باغ کی بارہ دری میں یہ فسردہ چہرے
جن کی آنکھوں میں ہے پنہاں کسی منظر کی تلاش
کوئی منظر جو اِن آنکھوں میں اتر آئے تو
افسردہ و غمناک نگاہوں میں کھل اٹھے
کوئی خوشبو، کوئی پھول
کسی منظر کی تلاش اِن کو یہاں لائی ہے
لیکن کوئی منظر انھیں ملتا ہی نہیں
آج بھی بارہ دری میں ہر سو
کتنی افسردہ فضا ہے کہ خموش اور ملول
پھیلتی جاتی ہے ہر چہرے پہ اک درد کی دھول
ایک یخ بستہ ہوا ہے کہ بہر سو
غم و اندوہ کی لہریں سی اتر آئی ہیں
چاندنی رات میں خاموش کسک سی ہے
کوئی درد سا ہے
اور تا حد نگاہ
کتنے چہرے ہیں فسردہ چہرے
کتنی آنکھیں ہیں فسردہ آنکھیں
ہر کوئی گھر سے فقط ایک ہی منظر کی طلب میں نکل آیا ہے
مگر بارہ دری
کتنی افسردہ تھی کل، کس قدر افسردہ ہے آج
دور اک قہقہہ سا گونج اٹھا ہے کوئی
مگر اس گونج میں بھی ایک عجب درد سا ہے
اور اِدھر پاس ہی اک شاخ خمیدہ کے تلے
پھیلتے، کانپتے، لرزیدہ، سمٹتے ہوئے دو سائے ہیں جو
سرسراتے ہوئے پتوں کی خنک لہروں میں
شاید اک دوسرے کو
اپنی کہانی کا کوئی باب سنانے کے لیے بیٹھے ہیں
اپنی باتوں کی رسیلی لے پر
اپنے ہاتھوں میں، جدا ہونے کا مضراب اٹھانے کے لیے بیٹھے ہیں
شاید اک دوسرے کو خواب دکھانے کے لیے بیٹھے ہیں
لیکن اے سوختہ جاں، دیکھ کہ یہ بارہ دری
اپنی چپ چاپ فضا میں گم سم
درد کی ایک فقط ایک کہانی لے کر
اتر آئی ہے مری آنکھ کی ویرانی میں
اے مرے سوختہ جاں!
دیکھ کہ یہ بارہ دری
کتنی افسردہ تھی کل، کس قدر افسردہ ہے آج
دور تک پھیلی ہوئی ایک اداسی کے سوا کچھ بھی نہیں
0 comments so far,add yours