بسا
اوقات از راہِ شفقت و دل جُوئی بیمار طالبِ علموں کو سرسیّد اپنے گھر لے
آیا کرتے تھے تا کہ علاج و پرہیز باقاعدہ ہو سکے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ دو
ایسے طلبہ نے رُوبہ صحت ہونے کے دوران اُن کے باغ سے انار کھانا شروع کر
دیے۔ صبح کو بے چارہ مالی جب انار پیڑوں سے اُتار نے جاتا تو خالی جھولی
لوٹتا۔ اُس نے جب اِن انارخوروں سے رجوع کیا تو جواب ملا کہ گلہریاں کھا
جاتی ہیں۔ اُس غریب نے سر سیّد کے رُوبہ رُو بھی
اناروں کی گمشدگی کی یہی وجہ بیان کر دی۔ سرسیّد نے مسکرا کر کہا: ’’اُن
سے کہہ دینا کہ گلہریوں کے لئے آہنی مُنہ دان بنوا لیے ہیں۔‘‘ چناںچہ اُس
کے بعد گلہریاں ہوشیار ہو گئیں۔ اِس چھوٹے سے واقعے میں یہ بات سامنے آتی
ہے اُس سرقۂ اناراں کے مجرموں کو جانتے بوجھتے ہوئے سرسیّد نے سزا دینا تو
درکنار، خود اُن سے پوچھ گچھ کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔
(روایاتِ علی گڑھ، از محمد ذاکر علی خاں)
(روایاتِ علی گڑھ، از محمد ذاکر علی خاں)

0 comments so far,add yours