"ان دنوں لاہور کی راتیں جاگتی تھیں، جہاں اب نئی آبادیاں بس گئی ہیں وہاں ہرے بھرے جنگل تھے- واپڈا ہاؤس کی جگہ میٹرو ہوٹل تھا جہاں رات گئے تک شہر کے زندہ دل جمع ہوتے تھے- اسمبلی کے سامنے ملکہ کے بت کے چاروں طرف درختوں کی سبھا تھی جو دائرے بنا کر رات بھر ناچتے تھے اور آتے جاتے مسافروں کو اپنی چھاؤں میں لوریاں دے دے کر سلاتے تھے- سڑکوں پر کوئی کوئی موٹر نظر آتی تھی- تانگے تھے، اور پیدل چلنے والی مخلوق......... نہ رائٹرز گلڈ تھی، نہ آدم جی اور داود پرائز تھے اور نہ غیر ملکی وظائف- جس طرح قیام پاکستان کے وقت سرکاری دفتروں میں جدید قسم کا آرائشی سامان نہ تھا- بس چند پنسلیں اور چند بے داغ کاغذ تھے ، اور بابائے قوم کا ذہن، اور پوری قوم کا عزم تھا- اسی طرح ادیبوں کے پاس نہ کاریں تھیں، نہ فرج اور ٹیلی ویژن سیٹ - نہ بڑے ہوٹلوں کے بل ادا کرنے کے لئے رقم تھی- ان کی جیب میں چند آنے اور ایک معمولی سا قلم ہوتا تھا اور ایک کاغذ پر تازہ تحریر ہوتی تھی ........

یار سب جمع ہوئے رات کی تاریکی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا .....!!

(ناصر کاظمی - "خشک چشمے کے کنارے" سے اقتباس)
 
 

0 comments so far,add yours