گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھایہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھاگلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوانےہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھامنزل کو نہ پہچانے رہِ عشق کا راہیناداں ہی سہی، ایسا بھی سادہ تو نہیں تھاتھک کر یونہی پل بھر کےلئے آنکھ لگی تھیسو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو نہیں تھاواعظ سے رہ و رسم رہی رند سے صحبتفرق ان میں کوئی اتنا زیادہ تو نہیں تھالاہور۔ فروری 83ء
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments so far,add yours