جینی اپنے ایک رشتے کے بھائی سے شادی کرنے جا رہی تھی ۔ وہ بچپن سے ایک
دوسرے کو جانتے تھے اور اُن کی چاہت کسی رسم کی پابند نہیں تھی جیسا کہ
دنیا میں عموماً ہوتا ہے ۔ اُن کی پرورش ایک ہی ماحول میں ہوئی تھی لہٰذا
اُنہیں کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو چاہتے ہیں ۔ لڑکی
، نوجوان کے ہمدردانہ روئیے کی وجہ سے اُس سے مانوس تھی اور اُس نے ہمیشہ
نوجوان کو بہترین انسان سمجھا ۔ وہ جب بھی اُس سے ملتا ، ہمیشہ اُس سے پیار کرتا اور اس پیار میں جذبات کا کوئی دخل نہ ہوتا ۔
جہاں تک نوجوان کا تعلق تھا وہ ہمیشہ اسی انداز میں سوچتا:
”میری ننھی بہن سچ میں بہت پیاری ہے۔ “
اُس کی چاہت میں غیر جذباتی رنگ ہوتا جو عام طور سے ایک نوجوان میں اپنے رشتے کی بہن کے لیے ہوتا ہے ۔ اس سے زیادہ اُس کے تخیل نے پرواز نہ کی ۔
تب ایک دن جینی نے اپنی ماں کو اپنی خالہ سے باتیں کرتے سنا:
” میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی چاہت میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ اس بات کا اندازہ کوئی بھی کر سکتا ہے ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے جیکس جیسے داماد کی ہی ضرورت ہے ۔ “
یہ سب جاننے کے بعد جینی جب بھی جیکس کو دیکھتی تو غیرارادی طور پر ہی شرم سے سرخ ہو جاتی ۔ اُس کے ہاتھ جیکس کے ہاتھوں میں کانپنے لگتے ، نظریں مل جانے پر ہمیشہ اُس کا سر جھک جاتا ۔ وہ اُسے جب بھی پیار کرتا ، وہ ایسا انداز اختیار کرتی کہ نوجوان اُس کے جذبات کو سمجھ لیتا ۔ پھر ایک ایسے ہی جذبے کے تحت جس میں اطمینان ، خلوص اور گہرائی تھی ، نوجوان نے اُسے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا اور سرگوشی کے انداز میں کہا:
” میں تمہیں چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ میں تمہیں چاہتا ہوں ۔“
اُس دن کے بعد سے اُن کے درمیان کئی پردے اُٹھ گئے ۔ قربت کے وہ تمام اظہار جن کی بدولت اُن کی چاہت نے قدرتی رنگ اختیار کیا تھا ، بِنا کسی اظہار کے پورے ہو گئے ۔
ایک دن جیکس نے جینی سے اظہارِ محبت کیا اُن تین ضعیف عورتوں کے سامنے جو آپس میں بہنیں تھیں ۔ اُس کی ماں ، جینی کی ماں اور اس کی خالہ لیزن جو کہ کنواری تھی ۔ وہ اُس کے ساتھ لمبی سیر کے لیے درختوں کے کنج میں نکل جاتا ، کبھی ندی کے کنارے یا پھر شبنم سے ڈھکے کھیتوں میں جہاں فصلوں کے درمیان جنگلی پھول بھی کِھلے ہوتے ۔ وہ شادی کے دن کا انتظار بِنا کسی بیقراری کے کرتے ۔ وہ ایک دوسرے کی چاہت میں مدہوش تھے ۔ ہاتھوں میں ہاتھ دیئے وہ ہر چیز سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔ ایک دوسرے کی طرف محبت بھری نظروں کے تبادلے سے اُنہیں کچھ ایسا احساس ہوتا تھا جیسے اُن کی روحیں مل چکی ہیں ۔ دھندلکا چھاتا تو وہ چونک پڑتے اور ایک دوسرے سے لپٹ جاتے یا پھر لبوں کی جنبش اُنہیں ایک دوسرے کے نزدیک لے آتی ۔ اس سب میں انتظار ، وعدے و عید اور دیدار سب ہی کچھ ہوتا ۔
کبھی کبھار جب وہ تمام دن اکٹھے گذارتے تو اس قسم کے جذبات سے عاری سے ہو جاتے اور اُن کے جذبات میں ہمدردانہ رویہ پن آجاتا ، ایسے دنوں میں شام کے وقت انہیں ایک خاص قسم کے بوجھ کا احساس ہوتا ۔ وہ دونوں گہرے سانس لیتے اور یہ جان ہی نہ پاتے کہ ایسا کیوں ہوا ۔ وہ اسے بِنا سمجھے ہی واپس لوٹ آتے ۔
دونوں مائیں اس نوجوان محبت کا نظارہ ایک مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کرتیں البتہ لیزن جب بھی اس نوجوان جوڑے کو ایک دوسرے کے ساتھ التفات برتتے دیکھتی تو اُس کے دل میں ایک عجیب سا خیال پیدا ہوتا ۔
وہ ایک منحنی سی عورت تھی ۔ بہت کم گو تھی ، اپنے آپ میں گُم رہتی تھی ، شوروغل میں کم ہی حصہ لیتی تھی ۔ صرف دوپہر کے کھانے پر نظر آتی جس کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلی جاتی اور تمام دن وہیں گذارتی ۔
باقی دونوں بہنیں بیوہ تھیں جو کبھی سماجی طور پر بہت مقبول تھیں ۔ وہ دونوں اس کنواری بوڑھی کو غیر اہم سمجھتی تھیں ۔ وہ اس کے ساتھ معمولی سا برتاﺅ رکھتیں جس میں صرف ہمدردی کا عنصر ہوتا ۔ اس کا نام اصل میں لیزا تھا ۔ وہ اُن دنوں میں پیدا ہوئی تھی جب برینگر فرانس پر حکمران تھا ۔ وہ شادی سے گھبراتی تھی ۔ دونوں بیوہ بہنوں کو جب یہ پختہ یقین ہو گیا کہ وہ شادی کی عمر سے نکل چکی ہے تو انہوں نے اُس کا نام لیزا سے لیزن کردیا۔
اب وہ خالہ لیزن بن چکی تھی ، ایک مہربان ، چھوٹی سی ضعیف عورت جو خود اپنے ہی گھر والوں سے خوفزدہ رہتی تھی ۔ اُن کی ہمدردی بھی اُ س کے رویئے میں کوئی تبدیلی نہ لا سکی اور وہ عام طور پر لا تعلق ہی رہی ۔ صرف ایک نوکرانی ہی تھی جو اُس کے کمرے میں جاتی تھی ۔ وہ کبھی اُس کے نزدیک آ کر بات نہیں کرتے تھے ۔ بولنا چاہتے بھی تو فاصلے سے ہی بولتے ۔ جیکس کبھی اُس کے کمرے میں اُس سے ملنے کی غرض سے نہ گیا تھا ۔ جیکس کو تو شاید اندازہ ہی نہیں تھا کہ اُس کا کمرہ کس سمت میں ہے ، جہاں اُس تنہا عورت نے اپنی زندگی گزار دی تھی ۔ عملی طور پر اُس کے لیے کوئی اچھی جگہ مخصوص نہ تھی ۔ جب وہ آس پاس نہ ہوتی تو کوئی نہ تو اس کے متعلق سوچتا اور نہ ہی اُس کا تذکرہ کرتا ۔
وہ بالکل ہی نظرانداز کر دی گئی تھی اور ایک ایسی ہستی تھی جس کے متعلق خود اس کے اپنے یہ عزیز بھی کچھ زیادہ علم نہیں رکھتے تھے یا شاید بھول چکے تھے ۔ وہ ایک بالکل ہی غیر اہم شخصیت بن کر رہ گئی تھی جس کی موت بھی اِس گھر میں کوئی خلاء پیدا نہیں کرسکتی تھی ۔ وہ ایک ایسی عورت تھی جسے قطعاً علم نہ تھا کہ زندگی کی رنگینیاں کیا ہوتی ہیں اور اُن سے کس طرح لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ اُسے اپنے گردوپیش اور اردگرد ہونے والی چہل پہل سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھا کے چلتی اور معمولی سی آہٹ بھی پیدا کرنے سے گریز کرتی ۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ آواز پیدا کرنے کی بجائے اُسے جذب کرنا چاہتی ہے ۔ اُس کے ننھے ننھے ہاتھ دیکھنے میں ایسے لگتے جیسے رُوئی کے گالے ہوں ۔ وہ چیزوں کو بھی انتہائی نزاکت سے اُٹھاتی اور رکھتی تھی ۔
جب کوئی اُسے خالہ لیزن کہتا تو یہ دو الفاظ کسی کے ذہن میں بھی کوئی ایسا احساس پیدا نہیں کرتے تھے جیسے کسی فرد کو بُلایا گیا ہو ۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے کافی دان یا چینی دان کا نام لے لیا ہو ۔
لوئٹ ، جو کتیا تھی ، اس کی اہمیت بھی اس سے کہیں زیادہ تھی ۔ لوگ اُسے ہر وقت پیار کرتے اور ’پیاری لوئٹ‘ کہہ کر پکارتے ۔ اگر وہ مرجاتی تو شاید اُس کے مرنے کا افسوس لیزن کے مرنے سے کہیں زیادہ ہوتا ۔
مئی کے اختتام پر جینی اور جیکس کی شادی ہونے والی تھی ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے اب ذرا زیادہ جذباتی انداز میں سوچنے لگے تھے ۔ اُن کی نگاہیں ایک دوسرے میں زیادہ کُھبی رہتیں ۔ اُن کے خیالات ، اُن کے دل اور بانہیں ایک دوسرے کے لیے اب زیادہ بے چین رہنے لگی تھیں ۔
موسمِ بہار اُس سال کچھ دیر سے ہی شروع ہوا ۔ ٹھٹھرتی سی ایک رات کے اختتام پر دھندلی سی سرد صبح بس اچانک ہی نمودار ہو گئی تھی ۔ چند دنوں تک یہ دھندلی سی تمازت رہی جس کے بعد درختوں پر کونپلیں پھوٹنا شروع ہو گئیں اور ہر طرف بہار کے اولیں پھولوں کی بھینی بھینی مہک پھیلنے لگی۔ تب ایک سہانی دوپہر کو چمکتے سورج میں جب شبنمی قطرے دھوپ کی وجہ سے خشک ہو رہے تھے اور ہر طرف اُجالا ہی اُجالا تھا ، کھیتوں میں سورج کی سنہری کرنیں بکھری ہوئی تھیں ، چرند پرند اور درخت سب ہی مسرور نظر آ رہے تھے ایسے میں پرندے ہوا میں شوخی سے محوِ پرواز تھے جبکہ مسرور جینی اور جیکس تالاب کے کنارے بیٹھے اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔ انہوں نے یہ تمام دن اکٹھے گذارنا تھا ۔ شام تک وہ بہت خوش اور پُرسکون تھے ۔
رات کے کھانے کے بعد وہ کُھلی ہوئی کھڑکی کے سامنے بیٹھ کر باتیں کرنے لگے جبکہ اُن کی مائیں لیمپ کی روشنی میں تاش کھیل رہی تھیں اور بیچاری لیزن اپنے لیے موزے بُن رہی تھی ۔ تالاب کے پیچھے گھنے جنگل کا بھرپور منظر تھا ، صحن کے بڑے درخت کی نئی شاخوں کے پیچھے سے چاند اچانک نمودار ہوا ۔ وہ لحظہ بہ لحظہ بڑھتا جا رہا تھا اور ستاروں کے ہجوم میں گِھرا دھرتی پر اپنی حسین چاندنی بکھیر رہا تھا۔ ایسے ماحول کو شاعر اور عاشق جیسے جذباتی لوگ خوابوں کی دنیا کہہ کر پکارتے ہیں ۔
نوجوان جوڑے نے پہلے اس ماحول کو دیکھا ، رات کے سہانے پن کو محسوس کیا ، ماورائی چاندنی جو کھیتوں اور درختوں کا احاطہ کیے ہوئے تھی ،کا احساس دل میں سموتے ہوئے وہ باہر لان میں نکل آئے اور چہل قدمی کرتے ہوئے تالاب کے کنارے تک پہنچ گئے ۔
جب بوڑھی عورتیں اپنا کھیل ختم کرچکیں اور اُنہیں غنودگی سی محسوس ہونے لگی تو وہ اپنے بستروں کی طرف چل دیں۔ اُن میں سے ایک نے کہا:
” ہمیں بچوں کو بُلا لینا چاہیے ۔“
دوسری نے روشنی میں جینی اور جیکس کے متحرک سایوں کو دیکھ کر کہا:
” ہمیں ان کے درمیان مخل نہیں ہونا چاہیے ، باہر بے حد حسین منظر ہے اُنہیں لطف اندوز ہونے دیں۔ لیزن اُن کا انتظار کر لے گی ۔ ۔ ۔ لیزن کیوں ٹھیک ہے نا ؟ “
بوڑھی لیزن نے آہستہ سے نظریں اوپر اُٹھائیں اور جواب دیا کہ ایسا کرنے میں اُسے یقیناً خوشی ہوگی ۔ دونوں بہنیں یہ سن کر اپنے اپنے بستر پہ چلی گئیں ۔
پھر لیزن اُٹھی ۔ اُس نے اپنے اُون اور سلائیوں کو آرام کرسی پر رکھا اور کھڑکی سے باہر خوبصورت رات کا منظر دیکھنے لگی ۔
نوجون جوڑا لان کے گیٹ سے تالاب تک محوِ خرام تھا ۔ انہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے ۔ بظاہر وہ خاموش تھے لیکن کچھ شاعری سی تھی جو اُن کے دلوں میں سمائی ہوئی تھی اور اُن کی انگلیوں میں بھی مچل رہی تھی ۔ اچانک جینی نے کھڑکی میں بوڑھی عورت کو دیکھا جس کا سایہ لیمپ کی روشنی میں صاف نظر آ رہا تھا ۔
” دیکھو خالہ لیزن ہمیں دیکھ رہی ہیں ۔“
جیکس نے اپنا سر اُٹھا کر کہا : ” ہاں، خالہ لیزن ہمیں دیکھ رہی ہیں ۔ “
وہ پھر سے اُسی خوابی کیفیت میں کھو گئے جو اُن پر پہلے سے طاری تھی ۔ خراماں خراماں چہل قدمی اور ایک دوسرے سے اظہارِ محبت جاری رہا اور شبنم تھی کہ گھاس پر گرتی رہی ۔ انہیں خنکی کا احساس ہوا تو جینی نے کہا :
” اب ہمیں اندر جانا چاہیے۔“ اور وہ اندر چلے گئے ۔
جب وہ کمرے میں داخل ہوئے تو لیزن پھر سے موزے بُن رہی تھی ۔ اُس کا سر جھکا ہوا تھا ، نازک انگلیوں میں کپکپاہٹ سی تھی جیسے وہ تھک چکی ہوں ۔
جینی اس کے پاس گئی اور کہا کہ خالہ ہم سونے جا رہے ہیں ۔ بوڑھی عورت ان کی طرف متوجہ ہوئی ۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں جیسے روتی رہی ہو ۔ جینی نے تو بالکل خیال نہ کیا البتہ جیکس نے دیکھا کہ اس کے نازک جوتے بالکل گیلے تھے ۔ اس نے پوچھا :
” آپ کے خوبصورت پاﺅں ٹھنڈے ہیں کیا ؟ “
لیزن کی نازک انگلیاں اس طرح کانپیں کہ سلائیاں ہاتھ سے چھوٹ گئیں ۔ اون کا گولہ زمین پر لڑھکتا چلا گیا ۔ اس نے اپنا منہ بازوﺅں میں چھپا لیا اور ہچکیاں لے کر رونے لگی ۔ دونوں اس کی طرف لپکے ۔ جینی اپنے گھٹنوں پر جھک گئی اور اسے اپنے بازوﺅں میں لے کر بار بار پوچھنے لگی :
” آپ سخت پریشان ہیں خالہ لیزن ۔ آپ کو کیا ہوا ، کیا بات ہے ۔ ۔ ۔ کیا بات ہے ۔ کیا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے؟“
تب لیزن نے ہچکیاں لیتے ہوئے بہت مشکل سے کہا:
” جب جیکس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے خوبصورت پاﺅں ٹھنڈے ہیں کیا ، تو مجھے رونا آ گیا کیونکہ اس سے پہلے کبھی کسی نے مجھ سے ایسی بات نہ کی تھی ۔“
جہاں تک نوجوان کا تعلق تھا وہ ہمیشہ اسی انداز میں سوچتا:
”میری ننھی بہن سچ میں بہت پیاری ہے۔ “
اُس کی چاہت میں غیر جذباتی رنگ ہوتا جو عام طور سے ایک نوجوان میں اپنے رشتے کی بہن کے لیے ہوتا ہے ۔ اس سے زیادہ اُس کے تخیل نے پرواز نہ کی ۔
تب ایک دن جینی نے اپنی ماں کو اپنی خالہ سے باتیں کرتے سنا:
” میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی چاہت میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ اس بات کا اندازہ کوئی بھی کر سکتا ہے ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے جیکس جیسے داماد کی ہی ضرورت ہے ۔ “
یہ سب جاننے کے بعد جینی جب بھی جیکس کو دیکھتی تو غیرارادی طور پر ہی شرم سے سرخ ہو جاتی ۔ اُس کے ہاتھ جیکس کے ہاتھوں میں کانپنے لگتے ، نظریں مل جانے پر ہمیشہ اُس کا سر جھک جاتا ۔ وہ اُسے جب بھی پیار کرتا ، وہ ایسا انداز اختیار کرتی کہ نوجوان اُس کے جذبات کو سمجھ لیتا ۔ پھر ایک ایسے ہی جذبے کے تحت جس میں اطمینان ، خلوص اور گہرائی تھی ، نوجوان نے اُسے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا اور سرگوشی کے انداز میں کہا:
” میں تمہیں چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ میں تمہیں چاہتا ہوں ۔“
اُس دن کے بعد سے اُن کے درمیان کئی پردے اُٹھ گئے ۔ قربت کے وہ تمام اظہار جن کی بدولت اُن کی چاہت نے قدرتی رنگ اختیار کیا تھا ، بِنا کسی اظہار کے پورے ہو گئے ۔
ایک دن جیکس نے جینی سے اظہارِ محبت کیا اُن تین ضعیف عورتوں کے سامنے جو آپس میں بہنیں تھیں ۔ اُس کی ماں ، جینی کی ماں اور اس کی خالہ لیزن جو کہ کنواری تھی ۔ وہ اُس کے ساتھ لمبی سیر کے لیے درختوں کے کنج میں نکل جاتا ، کبھی ندی کے کنارے یا پھر شبنم سے ڈھکے کھیتوں میں جہاں فصلوں کے درمیان جنگلی پھول بھی کِھلے ہوتے ۔ وہ شادی کے دن کا انتظار بِنا کسی بیقراری کے کرتے ۔ وہ ایک دوسرے کی چاہت میں مدہوش تھے ۔ ہاتھوں میں ہاتھ دیئے وہ ہر چیز سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔ ایک دوسرے کی طرف محبت بھری نظروں کے تبادلے سے اُنہیں کچھ ایسا احساس ہوتا تھا جیسے اُن کی روحیں مل چکی ہیں ۔ دھندلکا چھاتا تو وہ چونک پڑتے اور ایک دوسرے سے لپٹ جاتے یا پھر لبوں کی جنبش اُنہیں ایک دوسرے کے نزدیک لے آتی ۔ اس سب میں انتظار ، وعدے و عید اور دیدار سب ہی کچھ ہوتا ۔
کبھی کبھار جب وہ تمام دن اکٹھے گذارتے تو اس قسم کے جذبات سے عاری سے ہو جاتے اور اُن کے جذبات میں ہمدردانہ رویہ پن آجاتا ، ایسے دنوں میں شام کے وقت انہیں ایک خاص قسم کے بوجھ کا احساس ہوتا ۔ وہ دونوں گہرے سانس لیتے اور یہ جان ہی نہ پاتے کہ ایسا کیوں ہوا ۔ وہ اسے بِنا سمجھے ہی واپس لوٹ آتے ۔
دونوں مائیں اس نوجوان محبت کا نظارہ ایک مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کرتیں البتہ لیزن جب بھی اس نوجوان جوڑے کو ایک دوسرے کے ساتھ التفات برتتے دیکھتی تو اُس کے دل میں ایک عجیب سا خیال پیدا ہوتا ۔
وہ ایک منحنی سی عورت تھی ۔ بہت کم گو تھی ، اپنے آپ میں گُم رہتی تھی ، شوروغل میں کم ہی حصہ لیتی تھی ۔ صرف دوپہر کے کھانے پر نظر آتی جس کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلی جاتی اور تمام دن وہیں گذارتی ۔
باقی دونوں بہنیں بیوہ تھیں جو کبھی سماجی طور پر بہت مقبول تھیں ۔ وہ دونوں اس کنواری بوڑھی کو غیر اہم سمجھتی تھیں ۔ وہ اس کے ساتھ معمولی سا برتاﺅ رکھتیں جس میں صرف ہمدردی کا عنصر ہوتا ۔ اس کا نام اصل میں لیزا تھا ۔ وہ اُن دنوں میں پیدا ہوئی تھی جب برینگر فرانس پر حکمران تھا ۔ وہ شادی سے گھبراتی تھی ۔ دونوں بیوہ بہنوں کو جب یہ پختہ یقین ہو گیا کہ وہ شادی کی عمر سے نکل چکی ہے تو انہوں نے اُس کا نام لیزا سے لیزن کردیا۔
اب وہ خالہ لیزن بن چکی تھی ، ایک مہربان ، چھوٹی سی ضعیف عورت جو خود اپنے ہی گھر والوں سے خوفزدہ رہتی تھی ۔ اُن کی ہمدردی بھی اُ س کے رویئے میں کوئی تبدیلی نہ لا سکی اور وہ عام طور پر لا تعلق ہی رہی ۔ صرف ایک نوکرانی ہی تھی جو اُس کے کمرے میں جاتی تھی ۔ وہ کبھی اُس کے نزدیک آ کر بات نہیں کرتے تھے ۔ بولنا چاہتے بھی تو فاصلے سے ہی بولتے ۔ جیکس کبھی اُس کے کمرے میں اُس سے ملنے کی غرض سے نہ گیا تھا ۔ جیکس کو تو شاید اندازہ ہی نہیں تھا کہ اُس کا کمرہ کس سمت میں ہے ، جہاں اُس تنہا عورت نے اپنی زندگی گزار دی تھی ۔ عملی طور پر اُس کے لیے کوئی اچھی جگہ مخصوص نہ تھی ۔ جب وہ آس پاس نہ ہوتی تو کوئی نہ تو اس کے متعلق سوچتا اور نہ ہی اُس کا تذکرہ کرتا ۔
وہ بالکل ہی نظرانداز کر دی گئی تھی اور ایک ایسی ہستی تھی جس کے متعلق خود اس کے اپنے یہ عزیز بھی کچھ زیادہ علم نہیں رکھتے تھے یا شاید بھول چکے تھے ۔ وہ ایک بالکل ہی غیر اہم شخصیت بن کر رہ گئی تھی جس کی موت بھی اِس گھر میں کوئی خلاء پیدا نہیں کرسکتی تھی ۔ وہ ایک ایسی عورت تھی جسے قطعاً علم نہ تھا کہ زندگی کی رنگینیاں کیا ہوتی ہیں اور اُن سے کس طرح لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ اُسے اپنے گردوپیش اور اردگرد ہونے والی چہل پہل سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھا کے چلتی اور معمولی سی آہٹ بھی پیدا کرنے سے گریز کرتی ۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ آواز پیدا کرنے کی بجائے اُسے جذب کرنا چاہتی ہے ۔ اُس کے ننھے ننھے ہاتھ دیکھنے میں ایسے لگتے جیسے رُوئی کے گالے ہوں ۔ وہ چیزوں کو بھی انتہائی نزاکت سے اُٹھاتی اور رکھتی تھی ۔
جب کوئی اُسے خالہ لیزن کہتا تو یہ دو الفاظ کسی کے ذہن میں بھی کوئی ایسا احساس پیدا نہیں کرتے تھے جیسے کسی فرد کو بُلایا گیا ہو ۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے کافی دان یا چینی دان کا نام لے لیا ہو ۔
لوئٹ ، جو کتیا تھی ، اس کی اہمیت بھی اس سے کہیں زیادہ تھی ۔ لوگ اُسے ہر وقت پیار کرتے اور ’پیاری لوئٹ‘ کہہ کر پکارتے ۔ اگر وہ مرجاتی تو شاید اُس کے مرنے کا افسوس لیزن کے مرنے سے کہیں زیادہ ہوتا ۔
مئی کے اختتام پر جینی اور جیکس کی شادی ہونے والی تھی ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے اب ذرا زیادہ جذباتی انداز میں سوچنے لگے تھے ۔ اُن کی نگاہیں ایک دوسرے میں زیادہ کُھبی رہتیں ۔ اُن کے خیالات ، اُن کے دل اور بانہیں ایک دوسرے کے لیے اب زیادہ بے چین رہنے لگی تھیں ۔
موسمِ بہار اُس سال کچھ دیر سے ہی شروع ہوا ۔ ٹھٹھرتی سی ایک رات کے اختتام پر دھندلی سی سرد صبح بس اچانک ہی نمودار ہو گئی تھی ۔ چند دنوں تک یہ دھندلی سی تمازت رہی جس کے بعد درختوں پر کونپلیں پھوٹنا شروع ہو گئیں اور ہر طرف بہار کے اولیں پھولوں کی بھینی بھینی مہک پھیلنے لگی۔ تب ایک سہانی دوپہر کو چمکتے سورج میں جب شبنمی قطرے دھوپ کی وجہ سے خشک ہو رہے تھے اور ہر طرف اُجالا ہی اُجالا تھا ، کھیتوں میں سورج کی سنہری کرنیں بکھری ہوئی تھیں ، چرند پرند اور درخت سب ہی مسرور نظر آ رہے تھے ایسے میں پرندے ہوا میں شوخی سے محوِ پرواز تھے جبکہ مسرور جینی اور جیکس تالاب کے کنارے بیٹھے اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔ انہوں نے یہ تمام دن اکٹھے گذارنا تھا ۔ شام تک وہ بہت خوش اور پُرسکون تھے ۔
رات کے کھانے کے بعد وہ کُھلی ہوئی کھڑکی کے سامنے بیٹھ کر باتیں کرنے لگے جبکہ اُن کی مائیں لیمپ کی روشنی میں تاش کھیل رہی تھیں اور بیچاری لیزن اپنے لیے موزے بُن رہی تھی ۔ تالاب کے پیچھے گھنے جنگل کا بھرپور منظر تھا ، صحن کے بڑے درخت کی نئی شاخوں کے پیچھے سے چاند اچانک نمودار ہوا ۔ وہ لحظہ بہ لحظہ بڑھتا جا رہا تھا اور ستاروں کے ہجوم میں گِھرا دھرتی پر اپنی حسین چاندنی بکھیر رہا تھا۔ ایسے ماحول کو شاعر اور عاشق جیسے جذباتی لوگ خوابوں کی دنیا کہہ کر پکارتے ہیں ۔
نوجوان جوڑے نے پہلے اس ماحول کو دیکھا ، رات کے سہانے پن کو محسوس کیا ، ماورائی چاندنی جو کھیتوں اور درختوں کا احاطہ کیے ہوئے تھی ،کا احساس دل میں سموتے ہوئے وہ باہر لان میں نکل آئے اور چہل قدمی کرتے ہوئے تالاب کے کنارے تک پہنچ گئے ۔
جب بوڑھی عورتیں اپنا کھیل ختم کرچکیں اور اُنہیں غنودگی سی محسوس ہونے لگی تو وہ اپنے بستروں کی طرف چل دیں۔ اُن میں سے ایک نے کہا:
” ہمیں بچوں کو بُلا لینا چاہیے ۔“
دوسری نے روشنی میں جینی اور جیکس کے متحرک سایوں کو دیکھ کر کہا:
” ہمیں ان کے درمیان مخل نہیں ہونا چاہیے ، باہر بے حد حسین منظر ہے اُنہیں لطف اندوز ہونے دیں۔ لیزن اُن کا انتظار کر لے گی ۔ ۔ ۔ لیزن کیوں ٹھیک ہے نا ؟ “
بوڑھی لیزن نے آہستہ سے نظریں اوپر اُٹھائیں اور جواب دیا کہ ایسا کرنے میں اُسے یقیناً خوشی ہوگی ۔ دونوں بہنیں یہ سن کر اپنے اپنے بستر پہ چلی گئیں ۔
پھر لیزن اُٹھی ۔ اُس نے اپنے اُون اور سلائیوں کو آرام کرسی پر رکھا اور کھڑکی سے باہر خوبصورت رات کا منظر دیکھنے لگی ۔
نوجون جوڑا لان کے گیٹ سے تالاب تک محوِ خرام تھا ۔ انہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے ۔ بظاہر وہ خاموش تھے لیکن کچھ شاعری سی تھی جو اُن کے دلوں میں سمائی ہوئی تھی اور اُن کی انگلیوں میں بھی مچل رہی تھی ۔ اچانک جینی نے کھڑکی میں بوڑھی عورت کو دیکھا جس کا سایہ لیمپ کی روشنی میں صاف نظر آ رہا تھا ۔
” دیکھو خالہ لیزن ہمیں دیکھ رہی ہیں ۔“
جیکس نے اپنا سر اُٹھا کر کہا : ” ہاں، خالہ لیزن ہمیں دیکھ رہی ہیں ۔ “
وہ پھر سے اُسی خوابی کیفیت میں کھو گئے جو اُن پر پہلے سے طاری تھی ۔ خراماں خراماں چہل قدمی اور ایک دوسرے سے اظہارِ محبت جاری رہا اور شبنم تھی کہ گھاس پر گرتی رہی ۔ انہیں خنکی کا احساس ہوا تو جینی نے کہا :
” اب ہمیں اندر جانا چاہیے۔“ اور وہ اندر چلے گئے ۔
جب وہ کمرے میں داخل ہوئے تو لیزن پھر سے موزے بُن رہی تھی ۔ اُس کا سر جھکا ہوا تھا ، نازک انگلیوں میں کپکپاہٹ سی تھی جیسے وہ تھک چکی ہوں ۔
جینی اس کے پاس گئی اور کہا کہ خالہ ہم سونے جا رہے ہیں ۔ بوڑھی عورت ان کی طرف متوجہ ہوئی ۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں جیسے روتی رہی ہو ۔ جینی نے تو بالکل خیال نہ کیا البتہ جیکس نے دیکھا کہ اس کے نازک جوتے بالکل گیلے تھے ۔ اس نے پوچھا :
” آپ کے خوبصورت پاﺅں ٹھنڈے ہیں کیا ؟ “
لیزن کی نازک انگلیاں اس طرح کانپیں کہ سلائیاں ہاتھ سے چھوٹ گئیں ۔ اون کا گولہ زمین پر لڑھکتا چلا گیا ۔ اس نے اپنا منہ بازوﺅں میں چھپا لیا اور ہچکیاں لے کر رونے لگی ۔ دونوں اس کی طرف لپکے ۔ جینی اپنے گھٹنوں پر جھک گئی اور اسے اپنے بازوﺅں میں لے کر بار بار پوچھنے لگی :
” آپ سخت پریشان ہیں خالہ لیزن ۔ آپ کو کیا ہوا ، کیا بات ہے ۔ ۔ ۔ کیا بات ہے ۔ کیا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے؟“
تب لیزن نے ہچکیاں لیتے ہوئے بہت مشکل سے کہا:
” جب جیکس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے خوبصورت پاﺅں ٹھنڈے ہیں کیا ، تو مجھے رونا آ گیا کیونکہ اس سے پہلے کبھی کسی نے مجھ سے ایسی بات نہ کی تھی ۔“

0 comments so far,add yours