میں مارا جاؤں گا پہلے کسی فسانے میں
پھر اس کے بعد حقیقت میں مارا جاؤں گا

میاں منٹو تم بھی عجیب ہی تھے .................!!

اگرچہ تمہاری چند ہی تحریریں طوائفوں کے بارے میں ہیں لیکن جن لوگوں نے تمہارے بارے میں سن رکھا ہے وہ یہی سمجھتے ہوں گے کہ تم ساری عمر ایک ہاتھ میں ادھا پکڑے طوائفوں کے کوٹھوں میں جھانکتے رہتے تھے۔

عدلیہ جانتی ہے کہ بعض دفعہ کہانی لکھنے والے کو ایسی چیز کا ذکر کرنا پڑتا ہے جن کی اجازت ہمارا مذہب اور معاشرتی اقدار نہیں دیتیں۔ اگر ایک کہانی میں ایک آدھ حرام چیز کا ذکر ہو جائے تو شاید ہم برداشت بھی کر جائیں لیکن منٹو میاں تم ایک دفعہ شروع ہوتے ہو تو رکتے ہی نہیں

اوپر سے کہتے ہو

میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی ___ تو عدالت میں مارا جاؤں گا

اپنی بدنام زمانہ کہانی" ہتک" کو ہی لے لو۔ کہانی کے پہلے ہی حصے میں سوگندھی شراب بھی پی چکی ہے، مقامی داروغہ اس کی ہڈیاں بھی بھنبھوڑ چکا ہے۔ جو روپے اس کو اس جسمانی مشقت کے بدلے ملے تھے وہ اس نے اپنی چست چولی میں ٹھونس رکھے ہیں۔

اب ایسی چیزیں پڑھ کر کوئی اخلاقی سبق تو کیا حاصل کرے گا، اور یہ سب تم ہمیں کس لیے بتا رہے ہو؟ بقول تمہارے ویشیا کے کوٹھے پر ہم نماز یا درود پڑھنے تو نہیں جاتے، وہاں ہم اس لیے جاتے ہیں کہ وہاں جا کر ہم اپنی مطلوبہ جنس بے روک ٹوک خرید سکتے ہیں۔ لیکن منٹو میاں جس نے خریدنا ہے وہ خریدے اس کے بارے میں اتنے بیہودہ طریقے سے لکھنے کی ضرورت کیا ہے۔
میاں تم ہم لوگوں کو جانتے نہیں۔۔۔

کہ ہم کہاں کہاں سے کیسے کیسے لذت حاصل کر سکتے ہیں۔ تمہیں یاد ہے کہ ہتک کے آخر میں سوگندھی اداس ہے اور کتے کے ساتھ لپٹ کر سوجاتی ہے۔ کیا اس کہانی میں پہلے حرام چیزوں کی کمی تھی کہ آخر میں ایک حرام کتا بھی ڈال دیا اور لوگوں کے ذہنوں میں کیسے کیسے برے خیال آنے لگے۔

تم کہتے تھے

’کون ہے جو یہ تصویریں دیکھ کر لذت حاصل کرنے کے واسطے ان دیشاؤں کے کوٹھے پر جائے گا‘۔

ہاں بھئی آج کل طوائف ہوتی ہی کہاں ہے ۔ اب تو کوٹھوں کا زمانہ نہیں رہا، ہوم ڈلیوری کا کام جاری ہے۔ طوائف منگوانا ایسا ہی ہے جیسے گھر بیٹھے فون اٹھا کر چکن تکہ منگوالو۔

"منٹو" تم مر گے پر تمھارے افسانے زندہ ہو گے . کیا ہی اچھا ہوتا کے تم اپنے ساتھ اپنے افسانے بھی لے جاتے ،.
 
 

0 comments so far,add yours