جون
ایلیا کے ایک ھمدم و ھمراز بیان کرتے ھیں کہ ایک دفعہ رات کے ڈھائی بجے ان
کے پھاٹک پر گھنٹی بجی۔ وہ آنکھیں ملتے ھوئے پہنچے تو جون ایلیا کھڑے تھے۔
فرمایا جانی !! میں اس وقت پئے ھوئے نہیں ھوں۔ میں اس وقت رینجر بن کر بڑے بھائی (سید تقی صاحب) کو فون کرنا چاہتا ھوں۔جن سے انکا جائیداد کا جھگڑا تھا کہ یا تو جائیداد کے تقاسمے میں جون کے ساتھ زیادتی بند کرو ورنہ وغیرہ، وغیرہ۔
ان دنوں کراچی میں قتل و غارت کا زور تھا اور شہر میں رینجرز گشت کر رھے تھے۔ لوگ رینجرز سے بہت خوفزدہ تھے۔ دوست انہیں فون تک لے گیا، ان کے ہاتھ میں بیحد رعشہ تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ڈائل کے سوراخ یکے بعد دیگرے غلط طرف گھمائے۔ انہیں نمبر بھی یاد نہیں تھا۔
کہنے لگے جانی !! تمھارے فون کے سوراخ غلط جگہ بنے ھوئے ھیں۔ ھم نے سب ٹرائی کر کے دیکھ لیے ذرا تم فون ملا دو۔
دوست نے فون ملایا۔ جب بڑے بھائی صاحب جو روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر تھے، فون پر آ گئے تو جون نے کانپتے ھوئے ہاتھ سے ریسیور پکڑ کے مہکتے ھوئے ھونٹ اس پر رکھ کر کہا، "بھیا میں رینجرز بول ریا ھوں"۔ (بھائی صاحب قبلہ نے جواب میں جو کچھ کہا اسے یہاں دھرانا ضروری نہیں)۔
فون پھینک کر جون ایلیا دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پیٹتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ, "صاحب اس تہذیب نے ھمیں تباہ کر دیا۔ اس تہذیب نے ھمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ اماں خفگی اور عصومت میں بھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔ امروھے کی تہذیب نے مجھے تباہ کر دیا"۔
("مشتاق احمد یوسفی" لاس اینجلس میں پڑھی گئی تحریر)
(تصویر: جون ایلیا اور ان کے بھائی سید محمد تقی)
فرمایا جانی !! میں اس وقت پئے ھوئے نہیں ھوں۔ میں اس وقت رینجر بن کر بڑے بھائی (سید تقی صاحب) کو فون کرنا چاہتا ھوں۔جن سے انکا جائیداد کا جھگڑا تھا کہ یا تو جائیداد کے تقاسمے میں جون کے ساتھ زیادتی بند کرو ورنہ وغیرہ، وغیرہ۔
ان دنوں کراچی میں قتل و غارت کا زور تھا اور شہر میں رینجرز گشت کر رھے تھے۔ لوگ رینجرز سے بہت خوفزدہ تھے۔ دوست انہیں فون تک لے گیا، ان کے ہاتھ میں بیحد رعشہ تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ڈائل کے سوراخ یکے بعد دیگرے غلط طرف گھمائے۔ انہیں نمبر بھی یاد نہیں تھا۔
کہنے لگے جانی !! تمھارے فون کے سوراخ غلط جگہ بنے ھوئے ھیں۔ ھم نے سب ٹرائی کر کے دیکھ لیے ذرا تم فون ملا دو۔
دوست نے فون ملایا۔ جب بڑے بھائی صاحب جو روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر تھے، فون پر آ گئے تو جون نے کانپتے ھوئے ہاتھ سے ریسیور پکڑ کے مہکتے ھوئے ھونٹ اس پر رکھ کر کہا، "بھیا میں رینجرز بول ریا ھوں"۔ (بھائی صاحب قبلہ نے جواب میں جو کچھ کہا اسے یہاں دھرانا ضروری نہیں)۔
فون پھینک کر جون ایلیا دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پیٹتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ, "صاحب اس تہذیب نے ھمیں تباہ کر دیا۔ اس تہذیب نے ھمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ اماں خفگی اور عصومت میں بھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔ امروھے کی تہذیب نے مجھے تباہ کر دیا"۔
("مشتاق احمد یوسفی" لاس اینجلس میں پڑھی گئی تحریر)
(تصویر: جون ایلیا اور ان کے بھائی سید محمد تقی)

0 comments so far,add yours