چھیڑ خوباں سے چلی جاۓ اسد

پچھلے دنوں گاندھی جی نے آج کل کی تعلیم یافتہ لڑکیوں کے بارے میں ارشاد کیا تھا

" ایک جولیٹ کے سو سو رومیو موجود ہیں - "

اس پر لاہور میں وہ شورمچا تھا کہ خدا کی پناہ ............... مس ممتاز شاہنواز اور دوسری خواتین نے گاندھی جی کے اس حملے کا بڑی شدت سے جواب دیا -

بہت دیر تک مستورات کے مضامین ہندوستان کے اس نیم مستور لیڈر کے خلاف چھپتے رہے -

گاندھی جی ٹس سے مس نہ ہوئے -

انھوں نے ایک مضمون اور لکھا اور اس میں تہذیب نو کے گرفتار لڑکوں کو اپنے اہنسائی تیروں کا نشانہ بنایا -
ان نوجوانوں سے گاندھی جی نے کہا

" تم بازار میں جب چلو تو اپنی نگاہ نیچی رکھا کرو اگر ہو سکے تو ہڈ پہنا کرو تا کہ تمھاری نگاہیں نوجوان لڑکیوں پر نہ پر سکیں اور تمہارا ایمان متزلزل ہونے سے بچ سکے - "

ہندستان پر گاندھی جی کا اثر مسلم ہے پر ان کا یہ مضمون نوجوانوں کے جذبات پر اثر انداز نہ ہوسکا ........

خوباں سے چھیڑ جاری رہی -

نگاہوں پر سنسر نہ بیٹھ سکا ، جذبات ویسے کے ویسے بے لغام رہے -

گاندھی جی کی یہ سعی ویسی ہی ناکام رہی جیسے بمبئی میں امتناع شراب کے بارے میں کانگریس گورنمنٹ کی کوشش -

گاندھی جی کے یہ کوشش اگر بار آور ثابت ہوتی تو ذرا غور کیجئے کہ معاشرتی زندگی میں کتنا بڑا انقلاب برپا ہوجاتا .......

گلی کوچوں اور بازاروں میں آپ کو مرد ماتھے پر ہڈ باندھے اور نگاہیں نیچے کے چلتے پھرتے نظر آتے -

ٹریفک میں مشکلات پیدا ہو جاتیں اور ہر روز حادثے وقوع پذیر ہوتے - اور ان حادثوں کا شکار صرف مرد ہوتے -

ماتھے پر ہڈ ، نگاہیں فرش پر ، سامنے سے تیز رفتار موٹر آ رہی ہے ..........

ادھر جوان عورتیں جا رہی ہیں ........ ہارن پر ہارن بجایا جا رہا ہے ........نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن .............

ایک عجیب مشکل میں آدمی پھنس جاتا ، ہسپتال زخمیوں سے بھر جاتا ..... وہاں بھی بیچارے مردوں کی آنکھوں پر ہڈ چڑھا رہتا کہ کسی نرس کو نہ دیکھ پائیں -

ہڈ وڈ کی بات چھوڑئیے روز مرہ کی زندگی بالکل بے کیف ہو جاتی ، جذبات کا در پابند پانی کی طرح ٹھر جاتا -

امیدیں خیال آرائیں کی تمام قوتیں ، جذباتی ہیجان غرضیکہ وہ سب کچھ جس سے انسانی زندگی میں حرارت پیدا ہوتی ہے فنا ہوجاتا ...............

عورت ہوتی مرد بھی ہوتے ، لیکن وہ چنگاری نہ ہوتی جو ان دونوں کے تصادم سے پھوٹتی ہے -

شوخیاں اور شرارتیں بالکل مفقود ہو جاتیں -

چاروں طرف متانت اور سنجیدگی نظر آتی -

چہرے لمبوترے ہو جاتے ، ان کی تازگی ، ان کی رونق ، اور ان کی دمک سب غائب ہو جاتی -

زندگی کے ایک اکتا دینے والے آہنگ تسلسل میں آدمی بالکل بجان اور مردہ ہو کر رہ جاتا -

ملک کی شاعری اور اس کے ادب کا ستیاناس ہوجاتا -

فنون لطیفہ سب کے سب یتیم ہوجاتے مگر یہ نہ ہوا -

از سعادت حسن منٹو (منٹو کے مضامین سے اقتباس)
 
 

0 comments so far,add yours