حضرت سیدنا ضحک بن مزاحم رحمت الله عليه سے روایت ہے کۂ ایک رات میں
کوفۂ کی مسجد کی طرف چلا جب میں مسجد کے قریب پھنچا تو ایک نوجوان کو سجدے
میں گرے ہوے پایا وہ گریۂ وزاری میں مشغول تھا میں سمجھ گیا کۂ یۂ الله
عزوجل
كے ولیوں میں سےکوی ولی ہے تو میں اس نو جوان کے قریب گیا تاکۂ سن سکوں وھ کیا کھ رھا ہے تو میں نے اسے یۂ پڑھتے ہوے پایا
ترجمۂ
اے الله عزوجل ميرا بهروسا اعتماد تجھ ھی پر ھے خوشخبری ہے اس کے لیے جس کا تو مددگارہے
خوشخبری ہے اس کے لیے جو خوف خدا عزوجل میں رات گذارتا ہے اپنی مصیبتون کی فریاد اسی رب ذولجلال کی بارگاہ میں کرتا ہے
اسےکوی بیماری یا تکلیف اپنے مولا عزوجل کی محبت سے بڑھ کرنہيں ہے
جب رات کے اندھیرےمیں تنھا عاجزی کرتا ہے تو الله تعالي اس كي دعا سنتا اور قبول فرماتا ہے
اور جسے الله عزوجل کی طرف سے یۂ سعادت ملی وھ ایسا قرب پانے میں کامیاب ھوگیا جس سے اس کی آنکھین ٹھنڈی ھونگی
حضرت سیدنا ضحاک بن مزاھم رحمت الله عليه فرماتے ہیں کۂ وھ مسلسل ان اشعار کی تکرار کر رھا تھا اور روےؔ جا رھا تھا اس کی گر یۂ زاری پر ترس کھا کرمیں بھی رونے لگا اسی اثناء میں میرے سامنے نظرین اچک لینے والی کڑک دار بجلی جیسی روشنی
چمکی تو میں نے فورا اپنے ھاتھ اپنی آنکھون پر رکھ لیے پھر میں نے اپنے سر پر ایک منادی کو ندا دیتےہوے سنا جو انسانوں کے کلام کے مشابۂ نۂ تھی وھ ندا یۂ تھی
ترجمۂ
اے میرے بندے میں موجود ہوں اور تو میری حفظ و امان میں ہے اور تو نے جو بھی دعا کی ھم نے اسے قبول فرما لیا ہے
میرے ملائکہ تیری آواز سننے کا اشتياق رکھتے ہیں اور تجھے یۂ صدا کافی ہےجسے
ھم نے سن لیا اگر اس صدا کے گرداگرد ھوا چل پڑے تو اس میں پچھاڑنے والے کی طرح آواز پیدا ھو جاے کیونکۂ تو نے اس صدا میں ایسی ھی کیفیت کو پوشیدھ کر رکھا ہے
میرا یۂ بندھ میرے قرب کے پردون میں رھتا ہے اور آج ھم نے تیرا گناھ معاف فرما دیا
حضرت سیدنا ضحاک بن مزاھم رحمت الله عليه فرماتے ہیں یۂ سن کر میں نے کھا
رب کعبۂ کی قسم یۂ تو حبیب کی اپنے حبیب سے مناجات ہے
پھر میں اس کی ھیبت سے غش کھا کر منۂ کے بل گر پڑا جب مجھےافاقۂ ھوا تو میں فضا میں فرشتون کی آواز سن رھا تھا اور زمین و آسمان کے درمیان ان کے پرون کی پھڑپھڑاھٹ سناہی دے رہی تھی میں سمجھا کۂ شاید آسمان زمین کے قریب ھو گیا ہے اور میں نے ایسا نور دیکھا جو چاند کی روشنی پر غالب آچکا تھا حالانکۂ وھ تیز روشنی والی ایک چاندنی رات تھی پھر میں اس نوجوان کے قریب ھوا اور اسے سلام
رحمت فرماے تم کون ھو اس نے جواب دیا میں راشد بن سلیمان علیھ رحمت الله المنان ہوں
تو میں نے انھین پھچان لیا کیونکۂ مین ان کے بارے مین سن چکا تھا پھر میں نے ان سے کھا الله عزوجل آپ پر رحم فرماے کیا آپ مجھے اپنی صحبت میں رہنے کی اجازت دینگے تاکۂ مین آپ سے انس حاصل کر سکون تو انہوں نے کہا
ہاے افسوس ہاے افسوس جو اپنے رب عزوجل کی مناجات کی لذت پاچکا ھے کیا وھ مخلوق سے انس حاصل کر سکے گا ؟ پھر وھ مجھے تنھا چھوڑ کر چلے گے
كے ولیوں میں سےکوی ولی ہے تو میں اس نو جوان کے قریب گیا تاکۂ سن سکوں وھ کیا کھ رھا ہے تو میں نے اسے یۂ پڑھتے ہوے پایا
ترجمۂ
اے الله عزوجل ميرا بهروسا اعتماد تجھ ھی پر ھے خوشخبری ہے اس کے لیے جس کا تو مددگارہے
خوشخبری ہے اس کے لیے جو خوف خدا عزوجل میں رات گذارتا ہے اپنی مصیبتون کی فریاد اسی رب ذولجلال کی بارگاہ میں کرتا ہے
اسےکوی بیماری یا تکلیف اپنے مولا عزوجل کی محبت سے بڑھ کرنہيں ہے
جب رات کے اندھیرےمیں تنھا عاجزی کرتا ہے تو الله تعالي اس كي دعا سنتا اور قبول فرماتا ہے
اور جسے الله عزوجل کی طرف سے یۂ سعادت ملی وھ ایسا قرب پانے میں کامیاب ھوگیا جس سے اس کی آنکھین ٹھنڈی ھونگی
حضرت سیدنا ضحاک بن مزاھم رحمت الله عليه فرماتے ہیں کۂ وھ مسلسل ان اشعار کی تکرار کر رھا تھا اور روےؔ جا رھا تھا اس کی گر یۂ زاری پر ترس کھا کرمیں بھی رونے لگا اسی اثناء میں میرے سامنے نظرین اچک لینے والی کڑک دار بجلی جیسی روشنی
چمکی تو میں نے فورا اپنے ھاتھ اپنی آنکھون پر رکھ لیے پھر میں نے اپنے سر پر ایک منادی کو ندا دیتےہوے سنا جو انسانوں کے کلام کے مشابۂ نۂ تھی وھ ندا یۂ تھی
ترجمۂ
اے میرے بندے میں موجود ہوں اور تو میری حفظ و امان میں ہے اور تو نے جو بھی دعا کی ھم نے اسے قبول فرما لیا ہے
میرے ملائکہ تیری آواز سننے کا اشتياق رکھتے ہیں اور تجھے یۂ صدا کافی ہےجسے
ھم نے سن لیا اگر اس صدا کے گرداگرد ھوا چل پڑے تو اس میں پچھاڑنے والے کی طرح آواز پیدا ھو جاے کیونکۂ تو نے اس صدا میں ایسی ھی کیفیت کو پوشیدھ کر رکھا ہے
میرا یۂ بندھ میرے قرب کے پردون میں رھتا ہے اور آج ھم نے تیرا گناھ معاف فرما دیا
حضرت سیدنا ضحاک بن مزاھم رحمت الله عليه فرماتے ہیں یۂ سن کر میں نے کھا
رب کعبۂ کی قسم یۂ تو حبیب کی اپنے حبیب سے مناجات ہے
پھر میں اس کی ھیبت سے غش کھا کر منۂ کے بل گر پڑا جب مجھےافاقۂ ھوا تو میں فضا میں فرشتون کی آواز سن رھا تھا اور زمین و آسمان کے درمیان ان کے پرون کی پھڑپھڑاھٹ سناہی دے رہی تھی میں سمجھا کۂ شاید آسمان زمین کے قریب ھو گیا ہے اور میں نے ایسا نور دیکھا جو چاند کی روشنی پر غالب آچکا تھا حالانکۂ وھ تیز روشنی والی ایک چاندنی رات تھی پھر میں اس نوجوان کے قریب ھوا اور اسے سلام
رحمت فرماے تم کون ھو اس نے جواب دیا میں راشد بن سلیمان علیھ رحمت الله المنان ہوں
تو میں نے انھین پھچان لیا کیونکۂ مین ان کے بارے مین سن چکا تھا پھر میں نے ان سے کھا الله عزوجل آپ پر رحم فرماے کیا آپ مجھے اپنی صحبت میں رہنے کی اجازت دینگے تاکۂ مین آپ سے انس حاصل کر سکون تو انہوں نے کہا
ہاے افسوس ہاے افسوس جو اپنے رب عزوجل کی مناجات کی لذت پاچکا ھے کیا وھ مخلوق سے انس حاصل کر سکے گا ؟ پھر وھ مجھے تنھا چھوڑ کر چلے گے
امام علامہ محدث مفسر، ابوالفرج عبدالرحمٰن بن علی الجوزی التیمی البغدادیؒ کتاب آنسوؤں کا دریا
0 comments so far,add yours