پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں کا قتل آج تک ایک سربستہ راز ہے۔ اس راز پر سے پردہ اٹھانے کے لیے بہت کچھ لکھا گیا۔ زیر نظر مضمون اُردو کے صاحبِ طرز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اس واقعے کے چند ہی دنوں بعد لکھا، جو 23 اکتوبر 1951 ء کو روزنامہ ’’آفاق‘‘ ،لاہور میں شایع ہوا تھا۔ یہ مضمون نہ صرف ایک صاحب ِ اُسلوب ادیب کی منفرد تحریر ہے بلکہ اسے پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ایک حقیقی فکشن نگار کس طرح حقائق کا گہرا ادراک رکھتا ہے۔ اس مضمون میں اٹھائے گئے سوالات آج بھی تشنۂ جواب ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

سعادت حسن منٹو ایک فریم میں
انسان۔۔۔انسان کا بیری!
جماعت۔۔۔جماعت کی دشمن!
قوم۔۔۔قوم سے نبرد آزما!
حکومت۔۔۔حکومت سے ستیزہ کار!

یہ ہے بیسویں صدی کی داستان۔۔۔اور یہی داستان پہلی صدی کی بھی تھی۔ دیگر اجناس کی طرح انسان کے گوشت پوست کی دکانیں پہلے بھی سجتی تھیں، آج بھی سجتی ہیں۔ گردنیں مروڑنے کے لیے پھانسیاں پہلے بھی نصب ہوتی تھیں، آج بھی نصب ہوتی ہیں۔ انسان کے خون کا چھڑکاؤ پہلے بھی ہوتا تھا، آج بھی ہوتا ہے۔ قتل وغارت گری، جبر و تشدد اور بہیمیت و بربریت کا جذبہ انسان میں اسی طرح موجود ہے،جس طرح کہ پہلے تھا۔ اتنے پیغمبر، اتنے اوتار، اتنے رشی، اتنے اولیا آئے اور چلے گئے، مگر انسان کی اصلاح نہ کرسکے۔ اس کے بنائے ہوئے قوانین بھی، اس کے جرائم و شدائد کا مواخذہ کرتے رہے، مگر ان کے محرک کو دور نہ کرسکے،

لیکن انسانیت کچھ ایسی ڈھیٹ ہے کہ وہ بھی ابھی تک مایوس نہیں ہوئی اور سوزو ساز، دردوداغ، جستجو و آرزو میں اسی طرح مگن ہے،جس طرح وہ آج سے ہزار ہا سال پہلے بھی تھی۔ یہی انسان کا سب سے بڑا المیہ ہے اور یہی سب سے بڑا فرحیہ، لیکن اگر اس المیہ اور فرحیہ میں کوئی غلط جنبش، کوئی بھونڈی حرکت دیکھنے میں آئے تو بڑی کوفت ہوتی ہے۔ اس ڈرامے میں کوئی ڈراپ انتظام کرنے والے کی غلطی سے گرپڑے تو بڑا صدمہ ہوتا ہے۔

16 اکتوبر کی شام کو جب مجھے لیاقت علی خاں کی موت کا علم ہوا تو میں جھنجھلا گیا۔ حیات ِانسانی کا اختتامیہ سب کو معلوم ہے۔ لیاقت کی پُرخطر زندگی میں قاتل کی گولی سے ہلاک ہونا یقیناً اس کے لیے بھی کوئی تعجب انگیز بات نہیں تھی، مگر یہ ڈراپ جس طرح گرا‘ اور مجمع میں جو بھگدڑ مچی، وہ اس ڈرامے کے متوقع انجام کا حصہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے کوفت ہوئی اور میں نے اس کا اعلان بھی کیا۔ اس المیے سے صرف راولپنڈی کا تعلق نہیں تھا، اس حادثے سے صرف وہ اشخاص متعلق نہیں تھے، جو ڈائس کے آس پاس بیٹھے تھے۔ اس المیے سے پاکستان کا ہر فرد و بشر متعلق تھا۔

لاہور میں اس سانحۂ شدید کی اطلاع سب سے پہلے ایک انگریز کو پہنچتی ہے۔ وہ تصدیق کی خاطر اے پی پی کے دفتر میں ٹیلی فون کرتا ہے۔ وہاں سے کچھ پتا نہیں چلتا تو ریڈیو پاکستان لاہور والوں سے پوچھتا ہے۔ وہاں سے بھی کچھ معلوم نہیں ہوتا تو خاموش ہو جاتا ہے۔ اے پی پی کا ٹیلی پرنٹر غالباً پونے چھ کے قریب حرکت میں آتا ہے اور یہ مختصر خبر ٹائپ کرتا ہے کہ راولپنڈی کے جلسہ ٔ عام میں کسی نے پاکستان کے وزیراعظم خان لیاقت علی خان پر دو فائر کیے، مگر فوری ہدایت دیتا ہے کہ یہ خبر منسوخ سمجھی جائے۔

سات بجے تک وہ لوگ جن تک خاں لیاقت علی خاں کے زخمی ہونے کی خبر، اے پی پی کے اس منسوخ شدہ اعلان کے ذریعے سے پہنچ چکی تھی، لاہور کی معتبر ہستیوں سے اس کی تصدیق یا تردید کے لیے تڑپتے رہتے ہیں، مگر ان کو کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ اچانک سات بج کر کچھ منٹ پر ریڈیو پاکستان لاہور یہ منحوس خبر نشر کرتا ہے کہ راولپنڈی کے جلسہ ٔ عام میں جونہی خان لیاقت علی خان تقریر کرنے اٹھے ہجوم میں سے ایک شخص سید اکبر نے ان پر دو فائر کیے۔ گولیاں دل کے قریب لگیں۔ ہسپتال میں آپریشن کیا گیا، جو ناکام ثابت ہوا اور وہ زخموں سے جاںبر نہ ہو سکے۔ ساتھ ہی یہ بتایا کہ ہجوم نے مشتعل ہو کر قاتل کو وہیں ٹھکانے لگا دیا۔

خان لیاقت علی خان کی موت سے جو صدمہ پاکستان کو پہنچا ہے، وہ ظاہر ہے۔ اس سے جو نقصان ہوا، اس کا اندازہ بھی آدمی لگا سکتا ہے۔ ان کے قتل سے جو نقصان ہوا ہے، اس پر کوئی غور ہی نہیں کر رہا تھا اور نہ کوئی یہ سوچ رہا تھا کہ پہلی صف میں قاتل داخل کیسے ہو گیا، جو اتنا کام یاب نشانہ لگا سکا۔۔۔مختلف ذرائع سے جو مختلف خبریں ہم تک پہنچیں ان کا اختصار بہ نظر غور ملاحظہ فرمائیے:

1۔ قاتل نے دو گولیاں چلائیں، بہت قریب سے۔
2۔ حملہ آور کے فائر کرنے کے فوراً بعد قریب کھڑے پولیس کے سپاہیوں نے ہوا میں گولیاں چلائیں اور عظیم الشّان مجمع میں جو ابھی تک حادثے سے بے خبر تھا، سخت ہیجان پھیل گیا، تاہم مجمع پر جلد قابو پا لیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے شہر اور چھاؤنی میں دفعہ 144 نافذ کردی۔
3۔ خان لیاقت علی خان گولیاں لگتے ہی بے ہوش ہو گئے تھے۔

یہ اس حادثے کی پہلی خبریں تھیں، جو پاکستان والوں کو ملیں۔۔۔ان سے لوگ مختلف نتائج برآمد کرتے رہے۔۔۔میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ پولیس نے ہوا میں کیوں گولیاں چلائیں؟ یوں تو پنجاب پولیس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ایسے موقعے پر ہوا کے داخلے پر بھی پابندیاں عائد کر دیتی ہے، مگر اس وقت جب کہ قاتل اُس کی نگاہوں کے سامنے تھا،جس کی گرفتاری یقینی تھی، اُس نے پندرہ بیس ہزار کے مجمع کو ہوا میں گولیاں چلا کر کیوں منتشر کیا اور وہ بھی اس بری طرح کہ اُسے اس پر قابو پانے کے لیے اپنی طاقت الگ صرف کرنی پڑی۔ کہا گیا تھا کہ پولیس کے سپاہی قریب کھڑے تھے اور انہیں یقینا ایسے موقع پر بہت قریب موجود ہونا چاہیے تھا۔ وہ ہوا میں گولیاں چلا سکے، لیکن وہ قاتل کو نہ بچا سکے ،جو اُن کے پاس ہی کہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہجوم میں افراتفری پھیل گئی تھی، اتنی کہ پولیس قاتل کو قتل ہونے سے نہ بچا سکی، اس کا یہ مطلب تھا کہ مجروح خان لیاقت علی خان کو فوری طبی امداد پہنچانے کا انتظام بہت مشکل ہو گیا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اُن کو ہسپتال پہنچایا گیا، تو وہاں اُن کے جسم میں خون داخل کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ زخمی حالت میں وہ کتنی دیر تک وہاں پڑے رہے؟ اس کے متعلق جہاں تک مجھے علم ہے ابھی تک کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی۔ کتنے عرصے میں اُن کو ہسپتال پہنچانے میں کام یابی ہوئی؟ اس کے بارے میں بھی قطعی معلومات بہم نہیں پہنچائی گئیں۔

اگر خان لیاقت علی خان مرحوم پاکستان کے وزیراعظم تھے جن کے اشارے پر ہر پاکستانی اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار تھا تو وہ یہ جاننے کا حق ضرور رکھتا ہے کہ اُن کی جان کیسے اور کیوںکر لی گئی۔ اُن کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کیے گئے تھے، اگر کیے گئے تھے تو وہ کیوں ناکام ثابت ہوئے؟

17 اکتوبر کی شام تک جو مختلف اطلاعات ہم تک پہنچیں، اُن کا لب لباب یہ تھا:
1۔ وزیراعظم پاکستان کا قاتل افغانستان کا باشندہ تھا اور قبیلہ جدران سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کی جیب سے دو ہزار روپے کے نوٹ برآمد ہوئے ہیں۔ (ایسوی ایٹڈ پریس)
2۔ وزیراعظم پاکستان کا قاتل شناخت کر لیا گیا ہے، اس کا نام سید اکبر ولد ببرک ہے۔ وہ افغانستان کا باشندہ تھا ۔ ساپرخیل ذات سے تعلق رکھتا تھا۔ اُس نے کچھ عرصہ پہلے ضلع ہزارہ میں اقامت اختیار کرلی تھی۔ اس کے قبضے سے دو ہزار چالیس روپے برآمد ہوئے ہیں اور ایبٹ آباد میں اس کے مکان سے دس ہزار روپے برآمد ہوئے ہیں۔ اتنی بڑی رقم کی برآمدگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاتل کو غالباً اسی مقصد سے خریدا گیا تھا۔ اُس کے قبضے سے جو کاغذات برآمد ہوئے ہیں، ان میں ایک نقشہ بھی ہے، جس میں شمالی مغربی پاکستان کے اہم مقامات دکھائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر کاغذات فارسی میں ہیں، جن کی تحقیق ہو رہی ہے۔
3۔ افغان قونصل مقیم پشاور سردار محمد قیوم خاں، جو شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، اس واقعے سے پانچ گھنٹے قبل پُراسرار طریقے سے پشاور سے غائب ہو گئے تھے۔ بعد میں اس امر کی تحقیق ہو گئی کہ وہ درۂ خیبر کے راستے دو بجے دوپہر افغان سرحد میں داخل ہو گئے اور سہ پہر تک افغان پاسپورٹ آفس میں ٹھہرے رہے، پھر شام کو کابل روانہ ہو گئے۔
4۔ خان لیاقت علی خاں کے قتل کے سلسلے میں پولیس کو ایک دس سالہ بچّے کی تلاش ہے، جو قاتل کا ملازم تھا اور اس کے ساتھ گرینڈ ہوٹل راولپنڈی کے کمرہ نمبر 3 میں دو تین دن تک مقیم رہا۔
5۔ حکومت سرحد نے حکومت پنجاب کو قاتل سید اکبر کے متعلق اپنے شکوک سے آگاہ کر دیا تھا۔ ان اطلاعات سے حادثۂ قتل کی اصلیت جاننے والوں کی کیا تشفی ہوسکتی تھی؟ وہ بدستور پیاسے رہے اور ان کی دماغی الجھنوں میں اضافہ ہوتا گیا، یہ کچھ عجیب قسم کا استخراج تھا کہ چوںکہ قاتل کے پاس سے دو ہزار چالیس اور اس کے گھر سے دس ہزار روپے برآمد ہوئے، اس لیے گمان غالب ہے کہ اسے اس کام کے لیے خریدا گیا تھا۔

میں قتل اور قاتل کی نفسیات کی تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا تھا، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسے اسی مقصد کے لیے خریدا گیا تھا، تو وہ اپنے حق الخدمت کا کچھ حصہ جیب میں ڈال کر اس جگہ کیوں آیا ،جہاں وہ اپنا کام سرانجام دینا چاہتا تھا اور جہاں سے اس کو اپنے بچ نکلنے کی کوئی امید نہیں تھی؟ اس سوال کے بطن سے دو چھوٹے چھوٹے سوال اور پیدا ہوتے ہیں:

1۔ ہو سکتا ہے قاتل کو اپنے بچ نکلنے کی امید ہو۔
2۔ اگر ایسا تھا تو کیا اس کے بچانے کے لیے اور افراد بھی موجود تھے۔ ان افراد کو اگر تھوڑی دیر کے لیے پیشِ نظر رکھا جائے ،تو قتل کا نقشہ بالکل نئی صورت اختیار کرلیتا ہے۔

آدمی سوچتا ہے کہ ہو نہ ہو، قاتل کے آس پاس کئی آدمی تھے، جونہی اُس نے گولی چلائی، ان آدمیوں نے اس کا صفایا کردیا، مگر پھر یہ چیز ذہن میں آتی ہے کہ جس فرد نے یا جس جماعت نے قاتل کو اس کام کے لیے اکسایا تھا اس نے مزید آدمیوں کو اس راز میں کیوں شامل کیا۔ کیا یہ اس کی حماقت نہیں تھی؟... یہ باتیں میرے یا کسی اور کے تبصرے کی محتاج نہیں۔ اس لیے کہ ان پر کوئی چھلکا نہیں ،جسے اتارا جائے۔ ہزارہ میں پولیس کو معلوم تھا کہ اُن کا ’’آدمی‘‘ کہاں جا رہا ہے اور کہاں ٹھہرے گا۔ اگر اُن کو اس کا صحیح علم نہ بھی ہوتا، تو بھی ان کو اتنا پتا ضرور تھا کہ وہ ہزارہ سے جا رہا ہے اور جب وہ جا رہا تھا، تو ہزارہ کی خفیہ پولیس سائے کی طرح کیوں اس کے پیچھے نہ رہی؟ معمولی سے معمولی سیاسی کارکن کی نقل و حرکت بھانپ بھانپ کر اور ماپ ماپ کر وہ اس پر عرصۂ حیات تنگ کر دیتی ہے، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اتنی بڑی ہستی کا ہونے والا قاتل جس پر ایک عرصے سے شبہ تھا، بڑے آرام سے ہزارہ سے نکلتا ہے، پولیس کو اپنی منزل اور اپنے جائے قیام کا بالکل صحیح پتا دیتا ہے اور چھ گز کے فاصلے پر بیٹھ کر ایسا نشانہ لگاتا ہے کہ پہلی گولی ہی اپنا کام کر جاتی ہے۔ 13 اکتوبر کو وہ راولپنڈی آتا ہے اور 14 کی صبح تک گرینڈ ہوٹل میں رہا۔ اس دوران میں اس کی شخصیت پُراسرار رہی۔ اس کی ہر بات نرالی تھی۔ ہوٹل میں اس سے دو تین آدمی ملنے آتے تھے، ان کے متعلق قاتل نے کہا تھا، سی آئی ڈی کے ہیں۔ تمام شک افزا باتوں کے باوجود کسی نے بھی اس کو زیر نگرانی نہ رکھا اور اگر رکھا تو بڑی غفلت سے کام لیا۔ قاتل کو قتل کر دیا گیا، مگر حیرت ہے کہ وہ پستول کہاں گیا ،جس سے خان لیاقت علی خاں کو شہید کیا گیا تھا۔

19 اکتوبر کو میاں ممتاز دولتانہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ایک تقریر کے دوران کہا ’’مجھے اس احساس سے بے حد ندامت ہے کہ یہ حادثۂ فاجعہ میرے صوبے میں ہوا، لیکن میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اس میں حکومت یا پولیس کے حفاظتی انتظامات میں کوئی کوتاہی نہ تھی۔‘‘خدا کرے ایسا ہی ہو، مگر جو اطلاعات اب تک ہمیں پہنچی ہیں، ان سے اس بارے میں ہماری کامل تسلی و تشفی نہیں ہوتی۔ قاتل کے جسم سے کئی گولیاں برآمد ہوئی ہیں۔ ان کے بارے میں حکومت اور پولیس نے کیا تحقیق کی ہے؟

سید اکبر ہمارے پاکستان کے محبوب وزیراعظم اور راہ نما کا قاتل تھا۔ وہ گردن زدنی تھا، وہ ایک ایسے گھناؤنے فعل کا مرتکب ہوا تھا، جس کی سزا اس کو ملنا چاہیے تھی، مگر اس کو ہجوم کے غیظ و غضب سے محفوظ رکھنا چاہیے تھا۔ ہم کچھ بھی کہیں اس نقصان کے پیشِ نظر جو ہماری مملکت کو ہوا ہے، ہم جذبات میں آ کر لاکھ دلائل پیش کریں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ 16 اکتوبر کی سہ پہر کو دو انسان قتل ہوئے۔ ایک خان لیاقت علی خاں وزیراعظم پاکستان اور ایک ہزارہ کا باشندہ مسمّی سید اکبر۔ خان لیاقت علی خاں مرحوم و مغفور کا قاتل سید اکبر تھا۔ اس کے متعلق تو پولیس اپنا فیصلہ دے چکی ہے، لیکن سید اکبر کا قاتل کون تھا؟ وہ جذبہ جو اس کے خلاف ہجوم کے دل میں پیدا ہو گیا تھا! اس کے ساتھی جو قتل کی سازش پر پردہ ڈالنا چاہتے تھے ۔۔۔ یا پولیس؟ کیوںکہ حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ قاتل کے جسم سے تین گولیاں نکلی ہیں۔ اب بیان کیا گیا ہے کہ وہ پولیس کے پستولوں سے نکلی تھیں۔ اس ضمن میں پولیس کے ایک ذمہ دار افسر کا نام بھی لیا جا رہا ہے، لیکن میں فی الحال اس کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ میاں دولتانہ کو چاہیے کہ وہ فوراً عوام کو تمام واقعات سے آگاہ کریں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی تقریر میں ہماری پولیس کے حفاظتی انتظامات کے بارے میں اپنے کامل اطمینان کا اظہار کر چکے ہیں، لیکن اگر واقعات اس کے برعکس ہیں تو انہیں اپنے فرض میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ جس طرح خان لیاقت علی خان کے قتل کا صحیح سراغ لگانا ہماری پولیس اور ہماری حکومت کا فرض ہے، اسی طرح قاتل سید اکبر کے قتل کا صحیح سراغ لگانا بھی ان دونوں کے فرائض میں داخل ہے۔ سیاسیات کی جملہ الجھنوں سے قطع نظر اگر صرف قانون کی نگاہوں میں، اس میدان میں جسے میزان عمل کہا جاتا ہے، اس کسوٹی پر جسے انسانیت کہا جاتا ہے،

ہم 16 اکتوبر کی سہ پہر کے حادثے کو پرکھیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سید اکبر اور اس کے قاتلوں کے فعل میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا۔ دونوں قاتل ہیں اور اُس سزا کے مستوجب جو تعزیرات پاکستان میں ایسے لوگوں کے لیے مرقوم ہے۔ ان کے خونیں راستے جدا تھے، لیکن وہ ملتے ایک ہی چوراہے سے تھے، جس میں انسانی خون سے لبریز حوض ہے۔ سید اکبر نے خان لیاقت علی خان کو قتل کر کے پاکستان پر ایک شدید ضرب لگائی اور سید اکبر کو قتل کر کے ایک یا زائد آدمیوں نے اس کو اور اس کی شاخ کو بھی کاٹ دیا، جس کا سہارا لے کر اُس نے یہ ضرب لگائی تھی۔


0 comments so far,add yours