ایک اردو رسالہ بہ نام "جاوید" کے ایڈیٹر عارف عبدالمتین اور اس کے پبلشر نصیر انور کو معہ ایک مصنف مسمی سعادت حسین منٹو کے میرے پاس مقدمہ زیر دفعہ 292 پی پی سی کے لیے بھیجا گیا ہے ۔ موخر الذکر ملزم کے خلاف یہ الزام ہے کہ وہ ایک فحش کہانی جس کا عنوان "ٹھنڈا گوشت" ہے، کا مصنف ہے اور جو مذکورہ بالا رسالہ کے ایک خاص نمبر میں شائع ہوئی ہے ۔ دوسرے دو ملزموں کے خلاف یہ الزام ہے کہ انھوں نے اس کہانی کو مندرجہ بالا انداز میں شائع کرنے کا جرم کیا ہے ۔
رسالہ "جاوید" کا خاص نمبر مارچ 1949 میں شائع ہوا تھا۔ یہ سید ضیا الدین، مترجم پریس برانچ حکومت پنجاب، کے علم میں آیا،جو اس مقدمہ میں گواہ استغاثہ نمبر 3 کی حیثیت سے پیش ہوا۔ اس کا یہ فرض ہے کہ وہ کسی بھی طبع شدہ چیز میں کوئی فحش مواد محسوس کرے تو اس سے حکومت پنجاب کو مطلع کرے ۔ اس کے خیال میں مذکورہ بالا ایڈیشن میں شائع شدہ کہانی بعنوان "ٹھنڈا گوشت" فحش تھی۔ چنانچہ اس نے حکومت پنجاب کی توجہ اس طرف مبذول کرائی اور اس غرض کے لیے قانونی کاروائی کے لیے کہا۔ اس کہانی کی تصنیف اور خاص نمبر میں اس کی اشاعت سے انکار نہیں کیا گیا،اور نہ پہلے دونوں ملزم رسالے کے مدیر اور ناشر ہونے سے منکر ہیں ۔ لہٰذا اب سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ کہانی بعنوان "ٹھنڈا گوشت " فحش ہے یا نہیں ؟
استغاثے نے مذکورہ رسالے کے خاص نمبر کو پیش کیا ہے جو ریکارڈ میں (ایکس۔ پی۔ ایف) کی حیثیت سے درج کیا گیا ہے ۔ کہانی جو اس قانونی چارہ جوئی کا موضوع ہے ، اس شمارے کے صفحہ 88 سے 93 تک چھپی ہے ۔ میں نے نہایت غور سے اس کہانی کو پڑھا، جو موضوع کی تشکیل کرتی ہے اور دیکھا کہ اس میں گندہ طرز بیان اور ناشائستہ گالیاں استعمال کی گئی ہیں ۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اس کہانی میں کئی شہوت پرستانہ مقامات پیش کیے گئے ہیں اور جنسی اشارات کا اکثر ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ طے کرنے کے لیے کہ آیا کوئی تصنیف مثلاً زیر بحث کہانی فحش ہے یا نہیں، ضروری ہے کہ ایک معیار مقرر کیا جائے جس سے فحاشی کی تمیز کی جا سکے ۔
3 کیو۔ بی 1868 میں ہکلن رپورٹ میں اسی موضوع کے ایک مشہور مقدمے میں لارڈ کاک برن جی جے نے صفحہ 271 تا 360 پر فحاشی کا یہ معیار مقرر کیا تھا: "جب مواد کا رجحان جس پر عریانی کا الزام ہے، انھیں بد اخلاقی کی طرف مائل کرنا ہو جن کے اذہان اس قسم کے اثرات قبول کر سکتے ہیں اور اس قسم کی اشاعت جن کے ہاتھ لگ سکتی ہے ۔ " معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی تمام عدالت ہائے عالیہ ہمیشہ اس معیار کی تقلید کرتی رہی ہیں ۔ اس معیار سے یہ ظاہر ہے کہ قانون میں مستعملہ عریانی اس ماحول سے متعلق ہے جس میں کہ یہ جانچی جاتی ہے ۔ وہ باتیں جو ایک پاکستانی کے اخلاق کے لیے ضر ررساں خیال کی جائیں، جہاں تک ایک فرانسیسی کا تعلق ہے ، بالکل بے ضر ر سمجھی جا سکتی ہیں ۔ ہر سوسائٹی کے اپنے اخلاقی معیار ہوتے ہیں اور وہ چیزیں جو ایک سوسائٹی کا اخلاقی اقوام خیال کی جاتی ہیں، بعض اوقات دوسری سوسائٹی کے معیار کے مطابق غیر اخلاقی ہو سکتی ہیں ۔ اسی طرح اظہار کے بعض اسالیب کا اثر مختلف سوسائٹیوں کے افراد پر مختلف ہوتا ہے، خواہ یہ اظہار مخالف معیاروں کے نزدیک غیر اخلاقی ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے زیر بحث کہانی کے فحش یا غیر فحش ہونے کا فیصلہ پاکستان کے مروجہ اخلاقی معیاروں کے پس منظر پر کرنا ہو گا۔ اور اس کے اثر کے مطابق جو اس قسم کی تحریر اس سوسائٹی میں رہنے والے لوگوں کے اذہان پر ڈالے گی۔
لارڈ کاک برن کا قائم کردہ معیار ایک مکمل اور جامع تعریف نہیں ہے ۔ جیسا کہ اس کا مفہوم ظاہر کرتا ہے، صرف ایک معیار ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی معیار ہو سکتے ہیں ۔ ان میں سے ایک وہ رجحان ہے (یہ الزام زدہ مواد میں موجود ہے ) جو قارئین کے اخلاقی احساسات کو ٹھیس پہنچاتا ہے ۔ یہ معیار بھی قارئین کے اخلاق پر منحصر ہے ۔
استغاثہ نے ابتدا میں صرف پانچ گواہ پیش کیے اور کیس بند کر دیا۔ گواہ استغاثہ (1) مسٹر محمد یعقوب، منیجر کپور پرنٹنگ پریس،(2) شیخ محمد طفیل،(3) مراز محمد اسلام ۔ گواہ استغاثہ (4) خدا بخش نے ان امور کے متعلق شہادت دی، جن کا فحاشی سے کوئی تعلق نہیں ۔ گواہ استغاثہ نمبر 3، سید ضیا الدین نے دوسرے امور بیان کرنے کے علاوہ اپنی رائے ظاہر کی کہ زیر بحث کہانی فحش ہے ۔ تاہم ریکارڈ میں کوئی اس قسم کا مواد نہیں جن سے ظاہر ہو کہ گواہ ماہر ادب سمجھا جا سکتا ہے ۔ میرے خیال میں قانون شہادت کی دفعہ نمبر 45 کی رو سے اس کی شہادت قابل قبول نہیں ہے ۔ اس لیے جہاں تک فحاشی کے مسئلے کا تعلق ہے، استغاثے کا کیس جیسا کہ ابتداً پیش کیا گیا، خود عدالت کی رائے اور الزام زدہ مواد کے مطالعہ کے بعد اس کی ماہیت پر منحصر ہو گا۔
ملزمین نے صفائی میں سات گواہ، ادبی امور کے ماہرین کی حیثیت سے پیش کیے ۔ ان گوا ہوں کی شہادت سے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ زیر بحث تحریر فحش نہیں ہے ۔ صفائی کے اختتام پر استغاثے نے درخواست کی کہ مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر کچھ اور ماہرین بطور عدالتی گواہ بلائے جائیں اور میں نے انصاف کی خاطر چار اور ماہروں کو بطور عدالتی گواہ بلوالیا۔
بیشتر ماہرین نے خواہ وہ صفائی کی طرف سے پیش ہوئے یا عدالت کی طرف سے، کسی نہ کسی فریق کے حق میں رائے دی کہ زیر بحث کہانی فحش ہے یا نہیں ۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے ، تعزیرات میں جو فحاشی کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے، اس کی ٹیکنیکل اہمیت ہے، جس کا تعین عدالت کو کرنا ہے ۔ ماہرین کی شہادت اسی حد تک ضروری ہے جہاں تک ادب کے مروجہ معیاروں ، اظہار کی شستگی، سوقیانہ پن، اخلاقی یا غیر اخلاقی حیثیت اور اس رجحان کے متعلق جو کوئی تحریر قارئین کے اذہان پر اثرا نداز ہو، روشنی ڈالتی ہے ۔ ان امور سے یہ تعین کرنا عدالت کا کام ہے کہ کوئی چیز فحاشی کی شرائط کو پوری کرتی ہے یا نہیں ۔
صفائی کے گواہ (نمبر1) مسٹر عابد علی، (نمبر 2) مسٹر احمد سعید، (نمبر 3) ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، (نمبر4) ڈاکٹر سعید اللہ، (نمبر 5) فیض احمد فیض، (نمبر 6) صوفی غلام تبسم، (نمبر 7) ڈاکٹر آئی لطیف، سب صاحب علم ہیں ۔ ان کے خیال کے مطابق کیوں کہ آرٹ زندگی کا آئینہ دار ہے، اس لیے فن کار کوئی ایسی چیز جو زندگی کی سچی تصویر ہو، حقیقت پسندانہ طور پر پیش کرنے سے اپنے حقوق سے تجاوز نہیں کرتا۔ اس لیے وہ یہ جوا ز پیش کرتے ہیں کہ زندگی کا حقیقت پسندانہ اظہار فحش نہیں ہو سکتا۔ وہ زیر بحث کہانی کی غیر شائستہ زبان اور اس کے سوقیانہ محاوروں کو بھی قابل گرفت نہیں سمجھتے، کیوں کہ یہ اس قسم کی گفتگو کی نمائندگی کرتے ہیں جو پیش کردہ کردار کی نوع کے لوگ بولتے ہیں ۔ ان میں سے بعض نے یہ کہا ہے کہ زیر بحث کہانی میں قارئین کے اخلاق کو بگاڑنے کا کوئی میلان نہیں پایا جاتا۔ بعض نے اس نکتے پر خاموشی اختیار کر لی۔ عدالتی گواہ (نمبر1) مولانا تاجور،(نمبر2) آغا شورش کاشمیری، (3) مولانا ابو سعید بزمی، (4) ڈاکٹر تاثیر بھی اسی پائے کے علمی آدمی ہیں ۔ ان گوا ہوں کی شہادت سے یہ بات نمایاں ہوتی ہے کہ زیر بحث کہانی، برا ادب ہے اور غیر شائستگی سے پیش کی گئی ہے ۔
صفائی کے گواہ (نمبر 7) ڈاکٹر آئی لطیف نے رائے ظاہر کی کہ اگر زیر بحث کہانی کسی میڈیکل جریدے میں شائع ہوتی تو یہ ایک سبق آموز کیس ہسٹری ہوتی، لیکن ایک مقبول عام رسالے میں جسے ہر شخص پڑھ سکتا ہے، ناموزوں معلوم ہوتی ہے ۔ صفائی کے گواہ (نمبر 5) کرنل فیض احمد فیض کا خیال ہے کہ اگرچہ وہ اسے فحش نہیں کہہ سکتے تاہم یہ کہانی ادب کا کوئی اچھا نمونہ نہیں۔ اس میں بعض غیر شائستہ محاورے استعمال کیے گئے ہیں جن سے اجتناب کیا جا سکتا تھا۔ عدالتی گواہ (نمبر1) مولانا تاجور نے اس کی سخت اور غیر مبہم الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ انھوں نے اپنے چالیس سالہ ادبی تجربہ میں اس سے زیادہ کوئی چیز غیر شائستہ نہیں دیکھی۔ عدالتی گواہ (نمبر 4) ڈاکٹر تاثیر کی رائے ہے کہ اس میں ان لوگوں کا اخلاق بگاڑنے کا رجحان موجود ہے جو شہوانی حرص کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔
پاکستان کے مروجہ اخلاقی معیار، قرآن پاک کی تعلیم کے حوالے سے بہت صحیح طور پر معلوم ہو سکتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ غیر شائستگی اور شہوانیت کی لگام شیطان کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ غیر شائستگی، شہوانیت، نفس پرستی اور سوقیانہ پن میں زندگی موجود ہے ۔ اگر ادبی مذاق کے اس معیار کو تسلیم کر لیا جائے جسے صفائی کے گوا ہوں نے بیان کیا ہے تو زندگی کے پہلوؤں کا حقیقت نگارانہ اظہار اچھا ادب ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی یہ ہمارے معاشرے کے اخلاقی معیار کی خلاف ورزی کرے گا۔ ملزم سعادت حسن منٹو کی لکھی ہوئی کہانی ایک سوقیانہ آدمی کے کردار کو پیش کرتی ہے جو اپنی معشوقہ سے ، جسے بہت شہوت پرست دکھایا گیا ہے، وحشیانہ اور سوقیانہ انداز سے جنسی فعل کا طالب ہوتا ہے ۔ جنسی تضمین کے ساتھ غیر شائستہ گالیوں کا استعمال عام کیا گیا ہے ۔ جنسی نوع کے افعال کے سلسلے میں نسوانی جسم کے پوشیدہ اعضا کا ذکر نہایت بد تہذیبی سے کیا گیا ہے ۔ ساری کہانی ایک ناشائستہ جنسی معاملے پر مرکوز ہے ۔ درحقیقت جنسی بدتہذیبی ہی اس کہانی کا بنیادی تصور ہے ۔
ادبی اور نفسیاتی ماہر کہانی کا ایک خاص انداز رد عمل قبول کر سکتے ہیں، تاہم میری رائے میں ایک الہڑ، نابالغ پر اس قسم کی کہانی کا ردعمل، اظہار، بول چال اور خیالات میں غیر شائستگی کی حوصلہ افزائی کی صورت میں ہو گا۔ سعادت حسن منٹو جیسے بزعم خود مشہور مصنف کی مثال قرار پیش نظر رکھتے ہوئے وہ نوجوان جو اس کہانی کو پڑھیں گے اسی طرح سے غیر شائستگی کو تقویت دیں گے ۔ کہانی بعنوان"ٹھنڈا گوشت" کو غور سے پڑھنے کے بعد مجھے اطمینان ہو گیا ہے کہ اس میں قارئین کا اخلاق بگاڑنے کا میلان موجود ہے اور یہ ہمارے ملک کے مروجہ اخلاقی معیاروں کی خلاف ورزی کرتی ہے ۔ اس لیے میں ملزم سعادت حسن منٹو کو ایک فحش تحریر پیش کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتا ہوں اور اسے زیر دفعہ 292 پی پی سی، تین ماہ قید با مشقت اور تین سو روپے جرمانے کی سزا دیتا ہوں ۔ عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں اس کو مزید 21 یوم کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ ملزمین عارف عبدالمتین اور نصیر انور جو واضح طور پر جریدے کے مدیر اور ناشر ہیں، جس میں مذکورہ کہانی شائع ہوئی ہے، ایک فحش تصنیف کی اشاعت عام کے مجرم ہیں اور وہ اسی دفعہ کے تحت آتے ہیں، تاہم ان کے معاملے میں ان کی کم عمری کے پیش نظر اور پھر یہ کہانی کا مصنف ایک ایسا شخص تھا جو خاصی ادبی شہرت کا مالک ہے، انھوں نے اسی اعتماد کی وجہ سے کہانی قبول کر لی ہو گی کہ یہ قابل قبول ادب پارہ ہو گا، میں ان ہر دو ملزموں کے لیے تین تین سو روپے جرمانے کی نرم سزا تجویز کرتا ہوں، چونکہ یہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے گی، اس لیے میں اس کے مطابق حکم دیتا ہوں ۔ عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں ملزمین عارف عبدالمتین اور نصیر انور کو اکیس یوم قید بامشقت بھگتنی پڑے گی۔
دستخط
اے ۔ ایم سعید
مجسٹریٹ درجہ اول، لا ہور

["روشنی کم تپش زیادہ"، علی اقبال، رائل بک کمپنی، کراچی، 2011]
 
 

0 comments so far,add yours