ایک دفعہ ایک اردو مشاعرے پر لوگ ساحر سے آٹو گراف لے رہے تھے لوگ کچھ منتشر ہوئے تو میں ہنس کر ہاتھ کی ہتھیلی اس کے آگے کر دی اور کہا، آٹو گراف!
ساحر نے ہاتھ میں پکڑے پین کی سیاہی اپنے انگوٹھے پر لگا کر وہ انگوٹھا میری ہتھیلی پر لگا دیا جیسے میری ہتھیلی کے کاغذ پر دستخط کر دئیے اس کاغذ کی کیا عبارت تھی جس کے اوپر اس نے دستخط کیے یہ سب ہواؤں کے حوالے ہے یہ عبارت نہ کبھی اس نے پڑھی نہ زندگی نے اسی لیے کہہ سکتی ہوں
ساحر ایک خیال تھا . . . . . . . ہوا میں چمکتا، شائد میرے اپنے ہی خیالوں کا ایک جادو، لیکن امروز کے ساتھ گزاری زندگی ، ابتدائی کچھ سالوں کو چھوڑ کر ایک بیخودی کے عالم تک پہنچ گئی ہے اس عالم کو شائد ابھی یاد آئی ہے ایک روز کی ایک بات میں سے کچھ پکڑا جا سکتا ہے
ایک دن کسی آئے مہمان نے میرا اور امروز کا ہاتھ دیکھا مجھے کہنے لگا ....... تمہارے ہاتھ میں دولت کی بڑی گہری اور لمبی لکیر ہے تمہیں زندگی میں کبھی دولت کی کمی نہیں آ سکتی لیکن امروز سے کہنے لگا ....... تمہارے پاس دولت کبھی نہیں ٹھہرے گی تمہارے ہاتھ کی لکیر جگہ جگہ ٹوٹتی ہے امروز نے اپنے ہاتھ میں میرا ہاتھ پکڑ کر کہا .. . . . . "اچھا پھر ہم دونوں ایک ہی لکیر پر گزارا کر لیں گے"
(امرتا پریتم کی خودنوشت رسیدی ٹکٹ سے اقتباس صفحہ نمبر 79)

0 comments so far,add yours