بدر کے میدان میں شکست فاش نے مشرکین مکہ کے غرور ونخوت کوخاک میں ملادیا تھا ۔ عرب میں انکی برتری مشکوک ہوگئی ۔ وہ اپنی اہم تجارتی شاہراہ سے بھی محروم ہوگئے،اور مکہ کے سربرآوردہ سردار موت کے گھاٹ اتر گئے۔ اب انکے دلوں میں آتش انتقام بھڑک رہی تھی ۔ابوسفیان نے رات کی تاریکی میں مدینہ طیبہ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی ،یہ حرکت الٹا انکی رسوائی کا سبب بنی اورغزوہ سویق میں اسے اپنا سامان رسد پھینک کر فرار ہونا پڑا ۔غزوہ بدر سے پہلے قریش نے ایک قافلہ تجارت شام کی طرف روانہ کیاتھا، جو واپس مکہ لوٹنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اس کا سارا سامان ابھی تک دارالندوہ میں محفوظ تھااور کسی حصہ دار کو اس کا سرمایہ یا منافع واپس نہیں کیا گیا تھا۔ ایک روز اہل مکہ کا ایک وفد جو عبداللہ ابن ابی ربیعہ ،عکرمہ بن ابی جہل ،حارث بن ہشام ،صفوان بن امیّہ اورچند دیگر ایسے افراد پر مشتمل تھا،جسکے قریبی عزیزو اقارب بدر میں قتل ہوئے تھے، ابوسفیان کے پاس آیا اوراسے کہا ،محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )نے ہماری قوم کو تباہ کردیا ہے، ہمارے چوٹی کے سرداروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ جب تک ہم اپنے مقتولوں کا انتقام نہیں لے لیتے ہمارے دلوں کو قرار اورروحوں کو چین نصیب نہیں ہوسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں ہماری دو درخواستیں ہیں ،پہلی تو یہ کہ تم ہمارے لشکر کی قیادت قبول کرو اوردوسری یہ کہ جنگی اخراجات میں ہماری اعانت کرو اوراسکی آسان صورت یہ ہے کہ تجارتی قافلے کا اصل سرمایہ انکے مالکوں کو واپس کردیا جائے لیکن اسکا منافع تمام لوگ اس جنگ میں صرف کردیں۔ ابوسفیان نے قیادت کی پیش کش قبول کرلی اورکہا سب سے پہلے میں اپنا منافع اس مقصد کیلئے پیش کرتا ہوں اورمیرے ساتھ بنو عبدالمطلب بھی اپنا اپنانفع پیش کرتے ہیں۔حاصل شدہ فنڈ کی مالیت تقریبا پچاس ہزار اشرفی تھی ،جو تمام مشرکین نے بخوشی اس جنگ میں جھونک دیا۔ مالی معاملات سے مطمئن ہونے کے بعد انھوںنے نہ صرف مکہ کے جنگجو لوگوں کو جمع کرنا شروع کیا بلکہ سرکردو افراد کو مختلف قبائل کے پاس بھی بھیجا ۔ اس وفد میں ابوعزہ عمر بن عبداللہ الجمعی نام کا ایک احسان فراموش شخص بھی شامل تھا، جو بدر میں جنگی قیدی بن گیا تھا، اسکی غربت اورعیال داری کی وجہ سے حضور علیہ السلام نے اسے فدیہ لیے بغیر رہا کردیا تھا، لیکن اس نے اپنے نفرت انگیز اشعار اور خطبات سے مسلمانوں کیخلاف ایک آگ بھڑکا دی۔ اس طرح تین ہزار کا لشکر جرار اکٹھا ہوگیا، جس میں سات سو زرہ پوش اوردوسو گھڑ سوار تھے۔ جبیر بن مطعم کا غلا م وحشی چھوٹے نیز ے سے وار کرنے کا ماہر تھا۔ جبیر نے اسے کہا میرے چچا طعیمہ کو حمزہ (رضی اللہ عنہ ) نے قتل کیا ہے اگر تم اسے موت کے گھاٹ اتاردو تو آزاد ہو۔ہند زوجہ ابوسفیان نے بھی نقد انعام کا وعدہ کیا،اُسکے باپ عتبہ کو بھی آپ نے قتل کیا تھا۔۱۵ شعبان ۳ہجری کو یہ لشکر احد کے میدان میں مسلمانوں کے سامنے آیا ۔

0 comments so far,add yours