خود کو محفوظ بنانے کی خواہش ۔ ۔ غیر محفوظ ہونے کا اعلان ہی تو ہے ۔ ۔ ایسا کیوں ہے ؟ شاید زندگی اپنے اندر گرتی رہتی ہے ۔ ۔ ۔ ریت کی دیوار کی طرح ۔ ۔ اسے کسی آندھی یا طوفان کے تکلف کی ضرورت نہیں ۔ ۔ ۔ انسان کا وجود اور ارادہ اندر سے مفلوج ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ باہر کے موسم تو ہمیشہ وہی رہتے ہیں۔ ۔ ۔ بہاریں اور خزائیں آتی جاتی رہتی ہیں ۔ ۔
لیکن ہم اپنے اندر بے نام اندیشے پالتے رہنے کی وجہ سے یکسر بدل جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور پھر ہمیں نہ بہار راس آتی ہے ۔ ۔ اور نہ خزاں ۔ ۔ انسان اندر سے ٹوٹ جائے تو تعمیرِ حیات کی کتابیں مدد نہیں کر سکتیں۔ ۔
واصف علی واصف

0 comments so far,add yours