ایک شخص نے جس سے کچھ واقفیت نہ تھی، سرسید سے سفارش کی در خواست کی اور لکھا کہ ”میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک بزرگ ہیں جن کی لوگ بے انتہا تعریف کرتے ہیں کہ ان کی تمام عمر قوم کی خیرخواہی میں گزری ہے۔ جب میری آنکھ کھلی تو مجھ کو یقین ہوگیا کہ ہوں نہ ہوں وہ بزرگ آپ ہی ہیں اور میری مشکل آپ ہی سے آسان ہوگی۔“ سرسید نے اس کو یہ جواب لکھ بھیجا کہ : ”جس باب میں آپ سفارش چاہتے ہیں اس سے مجھ کو کچھ تعلق نہیں ہے اور جن بزرگ کو آپ نے خواب میں دیکھا ہے، وہ غالباً شیطان تھا۔“

کسی نے سرسید کو بذریعہ تحریر کے اطلاع دی کہ ایک مولوی صاحب نے آپ کی مصنفہ کتابوں کو اپنے ایک شاگرد سے ، جو رئیس اعظم ہے، چھین کر آگ میں جلا دیا۔ سرسید اس کے جواب میں لکھتے ہیں: ”اس کو (یعنی مولوی کو) اس عمل سے کیا فائدہ ہوا؟ اگر وہ ہمارے مطبع سے بہت سی کتابیں خرید کر جلاتا تو مطبع کو بھی فائدہ ہوتا اور اس کا دل بھی ٹھنڈا ہوتا ۔“

ایک شخص نے سر سید سے استفسار کیا تھا کہ اگر نماز میں قرآن شریف کا ترجمہ پڑھ لیا جائے تو آپ کے نزدیک کچھ قباحت تو نہیں؟ اس کے جواب میں انہوں نے لکھ بھیجا:
”مخدومی! نماز میں قرآن مجید بلفظ نہ پڑھنے اور اس کا ترجمہ پڑھ لینے میں بجز اس کے اور کچھ قباحت نہیں کہ نماز نہیں ہوتی۔“

ایک شخص نے سرسید کو اس مضمون کا خط لکھا کہ ”میں بہت کثیر العیال ہوں اور معاش کی طرف سے تنگ رہتا ہوں۔ آپ کسی ریاست میں یا سرکار انگریزی میں میری نوکری کے لیے سفارش کردیجئے۔ میں نے انگریزی کی تعلیم تو نہیں پائی مگر عربی کی کتب درسیہ پڑھی ہیں۔ جو کام آپ میرے لائق سمجھیں اس کے واسطے سفارش کردیں۔“ سر سید نے ان کو لکھ بھیجا کہ : ”میری عادت کسی کی سفارش کرنے کی نہیں ہے اور وجہ معاش کی تدبیر میرے نزدیک اس سے بہتر نہیں ہے کہ آپ میری تفسیر کا رد لکھ کر چھپوائیں۔ خدا چاہے تو خوب بکے گی اور آپ کو تنگی معاش کی شکایت نہیں رہے گی۔“
 
 

0 comments so far,add yours