- اقبال کے کلام میں مرد مومن کی صفات اور خصوصیات کو کافی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے اور ان صفات کا بار بار تذکر ہ اس صورت سے کیا گیا ہے۔ کہ اس کی شخصیت اور کردار کے تمام پہلو پوری وضاحت سے سامنے آجاتے ہیں ۔ یہ مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے اور تربیت اور استحکامِ خودی کے تینوں مراحل ضبط نفس، اطاعت الہٰی،اور نیابت الہٰی طے کرنے کے بعد اشرف المخلوقات اور خلیفتہ اللہ فی الارض ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ اس کے کردار اور شخصیت کی اہم خصوصیات کلام اقبال کی روشنی میں مندرجہ ذیل ہیں۔
- تجدید حیات
جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی
مری کلام پہ حجت ہے نکتہ لولاک
مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر
گویا کافرکا کمال صرف مادہ کی تسخیر ہے لیکن مردمومن مادی تسخیر کو اپنا مقصود قرار نہیں دیتا بلکہ اپنے باطن سے نئے جہانو ں کی تخلیق بھی کرتا ہے۔ وہ زمان و مکان کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے ۔ عرفانِ خودی کے باعث اسے وہ قوت حاصل ہو جاتی ہے جس سے حیات و کائنات کے اسرار و رموز اس پر منکشف ہوتے ہیں اور اس کی ذات جدت و انکشاف اور ایجاد و تسخیر کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ وہ اپنے عمل سے تجدید حیات کرتاہے۔ اس کی تخلیق دوسروں کے لئے شمع ہدایت بنتی ہے۔
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی رو میں ہے ساری خدائی
بقول ڈاکٹر یوسف حسین خان، ” اپنے نفس میں فطرت کی تمام قوتوں کو مرتکز کرنے سے مرد مومن میں تسخیر عناصر کی غیر معمولی صلاحیتیں پیداہو جاتی ہیں جن کے باعث وہ اپنے آپ کو نےابت الہٰی کا اہل ثابت کرتا ہے اور اس کی نظر افراد کے افکار میں زلزلہ ڈال دیتی ہے۔ اور اقوام کی تقدیر میں انقلاب پیدا کر دیتی ہے۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازوکا
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہےں تقدیریں
- عشق
وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار
یہی جذبہ عشق ہے جو مسلمان کو کافر سے جد ا کرتا ہے
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق
سید وقار عظیم اپنی کتاب ”اقبال شاعر اور فلسفی“ میں اس بارے میں لکھتے ہیں، " اقبال نے اس اندرونی کیفیت ، اسی ولولہ انگیز محرک اور زبردست فعالی قوت کو عشق کا نام دیا ہے۔ اور اسے خودی کے سفر میں یا انسانی زندگی کے ارتقاءمیں سب سے بڑا رہنما قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرد مومن کی عملی زندگی میں اس جذبہ محرک کو سب سے زیادہ جگہ دی گئی ہے۔"
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام
- جہد و عمل
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
یقین ِ محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
- جمال و جلال
اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دل نواز
نرم دم گفتگو ، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو ، پاک دل پاک باز
وہ رزم گاہ ِ حیات میں شمشیر بے نیام ہوتا ہے تو شبستان محبت میں کوئی دوسرا اس سے زیادہ نرم نہیں ہو سکتا۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں و ہ طوفان
- حق گوئی و بیباکی
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
- فقر و استغنا
نہیں فقر و سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا
یہ سپہ کی تیغ بازی ، وہ نگہ کی تیغ بازی
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روح قرآنی
مٹا یاقیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیاتھا؟ زور حیدر ، فقر بوذر ، صدق سلمانی
فقر ارتقائے خودی سے حاصل ہوتا ہے۔ انسان کامل کے فقر اور فقر کافر(رہبانیت) میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ رہبانیت جنگل میں پناہ ڈھونڈتی ہے۔ فقر کائنات کی تسخیر کرتا ہے اور اس کے لئے اپنی خودی کو فروغ دیتا ہے۔ فقر کا کام رہبانیت کے گوشہ عافیت میں پناہ لینا نہیں بلکہ فطرت کے اسراف اور معاشرت کے شر اور ناانصافی کا مقابلہ کرنا ہے خواہ اس میں سخت سے سخت اندیشہ کیوں نہ ہو۔
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
ان بڑی بڑی اور اہم صفات کے علاوہ اقبال کے مرد مومن میں عدل ، حیا ، خوفِ خدا، قلب سلیم ، قوت ، صدق ، قدوسی ، جبروت ، بلند پروازی ، پاک ضمیری ، نیکی ، پاکبازی وغیر ہ شامل ہیں۔
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایہ جبریل امیں بندہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ سمر قند
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن!
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان ، قیامت میں بھی میزان
اور ان تمام صفات کا حامل انسان وہ ہے جو حاصل کائنات اور مقصود کائنات ہے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)

0 comments so far,add yours