ناصر کاظمی رت جگوں کا دلدادہ، لاہور کی سڑکوں اور گلیوں میں گھومنے پھرنے کا عادی، کبوتروں کو دانہ ڈالنے، پالنے پوسنے، ان کی پٹ بیجنا سی آنکھوں پر شعر کہتے اور ان کی اداؤں پر جان و دل سے نثار ہونے والا، جانے کیوں اس کی یاد رہ رہ کر ستا رہی ہے۔
وہ پاک ٹی ہاؤس میں دوستوں کے درمیان بیٹھ کر خوش ہوتا اور رات کے پچھلے پہر تنہائی میں آوارگی اور خودکلامی کرتے ہوئے مال روڈ کی دونوں جانب کھڑی عمارتوں اور گلی کوچوں کی نیم تاریک کھڑکیوں اور بند دروازوں کے سامنے سے گزرتا تو اسے کوئی دیکھنے والا نہ ہوتا رات بھر جاگنے اور ادھوری غزل مکمل کرنے کے بعد وہ آہستہ سے شفیقہ کو آواز دیتا، بیوی نیم خوابیدہ حالت میں پوچھتی کب آئے اور سوئے کیوں نہیں؟ ناصر کاظمی سوال کا جواب دینے کی بجائے اپنی غزل کا مطلع سناتا اور اس کی مردانہ اور گھمبیر آواز فضا میں ارتعاش پیدا کرتی، بیوی کمانے کیلئے پوچھتی اور ناصر کاظمی چائے کا تقاضا کرتا،
صبح، دوپہر اور شام اپنے مکان کی بالائی چھت پر کبوتروں کی دیکھ بھال کرتا، کرشن نگر کے نیل گوں آسمان کی کھلی فضاؤں میں ان کی اڑان، ٹکڑیوں میں تقسیم ہوتے، رخ بدلے، قلابازیاں کھانے کا نظارہ کرتا، فرصت کے اوقات میں فیچر لکھتا، ریڈیو کے پروگرام کا خاکہ تیار کرتا اور ’’ہم لوگ‘ کا اداریہ لکھتا۔
انبالہ شہر میں رہتے ہوئے اس نے لڑکپن سے جوانی میں قدم رکھا۔ بچپن انگڑائیاں لے کر ڈھل رہا تھا۔ وہ مسلم ہائی سکول میں دوسرے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ پڑھنے کے علاوہ اپنے منفرد شوق رکھتا رہا، موسیقی سے دل بہلاتے، ستار کے تاروں سے نکلنے والی بے الفاظ کی شاعری پر سردھسنے اور سوزو سلام کی محافل میں شرکت کرنے اور پھر کبوتر پالنے کا جنون ناصر کاظمی کو دوسرے ہم سبق لڑکوں سے ممتاز کرتا رہا، محلے میں صرف ایک یا دو ہم مزاج دوستوں سے بے تکلفی رہی، ان میں افتخار کاظمی اور شبرّ نقوی اس کے گھر کے قریب اسی گلی میں رہتے تھے افتخار کاظمی سے اتنی گہری دوستی رہی کہ ہجرت کے بعد ناصر کاظمی لاہور میں اور افتخار کاظمی سرگودھا میں جالیے،
ستمبر65ء کو جنگ ہوئی تو ناصر کاظمی نے سرگودھا میرا شہر ترانہ لکھا جو مشہور ہؤا سرگودھا میں ڈاکٹر ارشد ڈپٹی کمشنر نے مشاعرے میں ناصر کاظمی کو بلایا، اپنے بنگلے میں اسے ٹھہرانے کا انتظام کیا لیکن ناصر کاظمی نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ وہ اپنے بچپن کے دوست افتخار کاظمی کے گھر پر رہے گا، مشاعرہ ختم ہونے پر آدھی رات کے بعد ڈاکٹر ارشد بلاک 4 لے کر گئے جہاں افتخار کاظمی کو بے تکلفی کے انداز میں کہنے لگا ابے تجھے سونے نہیں دوں گا، پان بنا پھر باتیں کریں گے۔
انبالہ شہر محلہ سادات قاضی واڑہ میں کئی بیٹھکیں مشہور تھیں جہاں دوست احباب جمع ہوتے ان میں حسن اکبر، عزوِّر امام، میر حامد علی اور کرمو پہلوان کی بیٹھک میں ہمیشہ رونق رہا کرتی، ناصر کاظمی اور افتخار کاظمی کو ستار سیکھنے اور شطرنج کھیلنے کا شوق تھا، کرمو پہلوان خوش ذوق اور خوش مزاج بزرگ تھے اور کسی زمانے میں پٹیالہ ریاست کے شاہی پہلوانوں میں شامل رہے، عالمِ پیری میں موسیقی کے رسیا ہو گئے، ناصر کاظمی اور افتخار کاظمی کرمو پہلوان سے ماضی کے قصے سنتے ان میں حسن و عشق کے واقعات سر فہرست ہوا کرتے ناصر کاظمی لڑکپن سے عاشق مزاج نظر آیا، سانولی رنگت چھریرا بدن، تیکھے نقش، بڑی آنکھیں، خوبصورت چال اور آواز میں رسیلا پن… جانے اس کی انداز تکلم نے کسے ڈس لیا اور خود ناصر کاظمی کس و جبیں اور شوخ ادا کی زلِف گرہ گیر کا اسیر ہوا کہ اس کی محبت میں اداس رہنا پسند آنے لگا،
اس کی والدہ محمدی بیگم اپنے بیٹے کو دیکھتی کہ وہ خلاؤں میں گھورتا، کبھی خود کلامی کرتا اور کبھی گم سم دکھائی دیتا وہ پوچھتی مگر وہ کیا جواب دیتا، بات ٹالنے کی خاطر وہ دیولدیر بیٹھے ہوئے کبوتر کی طرف اشارہ کرتا ’’ماں وہ کبوتر بیٹھا ہے کبوتر پکڑ لوں‘‘ وہ دبے پاؤں اوپر جا کر کبوتر پر ہاتھ ڈالتا اور نعرہ زن ہوتا ’’اماں کبوتر پکڑ لیا‘‘ ماں جانتی تھی کہ ایک تو سچ کو چھپا رہا ہے اور دوسرے جھوٹ بول رہا ہے، کبوتر اس کا اپنا ہے جو خرید کر لایا اور دیوار پر بیٹھا دیا، یوں وہ ایک طرف کبوتروں کا شوق پال کر کنگنی، باجرہ اور جھانجھروں کیلئے ماں سے پیسے لیتا رہا اور اپنے عشق پر پردہ ڈالتا رہا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس عاشقی میں عزت سادات بھی جائے اس لئے پردہ داری سے کام لیتا رہا۔
ناصر کاظمی کا ایک شوق تھا، وہ شعر کہہ کر اختر رنگین رقم کی دکان پر جاتا اور اپنے شعر کی کتابت اور حاشیہ بنوا کر اختر رنگین رقم کو کچھ پیش کرتا لیکن محلے داری اور عزیز داری گزرنے پر ایسے وضع دار لوگوں کیلئے ناصر کاظمی کے دل میں جگہ بنتی گئی، پاکستان بنا تو اختر رنگین رقم سرگودھا میں آباد ہوئے، کچھ عرصے بعد وہ بھی چل بسے، اس کی والدہ محمدی بیگم اور والد سلطان حسن بھی رخصت ہو گئے، ناصر کاظمی نے ان سب کا نوحہ لکھا اور عشق کی نامرادی کا ذکر کیا:
آ کے منزل پہ آنکھ بھر آئی
سب مزا رفتگاں نے چھین لیا
تیرا ملنا تو خیر مشعل تھا
تیرا غم بھی جہاں نے چھین لیا

ناصر کاظمی کو شاعری نے کیا دیا البتہ اس نے شاعری کو جتنا دیا اس کا احاطہ ممکن نہیں۔ اس جملے کا پہلا حصہ وہ ہے جو اس کی انتقال پر شفیقہ کاظمی نے میری طرف سے نعرایت کے وقت کہا کہ ناصر کاظمی کو شاعری نے کیا دیا، ہمیں اس کی شاعری سے کیا ملا۔ یقیناً شاعری ایسا کارِ ہنر ہے جس کا معاوضہ شاعر کا مقدر نہیں لیکن ایسا بھی نہیں
مثلاً شاعری مشرق علامہ اقبال خود معمولی حیثیت کے مالک تھے، ریلوے روڈ پر ان کی رہائش دیکھ کر ا ندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے استعمال میں آنے والی اشیاء کس معیار کی ہیں لیکن ایوان اقبال کی تعمیر دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود علامہ اقبال کے وہم و گمان میں ایسی شاندار عمارت کا تصور نہ ہوگا۔
ناصر کاظمی نے جیسی زندگی بسر کی وہ بھی ہمارے سامنے ہے ان کے احباب میں انتظار حسین، سجاد باقر رضوی، ہوش ترمذی اور دوسرے شخور سبھی اس زمانے کے شاکی اور قلم کی مزدوری کرتے نظر آئے اور بقول سجاد باقر رضوی: اے خردمند سن ہم بھی دو بھائی تھے وہ جو حاکم بنے ہم جو رسوا ہوئے وہ ادھر لعل و گوہر میں تلتے رہے ہم ادھر لعل و گوہر اگلتے رہے یہاں تو یہ کاروبارِ زرگری چل رہا ہے اور چلتا رہے گا،
ناصر کاظمی نے مجھ سے باتیں کرتے ہوئے وہ بات کہی جو میرے دل پر نقش ہے، اس نے کہا، ’’ہم شاعر ہیں ہمیں بھوکوں مرنا آتا ہے‘‘ پھر اس نے کہا ’’ہمیں اس کا غم بھی نہیں‘‘ اور سنو ’’مولائے کائنات امیر المومنین علی ابن ابی طالب نے فرمایا کہ اے خدا ہم اس تقسیم پر خوش ہیں کہ تو نے جاہلوں کو دولت اور ہمیں علم سے نوازا‘‘۔
آج ناصر کاظمی ہمارے درمیان نہیں، لیکن جسے خاک اوڑھے ایک زمانہ گزر گیا اس کی آنکھیں اور بازو اس کی قامتِ کردار اور اس کا لہجہ آج بھی باصر کاظمی اور حسن کاظمی میں اپنی آن بان دکھا رہا ہے اسی طرح اس کے جگری دوست انتظار حسین کل تک ہمارے درمیان تھے جنہیں دیکھ کر پرانا زمانہ یاد آتا رہا جب پاک ٹی ہاؤس ان کے دم قدم سے آباد تھا ناصر کاظمی نے یوں ہی تو یہ بات نہیں کہی تھی:
پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
………
اولیں قرب کی سرشاری میں
کتنے ارماں تھے جو اب یاد نہیں
کیسی ویراں ہے گزرگاہِ خیال
جب سے وہ عارض و لب یاد نہیں
یاد ہے سیر چراغاں ناصر
دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں
٭…٭…٭ -

(حسن عسکری کاظمی)


1 comments so far,Add yours