1943
میں میری عمر بارہ برس تھی- میں اس زمانے میں کبھی شعر کہتا تھا، کبھی
جبران خلیل کے نابالغ طرز احساس و خیال میں اپنی ایک خیالی محبوبہ صوفیہ کے
نام خط لکھا کرتا تھا- وہ خط میری بیاض میں محفوظ ھوتے رھتے تھے- میں ان
خطوں میں اپنی افلاطونی مگر نرگسی محبت کے اظہار کے ساتھ خاص طور پر جو بات
بار بار لکھتا تھا وہ یہ تھی کہ ہمیں انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے
لئے کچھ کرنا چاھئے-
میرا خیال یہ تھا کہ میرے ھر وقت کے اشتعال، میری تلخ مزاجی، بے آرامی اور دل برداشتگی کا ایک اہم سبب انگریز سامراج تھا-
مجھے اپنے ان خطوں میں ایک خط کا دھندلا سا مفہوم اب بھی یاد ھے- یہاں میں اس خط کی عبارت اور مفہوم کو اس کی اصل عبارت اور اس کے اصل مفہوم کی بھولی بسری ہئیت اور معنویت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کروں گا-
"ناظورہء معنی! تمہاری پیشانی، ابروؤں اور پپوٹوں کو ھزاروں ھزاروں شبنمی پیار- میں نے اس سے پہلا خط تمہیں اسکندریہ کے پتے پر ارسال کیا تھا لیکن سیدی ایلیا ابو ماضی(1) نے مجھے قاہرہ سے لکھا ھےکہ تمہارا خاندان قاہرہ منتقل ھو گیا ھے- اب میں یہ خط قاہرہ کے پتے پر لکھ رھا ھوں-
ہم ہندی ایک سجن میں زندگی گزار رھے ہیں- افرنجی ہمیں کبھی آزاد نہیں کریں گے- ہم کریں تو کیا کریں؟ ان کے پاس طیارے ہیں، توپیں ہیں، ٹینک ہیں- سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم انہیں ھندوستان سے کس طرح نکال باہر کر سکیں گے-
میں دو مسرتیں ایک ساتھ حاصل کرنا چاھتا ھوں- تمہارا دیدار اور افرنجیوں کا ادبار- شاید تمہیں اس بات کا اندازہ ھوگا کہ میں تمہیں کتنا یاد کرتا ھوں- عاطفۃ الخوری کو میری دعائیں پہنچانا اور اپنے بالوں کی کوئی لٹ میری طرف سے چوم لینا-"
صوفیہ! میری صوفیہ! خدا حافظ،
تمہارا جون فوضوی-
(1) طاہر ھے کہ یہاں مشہور عربی شاعرایلیا ابو ماضی کا نام محض زیب داستاں کے طور پر استعمال ھوا ھے-
(جون ایلیا کی کتاب شاید میں نیازمندانہ سے اقتباس)
میرا خیال یہ تھا کہ میرے ھر وقت کے اشتعال، میری تلخ مزاجی، بے آرامی اور دل برداشتگی کا ایک اہم سبب انگریز سامراج تھا-
مجھے اپنے ان خطوں میں ایک خط کا دھندلا سا مفہوم اب بھی یاد ھے- یہاں میں اس خط کی عبارت اور مفہوم کو اس کی اصل عبارت اور اس کے اصل مفہوم کی بھولی بسری ہئیت اور معنویت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کروں گا-
"ناظورہء معنی! تمہاری پیشانی، ابروؤں اور پپوٹوں کو ھزاروں ھزاروں شبنمی پیار- میں نے اس سے پہلا خط تمہیں اسکندریہ کے پتے پر ارسال کیا تھا لیکن سیدی ایلیا ابو ماضی(1) نے مجھے قاہرہ سے لکھا ھےکہ تمہارا خاندان قاہرہ منتقل ھو گیا ھے- اب میں یہ خط قاہرہ کے پتے پر لکھ رھا ھوں-
ہم ہندی ایک سجن میں زندگی گزار رھے ہیں- افرنجی ہمیں کبھی آزاد نہیں کریں گے- ہم کریں تو کیا کریں؟ ان کے پاس طیارے ہیں، توپیں ہیں، ٹینک ہیں- سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم انہیں ھندوستان سے کس طرح نکال باہر کر سکیں گے-
میں دو مسرتیں ایک ساتھ حاصل کرنا چاھتا ھوں- تمہارا دیدار اور افرنجیوں کا ادبار- شاید تمہیں اس بات کا اندازہ ھوگا کہ میں تمہیں کتنا یاد کرتا ھوں- عاطفۃ الخوری کو میری دعائیں پہنچانا اور اپنے بالوں کی کوئی لٹ میری طرف سے چوم لینا-"
صوفیہ! میری صوفیہ! خدا حافظ،
تمہارا جون فوضوی-
(1) طاہر ھے کہ یہاں مشہور عربی شاعرایلیا ابو ماضی کا نام محض زیب داستاں کے طور پر استعمال ھوا ھے-
(جون ایلیا کی کتاب شاید میں نیازمندانہ سے اقتباس)

0 comments so far,add yours