زندگی میں ایک اس طرح کا وقت بھی آیا تھا جب اپنے ہر خیال پر میں نے اپنے تخیل کا جادو چڑھتے دیکھا تھا جادو لفظ صرف بچپن کی کہانیوں میں کبھی سنا تھا لیکن دیکھا . . . . . ایک دن اچانک وہ میری کوکھ میں آ گیا تھا اور میرے ہی جسم کے گوشت کی آڑ میں پلنے لگ پڑا تھا یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرا بیٹا میرے جسم کی امید بنا تھا 1946ء کے آخری دنوں کی بات ہے
اخباروں اور کتابوں میں کئی وہ حادثے پڑھے تھے کہ ایک ہونے والی ماں کے کمرے میں جس طرح کی تصویریں ہوں یا جس قسم کی صورت وہ دل میں لائے بطے کے خدوخال ویسے ہی بن جاتے ہیں اور میرے تخیل ے جیسے دنیا سے چھپ کر دبے لہجے میں میرے کانوں میں کہا اگر میں ساحر کا چہرہ ہر وقت اپنی یادوں کے سامنے رکھوں تو میرے بچے کی صورت اس کے مشابہ ہو جائے گی
جو زندگی میں نہیں پایا تھا جانتی ہوں یہ اسی کو پا لینے کی کرشمے ایسی سعی تھی خدا کی طرح پیدائش دینے کی سعی جسم کا ایک آزاد فعل صرف فطری میلافات سے آزاد نہیں گوشت و خون کی حقیقت سے بھی آزاد
سنک اور دیوانگی کے اس عالم میں جب 3 جولائی 1947ء کو پیدائش کے عمل میں آئی اول مرتبہ اس کا مننہ دیکھا، اپنے خدا کے ہونے کا یقین آ گیااور بطے کے چہرے کی نشو و نما کے ساتھ یہ خیال بھی نشو و نما پاتا رہا کہ اس کی صورت واقعی ساحر سے مشابہ ہے
خیر ! دیوانگی کی آخری چوٹی پر پاؤں رکھ کر ہمیشہ کھڑے نہیں رہا جا سکتا پاؤں کو بیٹھنے کے لیے زمین کا قطعہ چاہیے اس لیے آئیندہ برسوں ممیں اس کا تذکرہ ایک پری کہانی کی طرح کرنے لگ گئی

ایک بار یہ بات میں نے ساحر کو بھی سنائی اپنے آپ پر ہنستے ہوئے اس کے اور کسی ردعمل کی خبر نہیں صرف ااتنا معلوم ہے کہ وہ سن کر ہنس پڑا اور اس نے صرف اتنا کہا ویری پو ٹیسٹ! ساحر کو زندگی کا سب سے بڑا کملیکس ہے ..... کہ وہ خوبرو نہیں اسی میں سے اس نے میرے پور ٹیسٹ کی بات کی
اس سے پیشتر بھی ایک بات واقعہ ہوئی تھی ایک روز اس نے میری بچی گود میں بیٹھا کر کہا تھا "تم کو ایک کہانی سناوں" اور جب میری بچی کہانی سننے کے لیے تیار ہوئی تو وہ سنانے لگا "ایک تھا لکڑ ہارا وہ شب و روز جنگل میں لکڑیاں کاٹتا تھا پھر ایک روز اس نے جنگل میں ایک شہزادی کو دیکھا بڑی حسین ! لکڑہارے کا جی چاہا وہ شہزادی کو لے کر دوڑ جائے"
"پھر" میری بیٹی کہانیوں میں غور کرنے کی عمر کی تھی اس لیے بڑی توجہ سے کہانی سن رہی تھی میں صرف ہنس رہی تھی کہانی میں دخل نہیں دے رہی تھی
وہ کہہ رہا تھا "لیکن تھا تو لکڑ ہارا ناں وہ شہزادی کو صرف دیکھتا رہا دور فاصلہ پر کھڑا ہو کر اور پھر اداس ہو کر لکڑیاں کاٹنے لگ پڑا ....... سچی کہانی ہے نا؟"
"ہاں میں نے بھی دیکھا تھا" معلوم نہیں بچی نے یہ کیوں کہا
ساحر ہنستا ہوا میری طرف دیکھنے لگا "دیکھ لو اس بچی کو بھی معلوم ہے" اور بچی سے پوچھنے لگا "تم وہاں تھیں نا جنگل میں؟"
بچی نے ہاں میں سر ہلا دیا

ساحر نے پھر اس کو گود میں بیٹھی ہوئی سے پوچھا "تم نے اس لکڑ ہارے کو بھی دیکھا تھا نا؟ بھلا کون تھا؟" بچی کو اس لمحے الہام اترا لگتا تھا کہنے لگی ............. "آپ" ساحر نے پوچھا "اور وہ شہزادی کون تھی؟"
"ماما" بچی ہنسنے لگ پڑی

ساحر مجھ سے کہنے لگا "دیکھا بچوں کو سب کچھ معلوم ہوتا ہے"
پھر برسوں بیت گئے 1960ء میں جب بمبئی گئی تو ان دنوں راجندر سنگھ بیدی دوست تھے اکثر ملا کرتے ایک شام بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک انہوں نے پوچھا "پرکاش پنڈت سے ایک بات سنی تھی کہ نوراج ساحر کا بیٹا ہے"

اس شام میں نے بیدی صاحب کو اپنے اس عالمی دیوانگی کی بات سنائی کہا "یہ تخیل کا سچ ہے، حقیقت کا نہیں"
انہی دنوں میں ایک روز نوراج نے بھی سوال کیا اس کی عمر اب تقریباً تیرہ سال تھی ....... ماما ایک بات پوچھوں سچ سچ بتا دو گی؟"
"ہاں!"
"کیا میں ساحر انکل کا بیٹا ہوں؟"
"نہیں!"
"لیکن اگر ہوں، تو بتا دیجئے! مجھے ساحر انکل اچھے لگتے ہیں!"
"ہاں بیٹے ! مجھے بھی اچھے لگتے ہیں لیکن اگر یہ سچ ہوتا تو میں تم کو ضرور بتا دیتی!"
سچ کی اپنی طاقت ہوتی ہے میرے بچے کو یقین آ گیا

سوچتی ہوں ........ تخیل کا سچ چھوٹا نہیں تھا تاہم وہ صرف میرے لیے تھا صرف میرے لیے اس قدر کہ وہ سچ ساحر کے لیے بھی نہیں
لاہور جب کبھی ساحر ملنے کے لیے آیا کرتا تھا تو گویا میری ہی خاموشی میں سے خاموشی کا ٹکڑا کرسی پر بیٹھتا تھا اور چلا جاتا تھا
وہ چپ چاپ صرف سگریٹ پیتا رہتا تھا قریب آدھا سگریٹ پی کر راکھ دانی جھاڑ دیتا اور پھر نیا سگریٹ سلگا لیتا اور اس کے جانے کے بعد صرف سگریٹوں کے بڑے بڑے ٹکڑے کمرے میں رہ جاتے تھے

کبھی ایک بار اس کے ہاتھ کا لمس لینا چاہتی تھی لیکن میرے سامنے میرے ہی رواجی بندھنوں کا فاصلہ تھا جو طے نہیں ہوتا تھا اس وقت تخیل کی کرامات کا سہارا لیا تھا
اس کے جانے کے بعد میں اس کے چھوڑے ہوئے سگریٹوں کے ٹکڑے سنبھال کر الماری میں رکھ لیتی تھی اور پھر ایک ایک ٹکڑے کو تنہائی میں بیٹھ کر جلاتی اور جب ان کو انگلیوں میں پکڑتی تھی محسوس ہوتا جیسے اس کا ہاتھ چھو رہی ہوں
سگریٹ پینے کی عادت مجھے اس وقت پہلی بار پڑی تھی ہر سگریٹ سلگاتے وقت محسوس ہوتا وہ پاس ہے سگریٹ کے دھویں میں سے جیسے وہ جن کی طرح نمودار ہو جاتا تھا
پھر برسوں بعد اپنے اس احساس کو میں نے "ایک تھی انیتا" ناول میں قلم بند کیا لیکن ساحر کو شائد ابھی تک سگریٹ کی اس تاریخ کا علم نہیں
سوچتی ہوں تخیل کی یہ دنیا اس کی ہوتی ہے جو اس کو تخلیق کرتا ہے اور جہاں اس کی تخلیق کرنے والا خدا بھی اکیلا ہوتا ہے
(امرتا پریتم کی خودنوشت رسیدی ٹکٹ سے اقتباس صفحہ نمبر 116، 117، 118، 119)
 

0 comments so far,add yours