قاسمی صاحب کو میں نے پہلی بار دیکھا تو مجھے بحری ڈاکو لگے جو جمیکا کے سمندروں میں اپنے جہازڈبونے کے بعد تائب ہو کر لاہور ٓ گیا ہو۔ گال پر زخم کا لمبا سا نشان، گھنی گھنی بھنوئیں، گھنے سیاہ بال، چوڑی ہڈی اور بھاری بھرکم ہاتھ۔صرف کانوں میں سنہری مندریاں اور سر پر سرخ رومال نہیں تھا پھر بھی میں نے انہیں خیال ہی خیال میں جہاز کے مستول سے تلوار لہراتے اترتے دیکھا۔ ،،چوپال،، کے افسانے میں نے نئے نئے پڑھے تھے اور نیلی کالی راتوں میں دریائے جہلم پر میں کشتی میں سیریں کیا کرتا تھا۔

یہ تقسیم سے پہلے کی بات ہے۔میں لاہور کی فیروز پور روڈ سے گزر رہا تھا کہ کسی نے مجھے آواز دی۔
وہ ہیں احمد ندیم قاسمی۔
قاسمی صاحب سوٹ میں ملبوس تھے اور نہر کے پل کی طرف جا رہے تھے۔ قد کاٹھ سے وہ بالکل ادیب یا شاعر نہیں لگ رہے تھے۔ بس مجھے تو کیپٹن دی کڈ، مشہور بحری قزاق یاد آ گیا جس نے لاہور میں آ کر سوٹ پہن کر نکٹائی لگالی ہو اور شریفانہ زندگی بسر کرنی شروع کر دی ہو۔ قاسمی صاحب کی شرافت ان کی شاعری اور افسانوں سے زیادہ مشہور ہے اور کوئی کافر ہی ان کی شرافت سے انکار کر سکتا ہے۔ شاید ایک آدھ کافر ایسا ہو کیونکہ میرے خیال میں ایک آدھ کافر ایسا ہونا چاہئے۔ اس قسم کے کافروں کا وجود بہت ضرری ہے جو ہماری شرافت سے انکار کریں۔ بعض لوگ قاسمی صاحب کی شرافت اور وضع داری سے چڑتے بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ظاہر داری ہے۔ قاسمی صاحب نے ایک خول چڑھا رکھا ہے۔ اندر سے وہ کچھ اور ہیں۔ لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہے کیونکہ سعادت حسن منٹو ایسا تیز افسانہ نگار بھی قاسمی صاحب کی شرافت کا قائل تھا۔ قاسمی صاحب انسان سے پیار کرتے ہیں۔ وہ کسی کو دکھی نہیں دیکھ سکتے۔ میں نے انہیں کئی دکھی لوگوں کی مدد کرتے دیکھا ہے۔

میری شادی کی بات شروع ہوئی تو گھر والوں نے اختلاف کیا۔ وہی پرانی روایات کہ شادی غیر کشمیری گھرانے میں نہیں ہونی چاہئے اور پھر محبت کی شادی؟ میں نے قاسمی صاحب سے بات کی تو انہوں نے کہا۔
"فکر کی کیا بات ہے۔ میں پیغام لے کر لڑکی والوں کے گھر جاتا ہوں"
چنانچہ میں قاسمی صاحب کا ممنون ہوں کہ وہ بزرگ بن کر لڑکی والوں کے ہاں میری شادی یا پیغام لے کر گئے۔ لڑکی والوں کے ہاں سے واپس آئے تو قاسمی صاحب مجھے دیکھ کر مسکرائے۔ ان کی مسکراہٹ میں بڑی شرات اور کامیابی تھی۔ میں ان سے لپٹ گیا۔ انہوں نے انار کلی کے ممتاز ہوٹل میں مجھے چائے پلائی، تھری کیسل کے سگریٹ پیش کئے اور زندگی کو بڑی سمجھداری اور سوچ سمجھ کر بسر کرنے کی تلقین کی۔

صحت کے معاملے میں قاسمی صاحب کافی سخت جان ہیں۔ ورثے میں انہیں ایک مضبوط معدہ ملا ہے۔ میرا خیال ہے کہ لکڑ پتھر سب ہضم کر جاتے ہیں۔ ایک عرصے سے میں انہیں ویسے کا ویسا دیکھ رہا ہوں۔ اب کہیں جا کر ان کے بال سفید ہونا شروع ہوئے ہیں۔ ان کی کاٹھی مضبوط ہے اور وہ ابھی ایک ہزار برس زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔خدا ان کی عمر دراز کرے۔

انہوں نے رسالہ "فنون" نکالا تو دفتر انار کلی میں بنایا۔ ایک تنگ ٹھنڈی ڈیوڑھی گزر کر لمبی سیڑھیاں اوپر جاتی تھیں۔ ڈیوڑھی کے باہر ایک صاحب کپڑا بیچتے تھے۔ اُن سے آپ قاسمی صاحب کا ذرا سا نام لیں تو وہ آپ کو اوپر تک چھوڑنے آتے۔ وہ اس کام میں اتنے ماہر ہو گئے تھے کہ ایک مرتبہ اپنے ایک گاہک کو قاسمی صاحب کے پاس لے گئے۔ اُوپر جا کر بھید کھلا کہ وہ تو ان سے کپڑا خریدنے آیا تھا۔ فنون کے دفتر میں مہمانوں کو پیالیوں میں چائے دی جاتی تھی اور قاسمی صاحب کو ان کی اپنی پیالی میں۔ اسی طرح وہ پانی پینے کے لئے گلاس بھی اپنی دراز سے نکالتے تھے۔ چنانچہ وہاں بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے مجھے زندگی میں پہلی بار کچھ اس قسم کا احساس ہوا گویا میں اچھوت ہوں !!!

(اے حمید کی کتاب "چاند چہرے" سے قاسمی صاحب پر مضمون سے ایک انتخاب)
 
 

0 comments so far,add yours