دیکھ کبیرا رویا
فنکار کا "ڈھکوسلا" بھی آج کل ایک بہت دلچسپ چیز بن گیا ہے۔ فن کار ایک ایسا عجوبۂ روزگارہوتا ہے جس کو سُرخاب کا پر لگا ہوتا ہے۔ وہ محبت اور ہوا پر زندہ رہتا ہے۔ اس کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو محفوظ کرے، زندگی میں اور اپنی موت کے ذریعے سے بھی۔
اور جس فنکار کی موت ایسے ٹریجک اور ڈرامائی انداز میں ہو وہ رہ و رسمِ فنکاری پر گویا بالکل پورا اُترا۔ بہتر یہ ہے کہ وہ جواں سال مر جائے۔ اس سے اس کے پڑھنے والوں پراور زیادہ عمدہ اثر ہوتا ہے۔ کیٹس، شیلے اور ڈائلن تھومَس کی روایات گویا زندہ رہتی ہیں۔ پھر وہ بودلےئر بن جاتا ہے۔
جب تک منٹو زندہ تھا اسے گالیاں دی جاتی تھیں۔ ترقی پسند اسے رجعت کا پرستار کہتے تھے۔ رجعت پسندوں کے نزدیک وہ اس زمانے کا سب سے بڑا بے دین انقلابی اور ترقّی پسند تھا۔ اِسی رسّہ کشی میں وہ غریب تو دوسری دنیا کو سدھارا، اب بیٹھے سر دُھنیے۔ اب منٹو کو دونوں پارٹیاں کہتی ہیں کہ بے حد عظیم فنکار ہے۔ پاکستان کا بودلئیر ہے۔ یہ ہے وہ ہے۔۔۔ ساتھ ساتھ اس قوم کا رونا بھی رویا جائے گا جو زندگی میں اپنے فنکاروں کی قدر نہیں کرتی۔
منٹو ادب کے علاوہ اپنی زندگی میں بھی فنکاری کے شعبدے دکھاتا رہا۔ شراب وہ بے تحاشا پیتا تھا، مقدمے اس پر چلے، پاگل خانے تک وہ جا پہنچا۔ برصغیر کی فن و ادب کی جو ’’انڈرورلڈ‘‘ہے اسکا وہ کیا عمدہ مصوّر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تعجب ہے کہ ابھی تک اس کو *ٌToulouse-Lautrec سے کیوں تشبیہہ نہیں دی گئی۔۔۔!! افسوس ہے کہ اس سے کبھی ملاقات نہ ہوئی ورنہ میں بھی اس وقت کوئی واقعہ بیان کرتی کہ ’’فلاں سنہ میں بمبئی یا لاہور میں اس سے ملاقات ہوئی تو صوفے پر اکڑوں بیٹھے ہوئے اس نے کہا
’’اب منٹو کی Myth بھی تیار ہو جائے گی۔‘‘
ابھی چند روزقبل، شام کے وقت ریڈیو پر بخاریؔ صاحب کی کمنٹری سنائی دی (بخاری صاحب بہترین کمنٹری کرتے ہیں) اِس طرف مسجد سے مغرب کی اذان بلند ہو رہی تھی۔ اُدھر پاکستان کے عظیم المرتبت مایہ ناز فن کار استاد بندو خان نے جانِ شیریں جانِ آفریں کے سپرد کی۔ بخاری صاحب نے قوم کو نہایت مؤثر اور خوبصورت الفاظ میں اس سانحے کی اطلاع دی لیکن قوم کو اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ استاد بندو خان کون تھے؟ اُن کی کیا ہستی تھی؟ کیا رتبہ تھا؟ بس ایک استاد جی تھے جو سارنگی بجاتے تھے۔ یہ چھ سات سال انہوں نے لالو کھیت (لیاقت آباد، کراچی) کی مہاجر بستی میں جس طرح گذارے اِس کا نہ کسی کو علم اور نہ اس کی پروا۔
سوال یہ ہے کہ آخر پروا کیوں کی جائے؟ صاحب آپ سارنگی بجاتے ہیں بجاتے رہئے۔ پاکستانی رقص کا شوق ہے، بڑی خوشی کی بات ہے۔ افسانے لکھنے کا عارضہ ہے لکھتے رہئیے۔ ہم نے کیا آپ کا ٹھیکہ لیا ہے۔ آخر یہ ہم پر کاہے کا رعب ہے۔ منٹو صاحب قیامت کا افسانہ نگار تھا، کیا کرافٹس مین شپ تھی، کیا طرز بیان تھا۔
اچھا تھا تو پھر اب کیا کیا جائے۔
روایت ہے کہ اکثر بھوکا مرتا تھا۔
تو پھر کہیں جا کر نوکری کر لیتا۔ یہ آئیں بائیں شائیں کیوں اُڑاتا رہا۔
کہتا تھا ’’دیکھ کبیرا رویا۔‘‘
ارے بھائی صاحب تو کیوں رویا اور یہ جو اس نے اتنا الم غلم لکھ ڈالا تھا، اپنے عزیز دوستوں کے خاکے، ایکٹرسوں کے حالات زندگی، موالیوں کی سوانح عمریاں اگر یہ سب وہ نہ لکھتا تو ہم اور وہ دونوں مزے میں رہتے۔ اس کے خاندان میں ایک سے ایک ہائی کورٹ کے جج اور بیرسٹر تھے۔ حکومت کے اعلیٰ عہدیدار موجود تھے۔ وہ اُس کو کہیں نہ کہیں ’’لگوا‘‘ دیتے۔ وہ ملازمت کرتا۔ ہم اپنے اطمینان سے رشید اختر ندویؔ اور ایم اسلم کی تخلیقات پڑھتے رہتے۔
اس وقت زیادہ زور اس نکتے پر دیا جا رہا ہے کہ وہ بڑی عسرت کے عالم میں مرا، گویا اس ملک کے لیے یہ بڑی انوکھی بات ہے۔ باقی جتنے ادیب ہیں (وہ بڑے عہدوں پر نہیں ہیں اور جو سرکاری کانفرنسوں میں شرکت کے لیے ابھی جینیوا اور نیویارک نہیں گئے) وہ تو سب کے سب کیا ٹھاٹھ کی زندگی بتا رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ لیجئے ڈرامہ اکیڈیمی الگ موجود ہے نثر نگاروں اور شاعروں کی کونسل الگ۔ ان کے اپنے ٹرسٹ ہیں۔ ان کی کتابیں چھپتی ہیں تو سمرسٹ ماہم کی طرح وہ ہزاروں لاکھوں روپیہ بٹور کر اپنے بنکوں میں جمع کراتے رہتے ہیں۔
دراصل منٹوؔ بیچارہ ایسا بوہیمےَن تھا اور افلاس کی زندگی میں اسے ایک ایسی روحانی مسرت محسوس ہوتی تھی کہ وہ بس اسی میں مگن رہا۔ اس لیے ملّت اب دفعتاً چونک اُٹھی ہے، اور اُس نے لکھا ہے کہ ہے کیا غضب ہے اس ویلفیئراسٹیٹ میں ایک فنکار یوں مر گیا۔
بات بھائی صاحب دراصل یہ ہے کہ ایک منٹوؔ نہیں مرا ہے۔ منٹوؔ برابر مرتا رہے گا، کبھی وہ ناچتے ناچتے دم توڑ دے گا، کبھی سارنگی بجاتے بجاتے، جب تلک ہماری آنکھیں نہیں کھلیں گی!
سعادت حسن منٹو کی موت پر لکھا گیا قرۃ العین حیدر کا ایک خاکہ
فنکار کا "ڈھکوسلا" بھی آج کل ایک بہت دلچسپ چیز بن گیا ہے۔ فن کار ایک ایسا عجوبۂ روزگارہوتا ہے جس کو سُرخاب کا پر لگا ہوتا ہے۔ وہ محبت اور ہوا پر زندہ رہتا ہے۔ اس کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو محفوظ کرے، زندگی میں اور اپنی موت کے ذریعے سے بھی۔
اور جس فنکار کی موت ایسے ٹریجک اور ڈرامائی انداز میں ہو وہ رہ و رسمِ فنکاری پر گویا بالکل پورا اُترا۔ بہتر یہ ہے کہ وہ جواں سال مر جائے۔ اس سے اس کے پڑھنے والوں پراور زیادہ عمدہ اثر ہوتا ہے۔ کیٹس، شیلے اور ڈائلن تھومَس کی روایات گویا زندہ رہتی ہیں۔ پھر وہ بودلےئر بن جاتا ہے۔
جب تک منٹو زندہ تھا اسے گالیاں دی جاتی تھیں۔ ترقی پسند اسے رجعت کا پرستار کہتے تھے۔ رجعت پسندوں کے نزدیک وہ اس زمانے کا سب سے بڑا بے دین انقلابی اور ترقّی پسند تھا۔ اِسی رسّہ کشی میں وہ غریب تو دوسری دنیا کو سدھارا، اب بیٹھے سر دُھنیے۔ اب منٹو کو دونوں پارٹیاں کہتی ہیں کہ بے حد عظیم فنکار ہے۔ پاکستان کا بودلئیر ہے۔ یہ ہے وہ ہے۔۔۔ ساتھ ساتھ اس قوم کا رونا بھی رویا جائے گا جو زندگی میں اپنے فنکاروں کی قدر نہیں کرتی۔
منٹو ادب کے علاوہ اپنی زندگی میں بھی فنکاری کے شعبدے دکھاتا رہا۔ شراب وہ بے تحاشا پیتا تھا، مقدمے اس پر چلے، پاگل خانے تک وہ جا پہنچا۔ برصغیر کی فن و ادب کی جو ’’انڈرورلڈ‘‘ہے اسکا وہ کیا عمدہ مصوّر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تعجب ہے کہ ابھی تک اس کو *ٌToulouse-Lautrec سے کیوں تشبیہہ نہیں دی گئی۔۔۔!! افسوس ہے کہ اس سے کبھی ملاقات نہ ہوئی ورنہ میں بھی اس وقت کوئی واقعہ بیان کرتی کہ ’’فلاں سنہ میں بمبئی یا لاہور میں اس سے ملاقات ہوئی تو صوفے پر اکڑوں بیٹھے ہوئے اس نے کہا
’’اب منٹو کی Myth بھی تیار ہو جائے گی۔‘‘
ابھی چند روزقبل، شام کے وقت ریڈیو پر بخاریؔ صاحب کی کمنٹری سنائی دی (بخاری صاحب بہترین کمنٹری کرتے ہیں) اِس طرف مسجد سے مغرب کی اذان بلند ہو رہی تھی۔ اُدھر پاکستان کے عظیم المرتبت مایہ ناز فن کار استاد بندو خان نے جانِ شیریں جانِ آفریں کے سپرد کی۔ بخاری صاحب نے قوم کو نہایت مؤثر اور خوبصورت الفاظ میں اس سانحے کی اطلاع دی لیکن قوم کو اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ استاد بندو خان کون تھے؟ اُن کی کیا ہستی تھی؟ کیا رتبہ تھا؟ بس ایک استاد جی تھے جو سارنگی بجاتے تھے۔ یہ چھ سات سال انہوں نے لالو کھیت (لیاقت آباد، کراچی) کی مہاجر بستی میں جس طرح گذارے اِس کا نہ کسی کو علم اور نہ اس کی پروا۔
سوال یہ ہے کہ آخر پروا کیوں کی جائے؟ صاحب آپ سارنگی بجاتے ہیں بجاتے رہئے۔ پاکستانی رقص کا شوق ہے، بڑی خوشی کی بات ہے۔ افسانے لکھنے کا عارضہ ہے لکھتے رہئیے۔ ہم نے کیا آپ کا ٹھیکہ لیا ہے۔ آخر یہ ہم پر کاہے کا رعب ہے۔ منٹو صاحب قیامت کا افسانہ نگار تھا، کیا کرافٹس مین شپ تھی، کیا طرز بیان تھا۔
اچھا تھا تو پھر اب کیا کیا جائے۔
روایت ہے کہ اکثر بھوکا مرتا تھا۔
تو پھر کہیں جا کر نوکری کر لیتا۔ یہ آئیں بائیں شائیں کیوں اُڑاتا رہا۔
کہتا تھا ’’دیکھ کبیرا رویا۔‘‘
ارے بھائی صاحب تو کیوں رویا اور یہ جو اس نے اتنا الم غلم لکھ ڈالا تھا، اپنے عزیز دوستوں کے خاکے، ایکٹرسوں کے حالات زندگی، موالیوں کی سوانح عمریاں اگر یہ سب وہ نہ لکھتا تو ہم اور وہ دونوں مزے میں رہتے۔ اس کے خاندان میں ایک سے ایک ہائی کورٹ کے جج اور بیرسٹر تھے۔ حکومت کے اعلیٰ عہدیدار موجود تھے۔ وہ اُس کو کہیں نہ کہیں ’’لگوا‘‘ دیتے۔ وہ ملازمت کرتا۔ ہم اپنے اطمینان سے رشید اختر ندویؔ اور ایم اسلم کی تخلیقات پڑھتے رہتے۔
اس وقت زیادہ زور اس نکتے پر دیا جا رہا ہے کہ وہ بڑی عسرت کے عالم میں مرا، گویا اس ملک کے لیے یہ بڑی انوکھی بات ہے۔ باقی جتنے ادیب ہیں (وہ بڑے عہدوں پر نہیں ہیں اور جو سرکاری کانفرنسوں میں شرکت کے لیے ابھی جینیوا اور نیویارک نہیں گئے) وہ تو سب کے سب کیا ٹھاٹھ کی زندگی بتا رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ لیجئے ڈرامہ اکیڈیمی الگ موجود ہے نثر نگاروں اور شاعروں کی کونسل الگ۔ ان کے اپنے ٹرسٹ ہیں۔ ان کی کتابیں چھپتی ہیں تو سمرسٹ ماہم کی طرح وہ ہزاروں لاکھوں روپیہ بٹور کر اپنے بنکوں میں جمع کراتے رہتے ہیں۔
دراصل منٹوؔ بیچارہ ایسا بوہیمےَن تھا اور افلاس کی زندگی میں اسے ایک ایسی روحانی مسرت محسوس ہوتی تھی کہ وہ بس اسی میں مگن رہا۔ اس لیے ملّت اب دفعتاً چونک اُٹھی ہے، اور اُس نے لکھا ہے کہ ہے کیا غضب ہے اس ویلفیئراسٹیٹ میں ایک فنکار یوں مر گیا۔
بات بھائی صاحب دراصل یہ ہے کہ ایک منٹوؔ نہیں مرا ہے۔ منٹوؔ برابر مرتا رہے گا، کبھی وہ ناچتے ناچتے دم توڑ دے گا، کبھی سارنگی بجاتے بجاتے، جب تلک ہماری آنکھیں نہیں کھلیں گی!
سعادت حسن منٹو کی موت پر لکھا گیا قرۃ العین حیدر کا ایک خاکہ

0 comments so far,add yours