who is guilty of a crime shall be held responsible for his act alone.
اردو
اور وفا شعاری ہوگی نہ کہ عہد شکنی۔ جو جیسا کرے گا ویسا ہی خود بھرے گا۔

آرٹیکل نمبر60

الوھی حمایت دستور کی پابندی سے مشروط ہوگی
Favour of Almighty Allah will be Subject to the Observance of the Constitution
عربی
و أن اﷲ علی أصدق ما فی هذه الصحيفه و أبره.
انگلش
Verily, God is the Guarantee for the faithful observance of the contents of this Constitution (which shall be enforced by the State) .
اردو
اور خدا اس کے ساتھ ہے جو اس دستور کے مندرجات کی زیادہ سے زیادہ صداقت اور زیادہ سے زیادہ وفا شعاری کے ساتھ تعمیل کرے۔

آرٹیکل نمبر61

کسی ظالم اور باغی کو اس دستور کی حفاظت میسر نہیں ہوگی
No Traitor or Oppressor shall have the Right of Protection under this Document
عربی
و أنه لا يحول هذا الکتاب دون ظالم أو آثم.
انگلش
Verily, this constitutional document shall not protect any traitor or oppressor.
اردو
اور یہ دستوری دستاویز کسی ظالم یا عہد شکن کو تحفظ فراہم نہیں کر ے گی۔

آرٹیکل نمبر62

تمام پر امن شہریوں کے لئے یقینی امن و حفاظت ہوگی
All Peaceful Citizens would be in a Save and Secure Protection
عربی
و أنه من خرج آمن ومن قعد آمن بالمدينة، إلا من ظلم و أثم.
انگلش
Verily, whoever goes out (on a military expedition) shall be provided with security and whoever stays in Madina shall have (likewise) , except those who commit oppression and violate the contents of this Constitution.
اردو
اور جو جنگ کو نکلے وہ بھی امن کا مستحق ہوگا اور جو مدینے میں بیٹھ رہے تو وہ بھی امن کا مستحق ہوگا، سوائے اس کے جو ظلم اور قانونشکنی کا مرتکب ہو۔

آرٹیکل نمبر 63

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر امن اور دستور کے پابند شہریوں کے محافظ اور ضامن ہیں
Allah and His Prophet Muhammad (SAW) are the Protectors of the Peaceful Citizens of Madina who Abide by the Constitution
عربی
و أن اﷲ جارلمن بر واتقی، و محمد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم .
انگلش
Verily, Allah and the Prophet Muhammad (SAW) , the Messenger of God, are the protectors of good citizens and of those who fear from Allah.
اردو
جو اس دستور کے ساتھ وفا شعار رہے اور نیکی و امن پر کاربند رہے، اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے محافظ و نگہبان ہیں۔

0 comments so far,add yours