وہی منٹو جو ایک سگریٹ کی راکھ جھاڑنے سے پہلے کہانی جھاڑ کر اٹھ کھڑا
ہوتا تھا۔ جس کا کوئی بھی ریڈیو پلے، سکرین پلے آدھی بوتل کی مار تھا۔جس کے
حاسد بھی کہتے تھے کہ منٹو کے پیروں میں نہیں بلکہ قلم پر بلیاں بندھی
ہوئی ہیں۔
وہی منٹو میاں جنھیں اپنے قلم سے کشید کر کے پینے کی عادت تھی اور پھر اس کے بارے میں لکھنے کی،
اپنے افسانہ" کالی شلوار" میں لکھتا ہے کہ
سلطانہ ("کالی شلوار" کی مرکزی کردار) اداس ہے۔ شاید اِس لیئے اُداس ہے کہ بڑے شہر میں تنہا ہے۔ اپن
ا جسم بیچ کر زندہ ہے۔ بس اُسے ایک دھن ہے کہ کسی طرح ایک کالی شلوار مل جائے تو عزت سے عاشورہ تو ہو سکے۔
سلطانہ کو کالی شلوار ملی کہ نہ ملی پر منٹو کو عدالت کا فحاشی لکھنے پر نوٹس ضرور مل گیا
منٹو کمرہ عدالت میں چیختا رہا کہ اس زندہ لاش کی کہانی کو کوئی فحش کیسے سمجھ سکتا ہے۔ کون ہے جو اس کہانی کو پڑھ کر سوچے گا کہ کہیں سے سلطانہ جیسی بیسوا ڈھونڈ کر لاتا ہوں۔ بلاخر عدالت کو رحم آیا اور منٹو کو "کالی شلوار" کے مقدمے میں بری کردیا لیکن ایک سوال جو مقدمے کے دوران اگر پوچھ لیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا
"کہ منٹو میاں آپ بار بار شلوار میں کیوں گھستے ہیں۔"
کیونکہ جو بات شلوار سے شروع ہوئی تھی وہاں دبا دی جاتی تو " کھول دو" تک نہ جا پہنچتی ۔
مفکرِ پاکستان علامہ اقبال کے صاحبزادے ریٹائرڈ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے جب بدنام زمانہ افسانے " کھول دو " کے بارے میں منٹو سے گفتگو کے درمیان پوچھا کہ کہانی پڑھ کر کسی مسلمان نوجوان کے ذہن میں یہ خیال آجائے کہ وہ بھی فسادات میں کسی اغوا ہونے والی لڑکی پر ہاتھ صاف کرلے تو اس کی ذمےداری کس پر ہوگی۔ اور پھر جسٹس صاحب نے فرمایا کہ کوئی مثبت پیغام دینے کے لیے کسی ایسے مسلمان نوجوان کا کردار بھی کہانی میں دکھا دیتے جو آپ کی کہانی کی مظلوم سکینہ کو بچانے کی کوشش کرے۔
تو منٹو نے منہ بنا کر جواب دیا کہ ایسا کرنے سے ہماری کہانی کا پلاٹ خراب ہوتا تھا ۔
اور تو اور
منٹو میاں تو اپنے خالق سے بھی مقابلہ کرنے بیٹھ گئے خود کہہ گئے تھے کہ میرے کتبے پر لکھا جائے
" کہ یہاں منٹو دفن ہے اور ابھی تک سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا۔"
وہ تو بھلا ہو تمہارے لواحقین کا منٹو جنہوں نے تمہاری بات نہ مانی ۔ انہوں نے اچھا کیا کہ غالب کے مصرعے کا حوالہ دیا کہ
" یہ سعادت حسن منٹو کی قبر ہے جو اب بھی سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں تھا۔"
اچھا ہوا کہ غالب کا لکھا باقی لوگوں کی طرح ججوں کو بھی سمجھ نہیں آیا ۔ ورنہ تمہاری قبر کا کتبہ بھی کسی جج کے کٹہرے میں پایا جاتا
وہی منٹو میاں جنھیں اپنے قلم سے کشید کر کے پینے کی عادت تھی اور پھر اس کے بارے میں لکھنے کی،
اپنے افسانہ" کالی شلوار" میں لکھتا ہے کہ
سلطانہ ("کالی شلوار" کی مرکزی کردار) اداس ہے۔ شاید اِس لیئے اُداس ہے کہ بڑے شہر میں تنہا ہے۔ اپن
ا جسم بیچ کر زندہ ہے۔ بس اُسے ایک دھن ہے کہ کسی طرح ایک کالی شلوار مل جائے تو عزت سے عاشورہ تو ہو سکے۔
سلطانہ کو کالی شلوار ملی کہ نہ ملی پر منٹو کو عدالت کا فحاشی لکھنے پر نوٹس ضرور مل گیا
منٹو کمرہ عدالت میں چیختا رہا کہ اس زندہ لاش کی کہانی کو کوئی فحش کیسے سمجھ سکتا ہے۔ کون ہے جو اس کہانی کو پڑھ کر سوچے گا کہ کہیں سے سلطانہ جیسی بیسوا ڈھونڈ کر لاتا ہوں۔ بلاخر عدالت کو رحم آیا اور منٹو کو "کالی شلوار" کے مقدمے میں بری کردیا لیکن ایک سوال جو مقدمے کے دوران اگر پوچھ لیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا
"کہ منٹو میاں آپ بار بار شلوار میں کیوں گھستے ہیں۔"
کیونکہ جو بات شلوار سے شروع ہوئی تھی وہاں دبا دی جاتی تو " کھول دو" تک نہ جا پہنچتی ۔
مفکرِ پاکستان علامہ اقبال کے صاحبزادے ریٹائرڈ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے جب بدنام زمانہ افسانے " کھول دو " کے بارے میں منٹو سے گفتگو کے درمیان پوچھا کہ کہانی پڑھ کر کسی مسلمان نوجوان کے ذہن میں یہ خیال آجائے کہ وہ بھی فسادات میں کسی اغوا ہونے والی لڑکی پر ہاتھ صاف کرلے تو اس کی ذمےداری کس پر ہوگی۔ اور پھر جسٹس صاحب نے فرمایا کہ کوئی مثبت پیغام دینے کے لیے کسی ایسے مسلمان نوجوان کا کردار بھی کہانی میں دکھا دیتے جو آپ کی کہانی کی مظلوم سکینہ کو بچانے کی کوشش کرے۔
تو منٹو نے منہ بنا کر جواب دیا کہ ایسا کرنے سے ہماری کہانی کا پلاٹ خراب ہوتا تھا ۔
اور تو اور
منٹو میاں تو اپنے خالق سے بھی مقابلہ کرنے بیٹھ گئے خود کہہ گئے تھے کہ میرے کتبے پر لکھا جائے
" کہ یہاں منٹو دفن ہے اور ابھی تک سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا۔"
وہ تو بھلا ہو تمہارے لواحقین کا منٹو جنہوں نے تمہاری بات نہ مانی ۔ انہوں نے اچھا کیا کہ غالب کے مصرعے کا حوالہ دیا کہ
" یہ سعادت حسن منٹو کی قبر ہے جو اب بھی سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں تھا۔"
اچھا ہوا کہ غالب کا لکھا باقی لوگوں کی طرح ججوں کو بھی سمجھ نہیں آیا ۔ ورنہ تمہاری قبر کا کتبہ بھی کسی جج کے کٹہرے میں پایا جاتا

0 comments so far,add yours