پاکستان بن چکا تھا۔ شاہ عالمی کی عظیم آگ جس نے لاہور کے آسمان کو کئی روز تک سرخ کیے رکھا تھا اور جلے ہوئے کھاتوں، کتابوں اور کپڑوں کے پر کٹے سیاہ پرندے اڑائے تھے ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ رنگ محل چوک سے لے کر تقریبا پون میل کے فاصلے پر واقع شاہ عالمی چوک تک جو قدیم رہائش گاہیں،حویلیاں، عبادت گاہیں اور دوکانیں تھیں اب وہاں نہیں تھیں ان کا شائبہ بھی نہیں تھا۔ اونچے نیچے ٹیلوں اور ملبوں کے ڈھیروں کا ایک سلسلہ تھا جن میں چھوٹی اینٹ کی کئی ایک دیوار کہیں نظر آ جاتی۔ لوگ انتہائی دلجمعی سے ان کھنڈروں میں بیٹھے لوہے کی کھرپوں کی مدد سے مٹی کو کھوتے رہتے۔ یہاں کبھی سنیارے تھے سونے والے تھے، کبھی کوئی چوڑی نکل آتی اور کبھی کوئی جلی ہوئی بندیا۔۔۔۔۔ اور کبھی کوئی جلا ہوا ہاتھ

(راکھ ____ مستنصر حسین تاڑر)


0 comments so far,add yours