دل میرود ز دستم صاحب دلان خدا را
دردا کہ راز پنہاں خواہد شد آشکارا
اے دِل والے دوستو! خدا کے لیے توجہ کرو۔ میرا دِل میرے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ مجھے تو اِس بات کو افسوس ہے کہ پوشیدہ راز کھل جائے گا۔ حافظ نے عشق کے راز کو دِل میں چھپا کے رکھا ہوا ہے۔ لیکن اب اضطراب کی کیفیت قدرے بڑھتی جارہی ہے۔ اندیشہ ہے کہ بات ہاتھ سے نکل نہ جائے اور عشق کا راز افشا نہ ہوجائے۔ ا
ے دوستو! کچھ کرو۔
ده روزه مہر گردون افسانہ است و افسون
نیکی بجائے یاران فرصت شمار یار ا
زمانے کی دَس روزہ محبت محض افسانہ ہے۔ ایک طلسم ہے۔ اس مختصر سی زندگی میں اے دوست! دوستوں کے ساتھ نیکی کرنے کو غنیمت شمار کر۔ اکثر شعرا نے زمانے میں انسانی زندگی کو چار روزہ لکھا ہے لیکن حافظ نے دس روزہ میں تحریر کردیا ہے۔ بحر حال مُراد مختصر زندگی ہے۔
کشتی شکستگانیم ای باد شرط برخیز
باشد کہ بازبینیم دیدار آشنا را
ہماری کشتی ٹوٹی ہوئی ہے۔ اے موافق ہوا اُٹھ چل ! شاید ہم اِس آشنا یار کو پھر دیکھ لیں۔
در حلقہ گل و مل خوش خواند دوش بلبل
ہات الصبوح ہبوا یا ایہا السکارا
گزشتہ روز پھول اور شراب کی محفل میں بلبل خوب گارہی تھی۔ اے مستو آؤ اور صبوحی لاؤ۔ یعنی گزشتہ روز شراب کی محفل میں اتنی رونق تھی کہ بلبل بھی وہاں آکر یہی نغمہ الاپ رہی تھی کہ شراب پینے والے دوستو! آجاؤ اور مل کر جام بھرو اور پیو۔
ای صاحب کرامت شکرانہ سلامت
روزی تفقدی کن درویش بےنوا را
اے کرامت والے! سلامتی کے شکرانہ میں کسی دِن اِس بے سہارا درویش جس کی کوئی شنوائی نہیں، پر مہربانی فرما۔ اِس کی دلجوئی کر اور غم خواری کر۔ اِس فقیر بے چارہ کی فریاد سُن کر اِس کی مدد کر۔
آسایشِ دو گیتی تفسیر این دو حرف است
با دوستان تلطّف با دشمنان مدارا
دونوں جہانوں کی آسائش اِن دوحرفوں کی تفسیر ہے کہ دوستوں کے ساتھ لُطف و کرم اور دُشمنوں کے ساتھ مہربانی یعنی اِس جہان کی زندگی میں آسودگی کا لُطف دوستوں کے ساتھ خوش اخلاقی اور دشمنوں کے ساتھ نرمی کرنے میں مضمِر ہے۔
در کوئے نیک نامی ما را گذر ندادند
گر تو نمیپسندی تغییر کن قضا را
نیک نامی کی کوچے میں ہمیں گزرنے کی اجازت نہیں مِلی اور اگر تو اس کو پسند نہیں کرتا تو تقدیر کو بدل دے۔
(اِس شعر کے حوالے سے ایک واقعہ ہے جو صاحبزادہ ظفر الحق چشتی صاحب دامت برکاتہم العالہ نے سنایا تھا۔ اکبر بادشاہ کے بیٹے (غالباً نام جہانگیر ہے) نے شہر کی تمام طوائفوں کو شہر سے نکل جانے کا حکم دیا اور اگر حکم عدولی کی صورت میں سزائے موت کو حکم جاری کیا۔ اُن طوائفوں میں سے ایک طوائف اُس وقت کے فقیر کے دربار میں حاضر ہوئی اور اپنی پریشانی بیان کی۔ فقیر نے حافظ کا یہ شعر ایک کاغذ پر لکھا اور طوائف کے حوالے کی اور کہا کہ یہ کاغذ بادشاہ کو پہنچا دو۔ بادشاہ نے جب یہ شعر پڑھا تو اُس کا دِل بھر آیا اور اُس نے اپنا حکم واپس لے لیا۔)
آئینۂ سکندر جام جم است بنگر
تا بر تو عرضہ دارد احوال ملک دارا
سکندر کا آئینہ جام جمشید ہے ۔ ذرا دیکھ، تاکہ تجھے دارا کے ملک کے حالات کا پتہ چل سکے۔ ایران کے اِن تینوں بادشاہوں کے پاس غیر معمولی قوتیں تھیں۔ جن سے مافوق العادت احوال کا پتہ چل جاتا تھا۔ سکندر کے پاس ایک آئینہ تھا جس سے وہ زمانے کے احوال دیکھتا تھا۔ جمشید کے پاس شراب کا پیالہ تھا جس سے وہ دنیا کے مختلف حصوں میں آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا تھا اور دارا کے پاس قوّت تھی۔ جس سے دنیا دہلتی تھی۔
سرکش مشو کہ چون شمع از غیرتت بسوزد
دلبر کہ در کف او موم است سنگ خارا
تو سرکشی مت کر، ایسا نہ ہوکہ شمع کی طرح تو غیرت میں آکر جلادے۔ اُس معشوق کو جس کے ہاتھ میں سخت پتھر بھی موم بن جاتا ہے۔
گر مطرب حریفان، این پارسی بخواند
در رقص حالت آرد، پیران پارسا را
اگر دوستوں کا کوئی بھی گلوکار یہ فارسی غزل گائے تو وہ نیک پارسا بزرگوں کو بھی حالت رقص میں لے آئے گا۔ یعنی اُس گلوکار سے یہ غزل سن کر بڑے بڑے بزرگ بھی ناچنے لگیں گے۔
آن تلخوش کہ صوفی ام الخبائثش خواند
اشہی لنا و احلے من قبلۃ العذارا
وہ کڑوی شراب جس کو صوفی لوگوں نے ام الخبائث یعنی برائیوں کی ماں قرار دیا۔ وہ ہمارے لیے کنواری لڑکیوں کے بوسے سے زیادہ مرغوب اور شیریں ہے۔ جس شراب کو صوفی حضرات بُرا کہتے ہیں۔ وہ ہمارے نزدیک نہایت میٹھی اور دل پسند ہے۔
ہنگام تنگدستی در عیش کوش و مستی
کاین کیمیای ہستی قارون کند گدا را
تنگدستی کے وقت عیش و عشرت کے لیے کوشش کر اور بے خودی پیدا کر۔ کیونکہ زندگی کی یہ اکسیر فقیر کو بھی قارون بنا دیتی ہے۔ انسان کو بدحالی میں مایوس ہو کر بیٹھ نہیں جانا چاہیے بلکہ اچھے حالات کے لیے مسلسل کوشاں رہنا چاہیے۔ مسلسل محنت ایک مفلس کو بھی توانگر بنا دیتی ہے۔
خوبان پارسی گو بخشندگان عمرند
ساقی بده بشارت پیرانِ پارسا را
فارسی بولنے والے معشوق عمریں بخشنے والے ہیں۔ اے ساقی تو نیک بزرگ لوگوں کو یہ خوشخبری سنا دے۔ حافظ کے خیال میں ایران کے معشوق اتنے خوبصورت ہیں کہ جو اِن کو دیکھتا ہے خوشی سے اس کی عمر میں درازی ہوجاتی ہے۔
حافظؔ بخود نپوشید این خرقۂ مے آلود
ای شیخ پاکدامن معذور دار ما را
حافظ نے یہ شراب آلود خرقہ (گدڑی) اپنے آپ نہیں پہنا۔ اے نیک پرہیز گار نیک دامن شیخ ! تو ہمیں پس معذور ہی سمجھ لے یعنی شراب پینا حافظ کی مجبوری ہے اور اِس مجبوری کے تحت شراب خوری ہورہی ہے۔ یہ مجبوری ہی اِس کی مجبوری ہے
کلام: حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ
دردا کہ راز پنہاں خواہد شد آشکارا
اے دِل والے دوستو! خدا کے لیے توجہ کرو۔ میرا دِل میرے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ مجھے تو اِس بات کو افسوس ہے کہ پوشیدہ راز کھل جائے گا۔ حافظ نے عشق کے راز کو دِل میں چھپا کے رکھا ہوا ہے۔ لیکن اب اضطراب کی کیفیت قدرے بڑھتی جارہی ہے۔ اندیشہ ہے کہ بات ہاتھ سے نکل نہ جائے اور عشق کا راز افشا نہ ہوجائے۔ ا
ے دوستو! کچھ کرو۔
ده روزه مہر گردون افسانہ است و افسون
نیکی بجائے یاران فرصت شمار یار ا
زمانے کی دَس روزہ محبت محض افسانہ ہے۔ ایک طلسم ہے۔ اس مختصر سی زندگی میں اے دوست! دوستوں کے ساتھ نیکی کرنے کو غنیمت شمار کر۔ اکثر شعرا نے زمانے میں انسانی زندگی کو چار روزہ لکھا ہے لیکن حافظ نے دس روزہ میں تحریر کردیا ہے۔ بحر حال مُراد مختصر زندگی ہے۔
کشتی شکستگانیم ای باد شرط برخیز
باشد کہ بازبینیم دیدار آشنا را
ہماری کشتی ٹوٹی ہوئی ہے۔ اے موافق ہوا اُٹھ چل ! شاید ہم اِس آشنا یار کو پھر دیکھ لیں۔
در حلقہ گل و مل خوش خواند دوش بلبل
ہات الصبوح ہبوا یا ایہا السکارا
گزشتہ روز پھول اور شراب کی محفل میں بلبل خوب گارہی تھی۔ اے مستو آؤ اور صبوحی لاؤ۔ یعنی گزشتہ روز شراب کی محفل میں اتنی رونق تھی کہ بلبل بھی وہاں آکر یہی نغمہ الاپ رہی تھی کہ شراب پینے والے دوستو! آجاؤ اور مل کر جام بھرو اور پیو۔
ای صاحب کرامت شکرانہ سلامت
روزی تفقدی کن درویش بےنوا را
اے کرامت والے! سلامتی کے شکرانہ میں کسی دِن اِس بے سہارا درویش جس کی کوئی شنوائی نہیں، پر مہربانی فرما۔ اِس کی دلجوئی کر اور غم خواری کر۔ اِس فقیر بے چارہ کی فریاد سُن کر اِس کی مدد کر۔
آسایشِ دو گیتی تفسیر این دو حرف است
با دوستان تلطّف با دشمنان مدارا
دونوں جہانوں کی آسائش اِن دوحرفوں کی تفسیر ہے کہ دوستوں کے ساتھ لُطف و کرم اور دُشمنوں کے ساتھ مہربانی یعنی اِس جہان کی زندگی میں آسودگی کا لُطف دوستوں کے ساتھ خوش اخلاقی اور دشمنوں کے ساتھ نرمی کرنے میں مضمِر ہے۔
در کوئے نیک نامی ما را گذر ندادند
گر تو نمیپسندی تغییر کن قضا را
نیک نامی کی کوچے میں ہمیں گزرنے کی اجازت نہیں مِلی اور اگر تو اس کو پسند نہیں کرتا تو تقدیر کو بدل دے۔
(اِس شعر کے حوالے سے ایک واقعہ ہے جو صاحبزادہ ظفر الحق چشتی صاحب دامت برکاتہم العالہ نے سنایا تھا۔ اکبر بادشاہ کے بیٹے (غالباً نام جہانگیر ہے) نے شہر کی تمام طوائفوں کو شہر سے نکل جانے کا حکم دیا اور اگر حکم عدولی کی صورت میں سزائے موت کو حکم جاری کیا۔ اُن طوائفوں میں سے ایک طوائف اُس وقت کے فقیر کے دربار میں حاضر ہوئی اور اپنی پریشانی بیان کی۔ فقیر نے حافظ کا یہ شعر ایک کاغذ پر لکھا اور طوائف کے حوالے کی اور کہا کہ یہ کاغذ بادشاہ کو پہنچا دو۔ بادشاہ نے جب یہ شعر پڑھا تو اُس کا دِل بھر آیا اور اُس نے اپنا حکم واپس لے لیا۔)
آئینۂ سکندر جام جم است بنگر
تا بر تو عرضہ دارد احوال ملک دارا
سکندر کا آئینہ جام جمشید ہے ۔ ذرا دیکھ، تاکہ تجھے دارا کے ملک کے حالات کا پتہ چل سکے۔ ایران کے اِن تینوں بادشاہوں کے پاس غیر معمولی قوتیں تھیں۔ جن سے مافوق العادت احوال کا پتہ چل جاتا تھا۔ سکندر کے پاس ایک آئینہ تھا جس سے وہ زمانے کے احوال دیکھتا تھا۔ جمشید کے پاس شراب کا پیالہ تھا جس سے وہ دنیا کے مختلف حصوں میں آنے والے واقعات کو دیکھ لیتا تھا اور دارا کے پاس قوّت تھی۔ جس سے دنیا دہلتی تھی۔
سرکش مشو کہ چون شمع از غیرتت بسوزد
دلبر کہ در کف او موم است سنگ خارا
تو سرکشی مت کر، ایسا نہ ہوکہ شمع کی طرح تو غیرت میں آکر جلادے۔ اُس معشوق کو جس کے ہاتھ میں سخت پتھر بھی موم بن جاتا ہے۔
گر مطرب حریفان، این پارسی بخواند
در رقص حالت آرد، پیران پارسا را
اگر دوستوں کا کوئی بھی گلوکار یہ فارسی غزل گائے تو وہ نیک پارسا بزرگوں کو بھی حالت رقص میں لے آئے گا۔ یعنی اُس گلوکار سے یہ غزل سن کر بڑے بڑے بزرگ بھی ناچنے لگیں گے۔
آن تلخوش کہ صوفی ام الخبائثش خواند
اشہی لنا و احلے من قبلۃ العذارا
وہ کڑوی شراب جس کو صوفی لوگوں نے ام الخبائث یعنی برائیوں کی ماں قرار دیا۔ وہ ہمارے لیے کنواری لڑکیوں کے بوسے سے زیادہ مرغوب اور شیریں ہے۔ جس شراب کو صوفی حضرات بُرا کہتے ہیں۔ وہ ہمارے نزدیک نہایت میٹھی اور دل پسند ہے۔
ہنگام تنگدستی در عیش کوش و مستی
کاین کیمیای ہستی قارون کند گدا را
تنگدستی کے وقت عیش و عشرت کے لیے کوشش کر اور بے خودی پیدا کر۔ کیونکہ زندگی کی یہ اکسیر فقیر کو بھی قارون بنا دیتی ہے۔ انسان کو بدحالی میں مایوس ہو کر بیٹھ نہیں جانا چاہیے بلکہ اچھے حالات کے لیے مسلسل کوشاں رہنا چاہیے۔ مسلسل محنت ایک مفلس کو بھی توانگر بنا دیتی ہے۔
خوبان پارسی گو بخشندگان عمرند
ساقی بده بشارت پیرانِ پارسا را
فارسی بولنے والے معشوق عمریں بخشنے والے ہیں۔ اے ساقی تو نیک بزرگ لوگوں کو یہ خوشخبری سنا دے۔ حافظ کے خیال میں ایران کے معشوق اتنے خوبصورت ہیں کہ جو اِن کو دیکھتا ہے خوشی سے اس کی عمر میں درازی ہوجاتی ہے۔
حافظؔ بخود نپوشید این خرقۂ مے آلود
ای شیخ پاکدامن معذور دار ما را
حافظ نے یہ شراب آلود خرقہ (گدڑی) اپنے آپ نہیں پہنا۔ اے نیک پرہیز گار نیک دامن شیخ ! تو ہمیں پس معذور ہی سمجھ لے یعنی شراب پینا حافظ کی مجبوری ہے اور اِس مجبوری کے تحت شراب خوری ہورہی ہے۔ یہ مجبوری ہی اِس کی مجبوری ہے
کلام: حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ
0 comments so far,add yours