شکر کی عادت
حضرت حسن ابن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما روایت فرماتے ہیں ،حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس ایک سائل نے گزارش کی۔(اس وقت آپ کے پاس
چند کجھوریں ہی موجود تھیں)آپ نے ایک کجھور اسے عنایت فرمادی اس (کم فہم
)شخص نے کہا ،سبحان اللہ ! نبیوں میں سے اتنے بڑے نبی اور وہ محض ایک کجھور
صدقہ دے رہے ہیں۔آپ نے فرمایا ،کیا تم نہیں جانتے کہ اس ایک کجھور میں
بہت سارے ذرّے (اور ریشے )ہیں۔کچھ دیر کے بعد ایک اورسائل آگیا، حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی ایک کجھور عنایت فرمادی ۔اس نے (بڑی خوش
دلی سے یہ کجھور وصول کی اور) کہا ، یہ کجھور مجھے (اللہ کے)نبیوں میں
ایک(عظیم المرتبت)نبی سے ملی ہے۔میں جب تک زندہ رہوں گا۔اس کجھور کو سنبھال
کررکھوں گااور مجھے یقین ہے کہ میں ہمیشہ اس کی برکتوں سے بہرہ مند ہوتا
رہوں گا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو اس کے ساتھ بھلائی
کاحکم دیا۔کچھ ہی عرصہ کے بعد وہ شخص بڑا آسودہ حال ہوگیا ۔ ( کنز ا لعما ل
)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،ایک سائل حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں آیا ،آپ کے حکم فرمانے پر اسے ایک کجھور دے دی گئی،لیکن اس نے (ناگواری سے )وہ کجھور پھینک دی اورچلاگیا۔ پھر ایک اورسائل آگیا،آپ نے فرمایا :اسے بھی ایک کجھور دے دو،اس نے کہا :سبحان اللہ ! محبوب رب العالمین کی طرف سے ایک کجھور کا مل جانا تو بہت بڑی نعمت ہے۔(اس کی اس عادت تشکرکو دیکھ کر حضور بڑے خوش ہوئے اور)آپ نے اپنی خادمہ سے کہا کہ امِ سلمہ (رضی اللہ عنہا )کے پاس جائو اوران سے کہو کہ ان کے پاس جو چالیس درہم ہیں وہ اس سائل کو دے دیں۔(بیہقی)
حضرت سلیمان بن یسار علیہ الرحمۃ کہتے ہیں ،امیر المومنین حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ (مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان واقع)صجنان کے مقام سے گزرے توبے ساختہ رونے لگے،لوگوںنے وجہ دریافت کی(توازرہِ تشکر ) فرمانے لگے،یہ وہ جگہ ہے جہاں میںاپنے عنفوان شباب میں(اپنے والد)خطاب کے جانور چرایا کرتا تھا،وہ بڑے سخت مزاج اوردرشت گو تھے(اورمجھے جانور درست طریقے سے نہ چرانے پر سزا دیاکرتے تھے )اوراب دیکھو کہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت کا والی بن گیا ہوں۔پھر یہ شعر پڑھا،
لاشیء فیما تری الا بشاشتہ ۔۔۔ یبقی الالہ ویودی المال والولد
(بے شک )’’جو کچھ تم دیکھ رہے ہو اس میں عارضی بشاشت کے سوا کچھ نہیں ، اللہ کی ذات باقی رہنے والی ہے ،باقی تمام مال اوراولاد فانی ہے۔(ابن سعد)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،ایک سائل حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں آیا ،آپ کے حکم فرمانے پر اسے ایک کجھور دے دی گئی،لیکن اس نے (ناگواری سے )وہ کجھور پھینک دی اورچلاگیا۔ پھر ایک اورسائل آگیا،آپ نے فرمایا :اسے بھی ایک کجھور دے دو،اس نے کہا :سبحان اللہ ! محبوب رب العالمین کی طرف سے ایک کجھور کا مل جانا تو بہت بڑی نعمت ہے۔(اس کی اس عادت تشکرکو دیکھ کر حضور بڑے خوش ہوئے اور)آپ نے اپنی خادمہ سے کہا کہ امِ سلمہ (رضی اللہ عنہا )کے پاس جائو اوران سے کہو کہ ان کے پاس جو چالیس درہم ہیں وہ اس سائل کو دے دیں۔(بیہقی)
حضرت سلیمان بن یسار علیہ الرحمۃ کہتے ہیں ،امیر المومنین حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ (مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان واقع)صجنان کے مقام سے گزرے توبے ساختہ رونے لگے،لوگوںنے وجہ دریافت کی(توازرہِ تشکر ) فرمانے لگے،یہ وہ جگہ ہے جہاں میںاپنے عنفوان شباب میں(اپنے والد)خطاب کے جانور چرایا کرتا تھا،وہ بڑے سخت مزاج اوردرشت گو تھے(اورمجھے جانور درست طریقے سے نہ چرانے پر سزا دیاکرتے تھے )اوراب دیکھو کہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت کا والی بن گیا ہوں۔پھر یہ شعر پڑھا،
لاشیء فیما تری الا بشاشتہ ۔۔۔ یبقی الالہ ویودی المال والولد
(بے شک )’’جو کچھ تم دیکھ رہے ہو اس میں عارضی بشاشت کے سوا کچھ نہیں ، اللہ کی ذات باقی رہنے والی ہے ،باقی تمام مال اوراولاد فانی ہے۔(ابن سعد)
صحابہ اور شکر
محمد بن قرظی کہتے ہیں،امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ
الکریم نے ارشادفرمایا،ایسا ممکن نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کسی شخص کے
لیے شکر (کی توفیق )کادروازہ توکھول دے اوراپنی طرف سے اضافہ نعمت کا
دروازہ بندکردے اور (یہ بھی ممکن نہیں)کہ کسی فرد کے لیے دعاءکا دروازہ
توکشادہ کردے اورقبولیت(دعائ)کادروازہ بندکردے اوراس طرح بھی نہیں ہوتا کہ
توبہ کا باب کرم توکھول دے اورمغفرت کا دروازہ مقفل کردے میں تمہیں اللہ
تبارک وتعالیٰ کی کتاب قرآن سے دلیل دیتا ہوں۔اللہ رب العز ت
ارشادفرماتاہے۔
”مجھے پکارو میں تمہاری درخواست قبول کروں گا“۔(المومن :۶۰)
”اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اورزیادہ دوںگا“۔(البقرة :۱۵۲)
”ان (نعمتوں پر )میرا تذکرہ کرومیں تم کو (عنایت سے)یادکروںگا“۔(البقرة:۱۵۲)
٭اورجوشخص کو ئی برائی کر بیٹھے یا اپنی جان کاضرر کرلے پھر اللہ سے معافی کا طلب گار ہوتو وہ اللہ کو (بڑا )غفور (و)رحیم پائے گا۔(النساء:۱۱۰)(ابن ماجہ)
٭حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں۔عطائے نعمت پر فورااللہ رب العزت کا شکر اداکرنا چاہیے،کیونکہ شکر اداکرنے سے نعمت میں اوراضافہ ہوتاہے۔ادائیگی شکر اوراضافہ نعمت ایک ہی ڈور ی سے بند ھے ہوئے ہیں۔جب بندہ شکر اداکرنا چھوڑے گاتب ہی اللہ کریم کی طرف سے نعمت کا بڑھنا بندہوگا۔(بیہقی)
٭امیرالمومنین حضرت عمر ابن خطاب نے ارشادفرمایا ،اگرمیرے پاس دو سواریاں لائی جائیں ایک صبر کی اوردوسری شکر کی،تومجھے پرواہ نہیں کہ میں کس پر سوار ہوا۔(ابن عساکر)
٭حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں،میں صبح وشام اس حال میں کروںکہ لوگ مجھے کسی مصیبت میں مبتلا نہ دیکھیں تو میں اس مصیبت سے محفوظ رہنے کو اپنے اوپر اپنے پروردگار کی طرف سے بہت بڑی نعمت سمجھتا ہوں۔(ابن عساکر)
٭حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ رب العزت کی نعمت صرف کھانا اور پینا ہی ہے تو وہ بڑا کم فہم ہے اوراس کا عذاب نزدیک آچکا ہے۔(ابونعیم )یعنی زندگی اوراس کے تمام اسباب ووسائل کو اللہ کی نعمت سمجھنا چاہیے ۔
٭ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشادفرماتی ہیں،کوئی بندہ (محض)خالص پانی پیئے اوروہ پانی بغیر کسی تکلیف کے معدے میںچلاجائے اورپھر بغیرکسی اذّیت کے مثانے سے باہر آجائے تواس پر شکر اداکرنا واجب ہوگیا۔(ابن عساکر )
”مجھے پکارو میں تمہاری درخواست قبول کروں گا“۔(المومن :۶۰)
”اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اورزیادہ دوںگا“۔(البقرة :۱۵۲)
”ان (نعمتوں پر )میرا تذکرہ کرومیں تم کو (عنایت سے)یادکروںگا“۔(البقرة:۱۵۲)
٭اورجوشخص کو ئی برائی کر بیٹھے یا اپنی جان کاضرر کرلے پھر اللہ سے معافی کا طلب گار ہوتو وہ اللہ کو (بڑا )غفور (و)رحیم پائے گا۔(النساء:۱۱۰)(ابن ماجہ)
٭حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں۔عطائے نعمت پر فورااللہ رب العزت کا شکر اداکرنا چاہیے،کیونکہ شکر اداکرنے سے نعمت میں اوراضافہ ہوتاہے۔ادائیگی شکر اوراضافہ نعمت ایک ہی ڈور ی سے بند ھے ہوئے ہیں۔جب بندہ شکر اداکرنا چھوڑے گاتب ہی اللہ کریم کی طرف سے نعمت کا بڑھنا بندہوگا۔(بیہقی)
٭امیرالمومنین حضرت عمر ابن خطاب نے ارشادفرمایا ،اگرمیرے پاس دو سواریاں لائی جائیں ایک صبر کی اوردوسری شکر کی،تومجھے پرواہ نہیں کہ میں کس پر سوار ہوا۔(ابن عساکر)
٭حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں،میں صبح وشام اس حال میں کروںکہ لوگ مجھے کسی مصیبت میں مبتلا نہ دیکھیں تو میں اس مصیبت سے محفوظ رہنے کو اپنے اوپر اپنے پروردگار کی طرف سے بہت بڑی نعمت سمجھتا ہوں۔(ابن عساکر)
٭حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ رب العزت کی نعمت صرف کھانا اور پینا ہی ہے تو وہ بڑا کم فہم ہے اوراس کا عذاب نزدیک آچکا ہے۔(ابونعیم )یعنی زندگی اوراس کے تمام اسباب ووسائل کو اللہ کی نعمت سمجھنا چاہیے ۔
٭ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشادفرماتی ہیں،کوئی بندہ (محض)خالص پانی پیئے اوروہ پانی بغیر کسی تکلیف کے معدے میںچلاجائے اورپھر بغیرکسی اذّیت کے مثانے سے باہر آجائے تواس پر شکر اداکرنا واجب ہوگیا۔(ابن عساکر )
0 comments so far,add yours