سال ۲۰۱۲ء بھی گزر گیا۔ پچھلی صدی کو اس کے وسط میں منٹو جیسا تیسا چھوڑ
گیا تھا، ویسی ہی تاریک رہی، اور آنے والی صدی کا پہلا عشرہ ہی ہم نے اس سے
بھی زیادہ سیاہ اور تاریک تر بنا لیا۔ حبس پہلے سے سوا ہوتا گیا اور
کھڑکیاں ہوا بند ہی رہیں۔
منٹو “کھول دو، کھول دو!” چلاتا رہا لیکن ہم نے تازہ ہوا کو راستہ دینے کے دریچے وا کرنے کے بجائے، فسادات میں پامال ہوئی سہمی ہوئی سکینہ کی طرح اپنے ازار بند کھول ڈالے۔ حالات بدلنے سے بہت پہلے ہم نے اسے منٹو کا سال قرار دے دیا، دیر کرنے پر معذرت بھی کی،
لیکن منٹو کے لیے یہ ایک بہت قبل از وقت انتساب، بلکہ شاید ایک نہایت بھونڈے مذاق سے کم نہ ہو۔
پینسٹھ سال سے واہگہ پار سے کوئی جاتری، ایک پیر پر کھڑے بشن سنگھ کی خیر خبر لینے نہیں آیا۔ ہلالی شمشیروں نے کرپانوں اور ترشولوں کو تو بھگا دیا، مختون اور غیر مختون کے دنگے میں ایک رنگ کے لوگوں نے ختنے کو نشانی رکھ کے دوست دشمن کی پہچان کی اور چن چن مارا، لیکن پھر بدعت و رفع بدعت کے شور میں یہی امت مختون آپس میں وہ جھگڑی کہ اسی ہلالی شمشیر نے کبھی سیاہ کپڑے نشانی طے کی اور کبھی اخضری عمامے۔۔ پکڑ پکڑ مارا۔۔۔ یوں منٹو کی نصیباں ماری سلطانہ کی کالی شلوار، جان کے خوف سے کھونٹی پر ہی ٹنگی رہ گئی۔
وہ اب امام باڑے جانے کے تصور سے ہی ڈرتی ہے۔
منٹو کا سال۔۔ ایک سراسر معذرت خواہانہ اور کھسیانہ سا انتساب ہے احباب! اس برس ایسا کچھ نہیں تھا کہ جوپچھلے چونسٹھ برس سے ہٹ کر تھا۔ وہی پاگل خانہ ہے، وہی گنجے فرشتے اور ان کے ہاتھ میں مصالحت کی کنگھیاں ہیں۔ ویسا ہی خلق خدا پر بنامِ خدا تلواروں کا سونتنا۔۔ ویسا ہی خلوت کدوں میں مجبور کسبیوں کی شلواروں کا نوچنا۔۔ منٹو کے ساتھ ایک اور سرکاری مذاق! منٹو کا سال ابھی سالوں دور ہے، منٹو کی صدی ابھی صدیاں آگے ہے۔۔ شرمندہ باد!!۔
منٹو “کھول دو، کھول دو!” چلاتا رہا لیکن ہم نے تازہ ہوا کو راستہ دینے کے دریچے وا کرنے کے بجائے، فسادات میں پامال ہوئی سہمی ہوئی سکینہ کی طرح اپنے ازار بند کھول ڈالے۔ حالات بدلنے سے بہت پہلے ہم نے اسے منٹو کا سال قرار دے دیا، دیر کرنے پر معذرت بھی کی،
لیکن منٹو کے لیے یہ ایک بہت قبل از وقت انتساب، بلکہ شاید ایک نہایت بھونڈے مذاق سے کم نہ ہو۔
پینسٹھ سال سے واہگہ پار سے کوئی جاتری، ایک پیر پر کھڑے بشن سنگھ کی خیر خبر لینے نہیں آیا۔ ہلالی شمشیروں نے کرپانوں اور ترشولوں کو تو بھگا دیا، مختون اور غیر مختون کے دنگے میں ایک رنگ کے لوگوں نے ختنے کو نشانی رکھ کے دوست دشمن کی پہچان کی اور چن چن مارا، لیکن پھر بدعت و رفع بدعت کے شور میں یہی امت مختون آپس میں وہ جھگڑی کہ اسی ہلالی شمشیر نے کبھی سیاہ کپڑے نشانی طے کی اور کبھی اخضری عمامے۔۔ پکڑ پکڑ مارا۔۔۔ یوں منٹو کی نصیباں ماری سلطانہ کی کالی شلوار، جان کے خوف سے کھونٹی پر ہی ٹنگی رہ گئی۔
وہ اب امام باڑے جانے کے تصور سے ہی ڈرتی ہے۔
منٹو کا سال۔۔ ایک سراسر معذرت خواہانہ اور کھسیانہ سا انتساب ہے احباب! اس برس ایسا کچھ نہیں تھا کہ جوپچھلے چونسٹھ برس سے ہٹ کر تھا۔ وہی پاگل خانہ ہے، وہی گنجے فرشتے اور ان کے ہاتھ میں مصالحت کی کنگھیاں ہیں۔ ویسا ہی خلق خدا پر بنامِ خدا تلواروں کا سونتنا۔۔ ویسا ہی خلوت کدوں میں مجبور کسبیوں کی شلواروں کا نوچنا۔۔ منٹو کے ساتھ ایک اور سرکاری مذاق! منٹو کا سال ابھی سالوں دور ہے، منٹو کی صدی ابھی صدیاں آگے ہے۔۔ شرمندہ باد!!۔

0 comments so far,add yours