میں ادیب تو نہیں لیکن ادب دوست ضرور ہوں اور اسی حوالے سے لاہور میں اپنے پندرہ سولہ سالہ قیام کے دوران مجھے کئ خوشبودار ادیبوں اور شاعروں سے نیاز حاصل کرنے کا موقع ملا ان میں پروفیسر وقار عظیم، ڈاکٹر عبداللہ، ڈاکٹر عبادت بریلوی، سعادت حسن منٹو، احسان دانش، اے حمید، ناصر کاظمی، حبیب جالب، احمد راہی، منیر نیازی، احمد فراز، ظہیر کاشمیری اور بیسیوں دوسرے نثر نگار اور شاعر شامل ہیں

جہاں تک سعادت حسن منٹو کا تعلق ہے اردو کے اس افسانہ نگار کی عظمت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ قدرت نے جس شخص کو اس دنیا میں پچاس برس رہنے کا بھی موقع نہ دیا ہو، آج ہم اس کی سویں سالگرہ منا رہے ہیں کسی نے سچ کہا ہے کہ منٹو جیسے لوگ کبھی نہیں مرتے وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں

سعادت حسن منٹو کے ادبی محاسن پر تو اس محفل میں شریک اہل علم اور ادب کے نقاد کچھ روشنی ڈال چکے ہیں اور کچھ اس بات کو اور آگے بڑھائیں گے میں صرف ان کی ذات کے حوالے سے کچھ یادیں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گا

منٹو صاحب سے میری زیادہ تر ملاقاتیں 1950ء کی دہائی میں رسالہ "نقوش" کے مالک، مدیر اور پبلشرز اور محمد طفیل مرحوم کی انارکلی بازار کی ذیلی سڑک ایبک روڈ پر واقع کتابوں کی دکان ادارہء فروغ اردو میں ہوئیں جہاں وہ دوسرے شاعروں اور ادیبوں کی طرح اکثر آیا کرتے تھے یہ صاف ستھرا، اجلا اور خوبصورت جوان رعنا پہلی ہی ملاقات میں میرے دل کو بھا گیا تھا لیکن اسے پہلی ملاقات کہنا شاید درست نہ ہو میں نے پاکستان ہجرت سے بہت پہلے منٹو کے افسانے پڑھ رکھے تھے اور ان کی بے باکی، صاف گوئی اور منافقت سے پاک، بےریا انداز بیان کے طلسم میں گرفتار تھا اس حوالے سے دیکھیں تو ایک تصوراتی منٹو کو گوشت پوست والے ایک انسان کی شکل میں دیکھنا کوئی زیادہ خوش گوار تجربہ نہ تھا پھر ایک دھچکا یوں بھی لگا کہ میں اردو بولتا اور منٹو اور کرشن چندر کے اردو افسانے پڑھتا ہوا لاہور پہنچا تھا جہاں منٹو صاحب کو میں نے پنجابی بولتے ہوۓ سنا لیکن اسے ان کے یا میرے کسی لسانی تعصب پر محمول نہ کیجئے وہ اردو بولنے والوں سے اردو ہی میں بات کرتے تھے جیسا کہ میں نے اس گفتگو میں کہا ہے کہ میں نے پہلی ملاقات میں انہیں ایک صاف ستھرا، اجلا اور بے ریا انسان پایا تو میں آج بھی اس پر قائم ہوں

یہ اجلاپن ان کے اپنے سفید اور بے داغ کرتے پاجامے یا شلوار سے ہی نہیں جو ان کا مستقل پہناوا تھا یا اپنے صاف کھلتے ہوۓ رنگ سے جو ان کی رگوں میں دوڑنے والے کشمیری خون کی دین تھا نہیں آیا تھا یہ ان کی سوچ کے اجلے پن کا پرتو تھا جو ان کی پوری شخصیت کا حصہ بن چکا تھا

مجھے یاد نہیں کہ بمبئ کی فلمی دنیا کے ساتھ ان کے تجربات کیا رہے لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ پاکستان آ کر وہ مالی مشکلات کا شکار ہو گۓ تھے وہ اکثر ریگل چوک کے قریب واقع لکشمی مینشن کے ایک اپارٹمنٹ سے تانگے پر "نقوش" کے دفتر اس شان سے آتے تھے کہ خود تانگے کی اگلی نشست پر بیٹھے ہوۓ اور تانگے والا پچھلی سیٹ پر اوندھا لیٹا تانگہ چلا رہا ہوتا تھا منٹو صاحب محمد طفیل کے پاس آتے اور ان سے پچیس روپے لے جاتے ایک دن طفیل صاحب نے ان سے معذرت کرنی چاہی تو منٹو صاحب نے کہا کہ آج تم مجھے 25 روپے دے دو کل سے میں روز آ کر تمہیں ایک افسانہ لکھ دوں گا طفیل صاحب اب انہیں منع نہیں کر سکے اگلے دن وہ آۓ اور ایک گھنٹے میں ایک افسانہ لکھ کر 25 روپے لے کر چلے گۓ پھر یہ سلسلہ اگلے کئ روز تک پابندی سے چلتا رہا ایک دن منٹو صاحب نے کہا آج میں افسانہ نہیں لکھ سکوں گا لیکن تم مجھے 25 روپے دے دو میں کل آ کر تمہیں دو افسانے لکھ دوں گا اگلے دن انہوں نے یہ وعدہ بھی پورا کر دیا

اسی دوران یہ بھی ہوا کہ ایک دن منٹو صاحب جو بہت اچھے موڈ میں تھے کہنے لگے کہ پورے ہندوستان اور پاکستان میں مجھ سے بڑا افسانہ نگار کوئی نہیں، مجھ سمیت جو دو تین لوگ وہاں موجود تھے سب نے ان کی تائید کر دی اس پر انہوں نے برصغیر کے تین چار نامور افسانہ نگاروں کے نام لۓ اور کہا کہ ان سب کو بلاؤ اور میرے ساتھ بٹھاؤ.....وہ بھی لکھیں اور میں بھی لکھوں.....تب صحیح فیصلہ ہو گا اس پر خاموشی طاری ہو گئ

منٹو صاحب نے اپنا رائٹنگ پیڈ میری طرف بڑھا دیا اور کہا کہ آپ اس پر کچھ بھی لکھ دیں.....اور دیکھیں میں کتنا بڑا افسانہ نگار ہوں میں نے گھبرا کر معذرت کرنی چاہی تو وہ مصر ہو گۓ اور پیڈ میرے ہاتھوں میں پکڑا دیا منٹو صاحب کے رائٹنگ پیڈ میں چار پانچ فل سکیپ سادہ کاغذ ہوتے تھے اور وہ ربڑ لگی ہوئی پینسل سے لکھتے تھے ان کا خط بڑا پاکیزہ تھا وہ اپنا لکھا ہوا کوئی لفظ یا فقرہ کاٹتے نہیں تھے اسے ربڑ سے مٹا دیتے تھے
جب ان کا اصرار ضد کی حد تک بڑھ گیا تو میں نے منٹو صاحب کی "سہولت" کے لۓ یہ جملہ لکھ دیا کہ "اس لڑکی کے جسم میں مجھے اس کی آنکھیں سب سے زیادہ پسند تھیں"
منٹو صاحب نے پیڈ میرے ہاتھوں سے لیا جملہ پڑھا اور کہا "اچھا"
ایک منٹ بعد انہوں نے پیڈ اپنے زانو پر رکھ کر لکھنا شروع کر دیا دس منٹ تک لکھتے رہے پھر سر اٹھایا..... کچھ سوچا اور دوبارہ لکھنے لگے یہ افسانہ 35 یا 40 منٹ میں مکمل ہو گیا انہوں نے پھر پیڈ میری طرف بڑھایا اور کہنے لگے اسے پڑھ لیجۓ
میں فارغ ہوا تو وہ کہنے لگے آپ نے مجھے بڑی مشکل میں ڈال دیا میری حیرانی بھانپ کر انہوں نے کہا میں افسانہ کبھی "First Person" میں نہیں لکھتا لیکن آپ نے پہلا لفظ "میں" لکھ دیا تھا اس لۓ مجبورا" مجھے لکھنا پڑا.....اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ "First Person" میں افسانہ لکھنے پر میری بیوی مجھ سے لڑ پڑے گی

یوں مجھے اس عظیم افسانہ نگار کے ایک افسانے کا پہلا جملہ لکھنے کا اعزاز تو حاصل ہو گیا لیکن میں شرمندہ بھی ہوا کہ منٹو کے اتنے افسانے پڑھنے کے بعد بھی مجھے ان کی اس کمزوری یا خوبی کا اندازہ نہیں ہوا تھا اس افسانے کا عنوان ہی "آنکھیں" رکھا گیا

محمد طفیل صاحب سے منٹو کی اس Deal کے تحت لکھے جانے والے بارہ یا چودہ افسانے ایک الگ کتاب کی شکل میں شائع ہوۓ جن کا معاوضہ انہیں تین یا ساڑھے تین سو روپے ادا کیا گیا تھا جس میں سے کم از کم آدھے تو تانگے والے کے حصے میں آۓ ہوں گے

میں نے جس افسانے کا حوالہ دیا ہے اس کا تذکرہ اسد اللہ نے اپنی کتاب "منٹو میرا دوست" میں بھی کیا ہے وہ اس واردات کے وقت وہاں موجود تھے منٹو صاحب نے کسی اور کے لکھے ہوۓ جملے پر صرف ایک منٹ غور کیا تھا جس کے بعد یہ افسانہ تخلیق کیا اس میں منٹو صاحب ہر روز ایک لڑکی کو اپنے چھوٹے بھائی کا ہاتھ پکڑے سڑک پر چلتے دیکھتے ہیں اور اسے پسند کرنے لگتے ہیں افسانے کا موڑ آخر میں اس آتا ہے کہ انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہ لڑکی تو بینائی سے محروم ہے سعادت حسن منٹو کو سویں سالگرہ مبارک ہو
(فرہاد زیدی)


0 comments so far,add yours