یہاں تک کہ 1957ء میں جب اکادمی کا ایوارڈ ملا فون پر خبر سنتے ہی سر سے پاؤں تک میں جھلسی گئی . . . . . . خدایا ! یہ سنہیڑے میں نے کسی انعام کے لیے تو نہ لکھے تھے جس کے لیے لکھے تھے اس نے نہ پڑھے اب کل عالم بھی پڑح لے تو مجھ کو کیا . . . . . اس روز شام کے وقت ایک پریس نے رپورٹر بھیجا، فوٹو گرافر بھی وہ جب تصویر لینے لگا اس نے کاغذ اور قلم کے ذریعیے وہ لمحہ گرفت میں لینا چاہا جو کسی نظم کا وقت تصنیف ہوتا ہے میں نے سامنے میز پر کاغذ رکھا اور ہاتھ میں قلم پکڑ کر کاغذ پر نظم لکھنے کے بجائے . . . . . . . . ایک بے خودی کے عالم سے میں اس کا نام لکھنے لگ گئی جس کے لیے وہ سنہیڑے لکھے تھے . . . . . . ساحر . . . ساحر . . . . . سارا کاغذ بھر گیا پریس کے لوگ چلے گئے تو اکیلی بیٹھی کو ہوش سی لوٹی . . . . صبح کو اخبار میں تصویر نکلے گی تو میز کے کاغذ پر یہ ساحر، ساحر کی گردان . . . . . اوہ خدایا! مجنوں کے لیلیٰ لیلیٰ پکارنے والی حالت میں نے اس روز اپنے جسم میں بتائی یہ علیحدہ بات ہے کہ کیمرہ کا فوکس میرے ہاتھ کے اوپر تھا کاغذ پر نہیں اس لیے دوسرے دن کے اخبار میں نے کاغذ پر سے کچھ نہیں پڑھا جا سکتا تھا (کچھ نہیں تھا پڑھا جا سکتا، اس بات کی تسلی کے بعد ایک درد بھی اس میں شامل ہو گیا . . . . . کاغذ خالی دکھائی دیتا ہے . . . . . لیکن خدا جانتا ہے کہ یہ خالی نہیں)
(امرتا پریتم کی خودنوشت رسیدی ٹکٹ سے اقتباس صفحہ نمبر 22)

0 comments so far,add yours