فیض، کامیاب شاعر، ناکام فلم ساز
فیض احمد فیض اردو کے اہم شاعر، مدیر اور بائیں بازو کے دانشور کی حیثیت سے تو جانے جاتے ہیں لیکن یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہو گی کہ انھوں نے دو فلمیں بھی بنائی تھیں۔
اصل میں ترقی پسندوں نے بھانپ لیا تھا کہ عوام تک پہنچنے کا سب سے آسان میڈیم فلم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساحر لدھیانوی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، مجروح سلطان پوری اور دوسرے کئی ترقی پسند ادبی شاعری چھوڑ کر بالی وڈ کی دنیا میں جا بسے تھے اور انھوں نے کاغذ کی بجائے سلیولائیڈ کو ذریعۂ اظہار بنا لیا تھا۔
اسی بات کو مدِ نظر رکھ کر فیض نے بھی فلم بنانے کا سوچا۔ سب سے پہلے انھوں نے سنہ 1956 میں مشہور ہدایت کار اے آر کاردار کے بھائی اے جے کاردار کے ساتھ مل کر ایک فلم کا داغ بیل ڈالا، ’جاگو ہوا سویرا۔‘ یہ فلم بنگال کے مچھیروں کی زندگی پر مبنی تھی اور اس کی کہانی مانک بندوپادھیائے کے ناول ’بوٹ مین آف پدما‘ سے اخذ کی گئی تھی۔ فیض نے نہ صرف اس فلم کی کہانی، مکالمے اور گیت لکھے، بلکہ ہدایت کاری میں بھی ہاتھ بٹایا۔
یہ فلم اٹلی سے شروع ہونے والی حقیقت نگاری کی فلمی تحریک ’نیو ریئلزم‘ سے متاثر تھی۔ فلم کی زیادہ تر عکاسی ڈھاکہ سے 30 میل دور دریائے میگھنا کے کنارے کی گئی۔ اس فلم میں مچھیروں کے ایک خاندان کی کہانی پیش کی گئی تھی جو ایک کشتی خریدنے کے لیے رقم اکٹھی کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں اور اس دوران انھیں ایک ساہوکار کی چیرہ دستیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس وقت کے مشرقی پاکستان میں غربت اور بھوک کا راج تھا، اس لیے فلم کے برطانوی کیمرا مین والٹر لیزلی کو فلم کے منظرنامے میں حقیقت کا رنگ بھرنے میں کوئی خاص دشواری پیش نہیں آئی۔
’جاگو ہوا سویرا‘ پہلی پاکستانی فلم تھی جسے آسکر ایوارڈ کے لیے پیش کیا گیا۔ یہ فلم آسکر کی شارٹ لسٹ میں تو شامل نہیں ہو سکی، البتہ ماسکو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اس نے طلائی تمغہ حاصل کیا۔
بین الاقوامی پذیرائی اپنی جگہ لیکن فلم تجارتی طور پر بری طرح ناکام رہی۔ فیض کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی نے لاہور میں منعقدہ فیض فیسٹیول کے موقعے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب یہ فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی تو ناقدین میں تو بڑی سراہی گئی لیکن اسے باکس آفس پر وہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی جس کی توقع تھی جس کا فیض کو بڑا صدمہ پہنچا۔
پاکستانی فلموں کے انسائیکلوپیڈیا مظہر ڈاٹ ڈی کے کے مطابق فلم صرف کراچی کے جوبلی سینیما میں نمائش کے لیے پیش کی گئی لیکن صرف تین دن چلنے کے بعد اتر گئی۔
اس کے بعد فیض نے دستاویزی فلمیں تو ضرور بنائیں لیکن فیچر فلموں سے اس حد تک دل برداشتہ ہو گئے کہ اگلے 14 سال تک انھوں نے کوئی اور فلم بنانے کا نہیں سوچا۔ تاہم سنہ 1972 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملک میں فلموں کے فروغ کے لیے نیف ڈیک کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، تو فیض ایک بار پھر فیچر فلموں کے میدان میں سرگرم ہو گئے۔
انھوں نے نیف ڈیک سے تین فلمیں بنانے کا معاہدہ کیا جن میں پہلی فلم کا نام تھا ’دور ہے سکھ کا گاؤں۔‘ ایک بار پھر ہدایت کاری کے لیے فیض نے اپنے پرانے رفیقِ کار اے جے کاردار کا انتخاب کیا۔ اس فلم میں حکومت نے بھی خاصی دلچسپی دکھائی، اور اس کی تشہیر کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی گئی۔ کاردار پراسیسنگ کے لیے فلم کی ریل لے کر لندن چلے گئے، لیکن وہاں انھوں نے لیبارٹری کا بل ادا نہیں کیا جس کے باعث فلم ضبط کر لی گئی۔
بھٹو صاحب کی حکومت سنہ 1977 میں مارشل لا کا شکار ہو گئی اور فلم کا معاملہ غتربود ہو گیا۔ فیض نے فلم نکلوانے کے لیے بڑی کوششیں کیں، حتیٰ کہ نوبت مقدمے بازی تک پہنچ گئی، لیکن اس دوران فلم لندن کی لیبارٹری کے گودام سے غائب ہو چکی تھی۔
سلیمہ ہاشمی نے بتایا کہ فیض کو اس قدر محنت سے بنائی گئی فلم کے یوں غائب ہونے کا آخر وقت تک دکھ تھا۔ سلیمہ اور فیض گھر نے بھی فلم کو ڈھونڈ نکالنے کی بڑی کوششیں کیں لیکن تاحال اس فلم کوئی اتہ پتہ نہیں ملا۔
’جاگو ہوا سویرا‘ بھی سنہ 1958 میں منظرِ عام پر آنے کے بعد خاصے عرصے تک کے لیے کھو گئی تھی، لیکن پھر یکایک سنہ 1977 میں لندن کے ایک گودام سے برآمد ہو گئی۔ امید پہ دنیا قائم ہے، اس لیے توقع کی جا سکتی ہے کہ ایک نہ ایک دن ’دور ہے سکھ کا گاؤں‘ بھی کہیں سے نکل آئے گی، اور فیض کے چاہنے والے اپنے محبوب فنکار کا یہ رخ بھی دیکھ سکیں گے۔
(ظفر سید)

0 comments so far,add yours