الشیخ الاکبر محی الدین ابن عربی مرسیہ (اندلس) میں 17رمضان 560ھ ، 28 جولائی 1165 کو پیدا ہوئے اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد 38 برس کی عمر میں ترکِ وطن کرکے مصر اور دیگر بلاد مشرق میں متعدد علمی سیاحتوں کے بعد بالآخر دمشق میں اقامت گزیں ہو گئے اور یہیں 638 میں وفات پائی۔کتابیں انہوں نے بتعداد کثیر لکھیں (تعداد میں اختلاف ہے، کم سے کم 251 جو ان کی اپنی ایک یادداشت کے مطابق ہے اور زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو )۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت ان کی دو کتابوں کو حاصل ہے:۔
1۔ الفتوحات المکیہ، جو مکہ معظمہ میں 629 ھ میں ختم ہوئی، یہ بہت ضخیم ہے۔
2۔ فصوص الحکم ، جو دمشق میں 627 ھ میں تصنیف ہوئی۔
اس دوسری کتاب میں ابن عربی نے اپنی خاص تکنیک سے کام لے کر قرآن مجید کی آیات اور منتخب احادیث کی مخصوص انداز میں تفسیر و تشریح کی ہے۔ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ ابن عربی اسلام کی علمی و دینی تاریخ کی سب سے بڑی متنازع فیہ شخصیت ہیں تو اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے۔ گزشتہ چھ سات صدیوں میں ابن عربی کے افکار کے حق میں لکھنے والے علماء و متصوفین کبار کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے اسی طرح ان کے خلاف لکھنے والوں کی قطار بھی اتنی ہی طویل ہے جن میں بڑے بڑے لوگ شامل ہیں۔ اور اس آخری دور میں مولانا اشرف علی تھانوی اور علامہ اقبال وحدت الوجود کے ممتاز ناقدین میں ہیں۔ ابن مسدی نے اس کے عقائد کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے: وہ عبادات میں ظاہری مذہب (ابن حزم کے ظاہر یہ مسلک کے ) آدمی تھے مگر اعتقادات میں باطنی النظر تھے۔ گویا انہوں نے ایک جامع شخصیت بننے کے شوق میں خود کو موضوعیت اور معروضیت کا ملغوبہ بنانے کی کوشش کی اور ہر مکتب فکر و نظر کو اپنی طرف متوجہ کرکے، خود کو ہمہ گیر اختلاف کا نشانہ بنا کر، وسیع ترین اور حیرت انگیز شہرت حاصل کرلی۔
اس دوسری کتاب میں ابن عربی نے اپنی خاص تکنیک سے کام لے کر قرآن مجید کی آیات اور منتخب احادیث کی مخصوص انداز میں تفسیر و تشریح کی ہے۔ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ ابن عربی اسلام کی علمی و دینی تاریخ کی سب سے بڑی متنازع فیہ شخصیت ہیں تو اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے۔ گزشتہ چھ سات صدیوں میں ابن عربی کے افکار کے حق میں لکھنے والے علماء و متصوفین کبار کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے اسی طرح ان کے خلاف لکھنے والوں کی قطار بھی اتنی ہی طویل ہے جن میں بڑے بڑے لوگ شامل ہیں۔ اور اس آخری دور میں مولانا اشرف علی تھانوی اور علامہ اقبال وحدت الوجود کے ممتاز ناقدین میں ہیں۔ ابن مسدی نے اس کے عقائد کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے: وہ عبادات میں ظاہری مذہب (ابن حزم کے ظاہر یہ مسلک کے ) آدمی تھے مگر اعتقادات میں باطنی النظر تھے۔ گویا انہوں نے ایک جامع شخصیت بننے کے شوق میں خود کو موضوعیت اور معروضیت کا ملغوبہ بنانے کی کوشش کی اور ہر مکتب فکر و نظر کو اپنی طرف متوجہ کرکے، خود کو ہمہ گیر اختلاف کا نشانہ بنا کر، وسیع ترین اور حیرت انگیز شہرت حاصل کرلی۔

0 comments so far,add yours