عبداللہ حسین کی وفات سے کچھ دن پہلے اکادمی ادبیات نے 2012ءکے لیے انہیں
کمال فن ایوارڈ عطا کیا تو عبداللہ حسین نے پوچھا یہ سرکار دربار سے تو
نہیں دیا جا رہا ؟ بتایا گیا کہ ادیبوں کی ایک کمیٹی نے یہ انعام تجویز کیا
ہے۔ اس پر انہوں نے قبول کر لیا۔ وفات سے آٹھ دن پہلے اکادمی ادبیات نے
مجھے یہ فریضہ سونپا کہ میں ایوارڈ کے پانچ لاکھ کا چیک ان کی خدمت میں پیش
کروں۔ میں حاضر ہوا اور پھولوں کے ساتھ
چیک پیش کیا کہ یہ آپ کی امانت ہے۔ دو پہر کا کھانا کھا کر بیٹھے تھے۔ چیک
کو دیکھا اور کہا ہاں ٹھیک ہے یہ محمد خان کے نام کا ہے۔ میرا اکاﺅنٹ اسی
نام کا ہے۔ ملازم کو تاکید کی کہ یہ سوموار کو جمع کرا دینا۔ اور کہا محمد
خان امیر آدمی ہے اسے چیک ملتے رہتے ہیں۔ عبداللہ حسین کا گزارا بس تھوڑی
آمدن سے ہو جاتا ہے۔یہ میری عبداللہ صاحب سے آخری ملاقات تھی۔ جنازے سے ذرا
دیر پہلے وہ ملازم میرے پاس آیا اور کہا ہمیں معلوم نہیں وہ چیک پاس ہوا
یا نہیں ، کیونکہ اس کے بعد عبداللہ صاحب ہسپتال چلے گئے تھے۔ میں نے کہابے
فکر ہو جاﺅچیک محمد خان کا تھا جو ہر حال میں پاس ہوگیا ہوگا۔ محمد خان
اللہ کے پاس چلا گیا ہے۔ عبداللہ حسین تو ہمارے پاس ہے۔ ایسا کچھ ہوا تو
عبداللہ حسین ہمارا گریبان پکڑ لے گا۔
محمد خان سے عبداللہ حسین کا سفر ایک جست میں طے ہوا۔” اداس نسلیں“کی اشاعت سے پہلے دو محمد خان مشہور تھے ایک محمد خان ڈاکو اور دوسرے کرنل محمد خان۔ دراصل تو دونوں کا پیشہ ایک ہی تھا اس لیے بقول عبداللہ حسین نام بدلنے کی تجویز پیش آئی اور اگلی جست میں نام عبداللہ حسین تجویز پا گیا۔ اپنے بچپن کا واقعہ سناتے تھے کہ ”ایک دن والد نے ڈانٹ ڈپٹ کر کہا کہ اگر تم نے انگریزی نہ پڑھی تو ریلوے کے قلی بنو گے۔ اس وقت تک میں نے قلی نہیں دیکھا تھا۔ ایک دن سٹیشن پر قلی نظر آیا اس نے خاکی نیکر اور سرخ قمیض پہن رکھی تھی۔ اسے دیکھ کر میں نے عہد کیا کہ زندگی میں نیکر نہیں پہنوں گا“۔ گجرات سے تعلیم پاکر بی ایس سی انجینئرنگ کرنے کے بعد عبداللہ حسین داﺅد خیل کی ایک سیمنٹ فیکٹری میں کیمسٹ کی حیثیت سے ملازم ہوگئے۔ ”اداس نسلیں“کی تخلیق نے یہاں سے جنم لیا۔ کہتے تھے جب میں کام سے واپس آتا تھاتو چاروں طرف ایک سناٹا ہوتا تھا۔ شدید تنہائی نے پہلے پڑھنے اور پھر لکھنے کی ترغیب دی۔ تنہائی دور کرنے کے لیے لکھنا شروع کر دیا۔ سوچا کچھ تھا، لکھ کچھ اور گیا۔ ہر بڑے ناول کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔
”اداس نسلیں“ کا مسودہ ” نیا ادارہ“ نے تین لوگوں سے پڑھوایا۔ ان میں حنیف رائے، شیخ صلاح الدین اور محمد سلیم الرحمن جیسے جید عالم اور پارکھ شامل تھے۔ عبداللہ حسین کا ناول تو پاس ہو گیا۔ وہ پاس نہ ہوئے۔ کہا گیا ناول سے پہلے دو ایک کہانیاں لکھیں۔جس سے مارکیٹ میں مصنف کا تعارف ہو جائے۔ سو دو کہانیاں ”سمندر“ اور ”ندی“ لکھی گئیں اور قارئین نے پسند کیں تو ناول مارکیٹ میں آیا۔ اس سے پہلے قرة العین حیدر کا ”آگ کا دریا“ کئی طرح سے زیر بحث تھااور اس کی گونج ہر طرف پھیل چکی تھی۔ ” اداس نسلیں“کے لیے یہ اچھی ٹائمنگ تھی۔ اس نے اس گونج میں اپنی گونج شامل کردی اور جدید ناول اردو ادب کی روایت میں شامل ہوگیا۔ ”اداس نسلیں “ میں کچھ صفحات قرةالعین حیدر کے اسلوب میں لکھے گئے۔ ایک انٹرویو میں جب میں نے یہ سوال کیاتو عبداللہ حسین نے تسلیم کیا کہ انہوں نے ایسا اپنے سے بڑے ناول نگار کو خراج ِ تحسین پیش کرنے کے لیے جان بوجھ کر کیا ہے۔
عبداللہ حسین کی شادی ڈاکٹر فرحت سے ہوئی۔ غالباََ ہسپتال میں وہ ان کی معالج تھیں۔ شادی کے بعد علی اور نور فاطمہ دنیا میں آئے۔ عبداللہ حسین سے نباہ کرنا آسان نہیں تھا۔ وہ اپنی ترجیحات پر زندگی گزارنے پر بضد رہے۔ اس لیے بیٹی نے انہیں آخر تک سنبھالا۔ وہ دوست بھی تھیں، بیٹی بھی اور بقول نور فاطمہ انہوں نے ماں کا کرداربھی اپنے والد کے لیے ادا کیا۔ تنہا ئیوں کا یہ سفر جاری رہا۔ عبداللہ حسین نے ”اداس نسلیں“ کے بعد ”باگھ“ ”قید“ اور ”واپسی کا سفر“ تین ناولٹ لکھے۔ ”باگھ“ انہیں بہت پسند تھا۔ اس دوران انگلینڈ بیٹی کے پاس چلے گئے۔ یہ ایک اور دنیا کا سفر تھا۔ یہاں انہوں نے ایک پب (Pub) خرید لیا اور اسے چلانے لگے۔ انگلستان کے کلچر میں پب کو جو اہمیت حاصل ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ گوروں کی تہذیبی اور ثقافتی تربیت میں اس کا حصہ ہوتاہے۔ ہمارے پنجابی شاعر نے ایسے تو نہیں کہا تھا۔
’عمراں لنگھیاں پباں بھار ‘
عبداللہ حسین نے یہاں دو تین سکھ دوست بنا لیے جو ان کے مستقل گاہک ہوتے تھے۔ جو لطیفوں اور پنجاب کی ثقافت سے انہیں محظوظ کرتے رہے۔ ویسے تو اس مقصد کے لیے انہیں ساقی فاروقی کا تعاون بھی حاصل تھا ۔ دونوں مشکل آدمی اور سوچئے دونوں کی خوب نبھی۔ کیونکہ میں اس کا گواہ ہوں۔ عبداللہ حسین بہت اچھے میزبان اور باورچی تھے۔ پلاﺅ غضب کا بناتے تھے۔ اس زمانے میں میرے لندن کے بہت پھیرے لگتے تھے۔ میں نے لندن میںتین سیریل لکھے۔ ساقی فاروقی مجھے لے کر ان کے ہاں جاتے تھے کیونکہ وہ لندن سے ذرا فاصلے پر رہتے تھے۔ سلاد بہت اچھا بناتے تھے۔ اس عرصے میں انہوں نے ایک انگریزی ناول اور ” اداس نسلیں“ کا انگریزی ترجمہ کیا۔جو شائع ہوئے۔ اس دوران ” نشیب“ بھی لکھا۔ پھر پاکستان آئے اور اپنے ناول ” نادار لوگ “ پر کام شروع کیا۔ یہ ایک بڑا پروجیکٹ تھا جس میں تحقیق کی ضرورت تھی۔ یہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کے پس منظر میںتھا۔ اس کے ساتھ ہی یہ ”اداس نسلیں“ کا پارٹ ٹو بھی تھا۔ پاکستان کی سیاسی اور سماجی زندگی کا منظر نامہ ’اداس نسلیں‘ میں جہاں رکا تھا’ نادار لوگ‘ میں اس سے آگے کا سفر تھا۔ اس کو لکھنے کے لیے پہلے کئی مہینے مغربی ناول نگاروں کی طرح مری کے پر سکون ماحول میں ایک دو مہینے رہائش اختیار کی۔ خود کھانا بناتے ، سیر کرتے اور لکھتے۔ پھر اسلام آباد میں اکادمی ادبیات کے گیسٹ ہاﺅس کے مکین رہے۔ یہاں ان کی خواہش پر میں نے ان کا ایک ویڈیو انٹرویو آرکائیوز کے لیے ریکارڈ کیا۔ ”نادار لوگ“ شائع ہوئی مگر ان بحثوں کو جنم نہ دے سکی جو ”اداس نسلیں“ کے نصیب میں تھیں۔ اکثر اس بات کا گلہ کرتے تھے کہ نقاد ’ نادار لوگ‘ پر بات نہیں کرتے۔ میں انہیں کہتا کہ بڑے لکھنے والے کا اپنے آپ سے مقابلہ ہوتا ہے۔ جیسے ’آگ کا دریا‘ نے عینی آپا کے باقی ناولوں کا راستہ روکا ایسے ہی آپ کے پہلے ناول نے آپ کا راستہ روکا ہوا ہے۔ اگرچہ’ نادار لوگ‘ میں سقوط ڈھاکہ سے متعلق فوج کے کردار کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اور بہت کھلا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ لیکن ایک طویل رپورٹ نے فکشن کا راستہ روکا ہے۔
انگلینڈ آتے جاتے رہے۔ اس دوران ان کے ناولٹ ” واپسی کا سفر“ پر بی بی سی نے فیچر فلم پروڈیوس کی۔ جس کا نامBrothers in Trouble رکھا گیا۔ یہ کہانی ان پاکستانیوں کی ہے جو انگلینڈ روزگار کمانے جاتے ہیںاور جب اس فلم کا سنٹرل لندن میں پریمیئر ہوا تو میں لندن میں اپنی سیریل ”آوازیں“ ریکارڈ کرنے کے لیے گیا ہوا تھا۔ عبداللہ حسین نے لاہور سے میرا نمبر لیا اور فون پر بتایا کہ کل صبح پہنچو۔ جنوری کی شدید سردی میں صبح میں تھیٹر ہال پہنچا۔ جہاں ڈائریکٹر کے ساتھ اداکار نصیر االدین شاہ موجود تھے۔ وہ اس زمانے میں اپنا تھیٹر کرنے گئے ہوئے تھے۔ عبداللہ حسین آئے تو فلم دیکھی گئی۔ فلم اچھی بنائی گئی تھی۔ عبداللہ حسین نے مجھ سے پوچھایہ کون ہے؟ کچھ دیکھا دیکھا سا لگ رہا ہے۔ میںنے بتایا یہ انڈیا کا بہت بڑا اداکار نصیر الدین شاہ ہے اور سو سے زیادہ فلموں میں بڑے اہم رول کر چکا ہے۔ چائے پر عبداللہ حسین نصیرالدین شاہ کے پاس گئے اور بتایا کہ میری کہانی پر فلم بنی ہے۔ وہ مل کر خوش ہوا ۔ ساتھ ہی عبداللہ صاحب نے اسے کہا۔ میں نے آپ کی کوئی فلم نہیں دیکھی لوگ کہتے ہیں آپ مشہور آدمی ہیں۔ اس لیے آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔
عبداللہ حسین سے نباہ کرنا مشکل تھا۔ جب انہیں غصہ آتا تھا وہ سامنے والے کی طبیعت صاف کر دیتے تھے۔ اور انہیں غصہ بغیر وجہ کے بھی آسکتا تھا۔ ایک بار مستنصر حسین تارڑ اور عطاءالحق قاسمی کی موجودگی میں بغیر کسی وجہ کے میری طبیعت صاف کردی۔ میں نے تارڑ صاحب سے کہا یہ تو کوئی اور آدمی ہے۔ انہوں نے کہا ایسا میرے ساتھ بھی ہو چکا ہے اور تمہارا کیا خیال ہے ان کی بیگم اور بیٹا الگ کیوں رہتے ہیں؟ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ غصہ محمد خان کو آتا تھا.... اور محمد خان اللہ کے پاس جا چکا ہے۔ عبداللہ حسین ہمارے پاس ہے اور عبداللہ حسین کو غصہ نہیں آتا۔
(اصغر ندیم سید)
محمد خان سے عبداللہ حسین کا سفر ایک جست میں طے ہوا۔” اداس نسلیں“کی اشاعت سے پہلے دو محمد خان مشہور تھے ایک محمد خان ڈاکو اور دوسرے کرنل محمد خان۔ دراصل تو دونوں کا پیشہ ایک ہی تھا اس لیے بقول عبداللہ حسین نام بدلنے کی تجویز پیش آئی اور اگلی جست میں نام عبداللہ حسین تجویز پا گیا۔ اپنے بچپن کا واقعہ سناتے تھے کہ ”ایک دن والد نے ڈانٹ ڈپٹ کر کہا کہ اگر تم نے انگریزی نہ پڑھی تو ریلوے کے قلی بنو گے۔ اس وقت تک میں نے قلی نہیں دیکھا تھا۔ ایک دن سٹیشن پر قلی نظر آیا اس نے خاکی نیکر اور سرخ قمیض پہن رکھی تھی۔ اسے دیکھ کر میں نے عہد کیا کہ زندگی میں نیکر نہیں پہنوں گا“۔ گجرات سے تعلیم پاکر بی ایس سی انجینئرنگ کرنے کے بعد عبداللہ حسین داﺅد خیل کی ایک سیمنٹ فیکٹری میں کیمسٹ کی حیثیت سے ملازم ہوگئے۔ ”اداس نسلیں“کی تخلیق نے یہاں سے جنم لیا۔ کہتے تھے جب میں کام سے واپس آتا تھاتو چاروں طرف ایک سناٹا ہوتا تھا۔ شدید تنہائی نے پہلے پڑھنے اور پھر لکھنے کی ترغیب دی۔ تنہائی دور کرنے کے لیے لکھنا شروع کر دیا۔ سوچا کچھ تھا، لکھ کچھ اور گیا۔ ہر بڑے ناول کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔
”اداس نسلیں“ کا مسودہ ” نیا ادارہ“ نے تین لوگوں سے پڑھوایا۔ ان میں حنیف رائے، شیخ صلاح الدین اور محمد سلیم الرحمن جیسے جید عالم اور پارکھ شامل تھے۔ عبداللہ حسین کا ناول تو پاس ہو گیا۔ وہ پاس نہ ہوئے۔ کہا گیا ناول سے پہلے دو ایک کہانیاں لکھیں۔جس سے مارکیٹ میں مصنف کا تعارف ہو جائے۔ سو دو کہانیاں ”سمندر“ اور ”ندی“ لکھی گئیں اور قارئین نے پسند کیں تو ناول مارکیٹ میں آیا۔ اس سے پہلے قرة العین حیدر کا ”آگ کا دریا“ کئی طرح سے زیر بحث تھااور اس کی گونج ہر طرف پھیل چکی تھی۔ ” اداس نسلیں“کے لیے یہ اچھی ٹائمنگ تھی۔ اس نے اس گونج میں اپنی گونج شامل کردی اور جدید ناول اردو ادب کی روایت میں شامل ہوگیا۔ ”اداس نسلیں “ میں کچھ صفحات قرةالعین حیدر کے اسلوب میں لکھے گئے۔ ایک انٹرویو میں جب میں نے یہ سوال کیاتو عبداللہ حسین نے تسلیم کیا کہ انہوں نے ایسا اپنے سے بڑے ناول نگار کو خراج ِ تحسین پیش کرنے کے لیے جان بوجھ کر کیا ہے۔
عبداللہ حسین کی شادی ڈاکٹر فرحت سے ہوئی۔ غالباََ ہسپتال میں وہ ان کی معالج تھیں۔ شادی کے بعد علی اور نور فاطمہ دنیا میں آئے۔ عبداللہ حسین سے نباہ کرنا آسان نہیں تھا۔ وہ اپنی ترجیحات پر زندگی گزارنے پر بضد رہے۔ اس لیے بیٹی نے انہیں آخر تک سنبھالا۔ وہ دوست بھی تھیں، بیٹی بھی اور بقول نور فاطمہ انہوں نے ماں کا کرداربھی اپنے والد کے لیے ادا کیا۔ تنہا ئیوں کا یہ سفر جاری رہا۔ عبداللہ حسین نے ”اداس نسلیں“ کے بعد ”باگھ“ ”قید“ اور ”واپسی کا سفر“ تین ناولٹ لکھے۔ ”باگھ“ انہیں بہت پسند تھا۔ اس دوران انگلینڈ بیٹی کے پاس چلے گئے۔ یہ ایک اور دنیا کا سفر تھا۔ یہاں انہوں نے ایک پب (Pub) خرید لیا اور اسے چلانے لگے۔ انگلستان کے کلچر میں پب کو جو اہمیت حاصل ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ گوروں کی تہذیبی اور ثقافتی تربیت میں اس کا حصہ ہوتاہے۔ ہمارے پنجابی شاعر نے ایسے تو نہیں کہا تھا۔
’عمراں لنگھیاں پباں بھار ‘
عبداللہ حسین نے یہاں دو تین سکھ دوست بنا لیے جو ان کے مستقل گاہک ہوتے تھے۔ جو لطیفوں اور پنجاب کی ثقافت سے انہیں محظوظ کرتے رہے۔ ویسے تو اس مقصد کے لیے انہیں ساقی فاروقی کا تعاون بھی حاصل تھا ۔ دونوں مشکل آدمی اور سوچئے دونوں کی خوب نبھی۔ کیونکہ میں اس کا گواہ ہوں۔ عبداللہ حسین بہت اچھے میزبان اور باورچی تھے۔ پلاﺅ غضب کا بناتے تھے۔ اس زمانے میں میرے لندن کے بہت پھیرے لگتے تھے۔ میں نے لندن میںتین سیریل لکھے۔ ساقی فاروقی مجھے لے کر ان کے ہاں جاتے تھے کیونکہ وہ لندن سے ذرا فاصلے پر رہتے تھے۔ سلاد بہت اچھا بناتے تھے۔ اس عرصے میں انہوں نے ایک انگریزی ناول اور ” اداس نسلیں“ کا انگریزی ترجمہ کیا۔جو شائع ہوئے۔ اس دوران ” نشیب“ بھی لکھا۔ پھر پاکستان آئے اور اپنے ناول ” نادار لوگ “ پر کام شروع کیا۔ یہ ایک بڑا پروجیکٹ تھا جس میں تحقیق کی ضرورت تھی۔ یہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کے پس منظر میںتھا۔ اس کے ساتھ ہی یہ ”اداس نسلیں“ کا پارٹ ٹو بھی تھا۔ پاکستان کی سیاسی اور سماجی زندگی کا منظر نامہ ’اداس نسلیں‘ میں جہاں رکا تھا’ نادار لوگ‘ میں اس سے آگے کا سفر تھا۔ اس کو لکھنے کے لیے پہلے کئی مہینے مغربی ناول نگاروں کی طرح مری کے پر سکون ماحول میں ایک دو مہینے رہائش اختیار کی۔ خود کھانا بناتے ، سیر کرتے اور لکھتے۔ پھر اسلام آباد میں اکادمی ادبیات کے گیسٹ ہاﺅس کے مکین رہے۔ یہاں ان کی خواہش پر میں نے ان کا ایک ویڈیو انٹرویو آرکائیوز کے لیے ریکارڈ کیا۔ ”نادار لوگ“ شائع ہوئی مگر ان بحثوں کو جنم نہ دے سکی جو ”اداس نسلیں“ کے نصیب میں تھیں۔ اکثر اس بات کا گلہ کرتے تھے کہ نقاد ’ نادار لوگ‘ پر بات نہیں کرتے۔ میں انہیں کہتا کہ بڑے لکھنے والے کا اپنے آپ سے مقابلہ ہوتا ہے۔ جیسے ’آگ کا دریا‘ نے عینی آپا کے باقی ناولوں کا راستہ روکا ایسے ہی آپ کے پہلے ناول نے آپ کا راستہ روکا ہوا ہے۔ اگرچہ’ نادار لوگ‘ میں سقوط ڈھاکہ سے متعلق فوج کے کردار کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اور بہت کھلا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ لیکن ایک طویل رپورٹ نے فکشن کا راستہ روکا ہے۔
انگلینڈ آتے جاتے رہے۔ اس دوران ان کے ناولٹ ” واپسی کا سفر“ پر بی بی سی نے فیچر فلم پروڈیوس کی۔ جس کا نامBrothers in Trouble رکھا گیا۔ یہ کہانی ان پاکستانیوں کی ہے جو انگلینڈ روزگار کمانے جاتے ہیںاور جب اس فلم کا سنٹرل لندن میں پریمیئر ہوا تو میں لندن میں اپنی سیریل ”آوازیں“ ریکارڈ کرنے کے لیے گیا ہوا تھا۔ عبداللہ حسین نے لاہور سے میرا نمبر لیا اور فون پر بتایا کہ کل صبح پہنچو۔ جنوری کی شدید سردی میں صبح میں تھیٹر ہال پہنچا۔ جہاں ڈائریکٹر کے ساتھ اداکار نصیر االدین شاہ موجود تھے۔ وہ اس زمانے میں اپنا تھیٹر کرنے گئے ہوئے تھے۔ عبداللہ حسین آئے تو فلم دیکھی گئی۔ فلم اچھی بنائی گئی تھی۔ عبداللہ حسین نے مجھ سے پوچھایہ کون ہے؟ کچھ دیکھا دیکھا سا لگ رہا ہے۔ میںنے بتایا یہ انڈیا کا بہت بڑا اداکار نصیر الدین شاہ ہے اور سو سے زیادہ فلموں میں بڑے اہم رول کر چکا ہے۔ چائے پر عبداللہ حسین نصیرالدین شاہ کے پاس گئے اور بتایا کہ میری کہانی پر فلم بنی ہے۔ وہ مل کر خوش ہوا ۔ ساتھ ہی عبداللہ صاحب نے اسے کہا۔ میں نے آپ کی کوئی فلم نہیں دیکھی لوگ کہتے ہیں آپ مشہور آدمی ہیں۔ اس لیے آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔
عبداللہ حسین سے نباہ کرنا مشکل تھا۔ جب انہیں غصہ آتا تھا وہ سامنے والے کی طبیعت صاف کر دیتے تھے۔ اور انہیں غصہ بغیر وجہ کے بھی آسکتا تھا۔ ایک بار مستنصر حسین تارڑ اور عطاءالحق قاسمی کی موجودگی میں بغیر کسی وجہ کے میری طبیعت صاف کردی۔ میں نے تارڑ صاحب سے کہا یہ تو کوئی اور آدمی ہے۔ انہوں نے کہا ایسا میرے ساتھ بھی ہو چکا ہے اور تمہارا کیا خیال ہے ان کی بیگم اور بیٹا الگ کیوں رہتے ہیں؟ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ غصہ محمد خان کو آتا تھا.... اور محمد خان اللہ کے پاس جا چکا ہے۔ عبداللہ حسین ہمارے پاس ہے اور عبداللہ حسین کو غصہ نہیں آتا۔
(اصغر ندیم سید)

0 comments so far,add yours