میری داستان الم تو سن ،کوئی زلزلہ نہیں آئے گا
میرا مدعا نہیں آئے گا،تیرا تذکرہ نہیں آئے گا

کئی گھاٹیوں پر محیط ہے،میری زندگی کی رہگزر
تیری واپسی بھی ہوئی اگر،تجھے راستہ نہیں آئے گا

اگر آئے دشت میں جھیل تو،مجھے احتیاط سے پھینکنا
کہ میں برگ خشک ہوں دوستو ،مجھے تیرنا نہیں آئے گا

اگر آئے دن تری رہ میں،تری کھوج میں،تری چاہ میں
یونہی قافلے جو لٹا کئے ،کوئی قافلہ نہیں آئے گا

کہیں انتہا کی ملامتیں،کہیں پتھروں سے اٹی چھتیں
تیرے شہر میں میرے بعد ،اب کوئی سر پھرا نہیں آئے گا

کوئی انتظار کا فائدہ ،میرے یار بیدل غمزدہ
تجھے چھوڑ کر جو چلا گیا ،نہیں آئے گا،نہیں آئے گا

بیدل حیدری

0 comments so far,add yours