ناصر رضا کاظمی انبالہ (پنجاب) میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۷ میں تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم انبالہ میں ہوئی۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ اعلیٰ تعلیم کی تکمیل نہ ہو سکی۔ شعر گوئی کا آغاز جوانی میں ہو گیا تھا۔ شاعری کے علاوہ موسیقی سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ ناصر کاظمی، حفیظ ہوشیارپوری (۱۹۱۲ تا ۱۹۷۳) کے شاگردوں میں تھے۔
ناصر کاظمی جدید غزل کے اولین معماروں میں ہیں۔ چند مضامین لکھے اور نظمیں بھی لکھیں لیکن ان کی شناخت غزل کے حوالے سے قائم ہے جس میں کیفیت، روانی اور لہجے کی نرمی کا بڑا دخل ہے۔
پہلا مجموعہ"برگ نے" (اشاعت اول ۱۹۵۵) ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ اس میں ۱۹۴۶ - ۱۹۴۷ تک کا کلام شامل ہے۔ جس نے شائع ہوتے ہی انہیں اردو غزل کے صف اول کے شعرامیں لاکھڑا کیا۔
دوسرے دو مجموعے "دیوان" (اشاعت اول ۱۹۷۲) اور "پہلی بارش" (اشاعت اول ۱۹۷۵) ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پر مشتمل ہیں اور دراصل یہی وہ کلام ہے جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔
تیسرے مجموعہ "پہلی بارش" کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تمام غزلیں ایک ہی زمین میں ہیں۔
ناصر کاظمی کی وفات کے بعد ان کی مزید تین کتابیں منظر عام پر آئیں۔ پہلی "سُر کی چھایا" ایک طویل نظم ہے جسے خود شاعر نے کتھا کہا ہے۔ دوسرے "نشاط خواب" جس میں ریڈیو کے لیے کہی گئی نظمیں شامل ہیں۔ تیسرے کتاب نثر کی ہے "خشک چشمے کے کنارے" (اشاعت اول ۱۹۸۲) جس میں ناصر کاظمی کے مضامین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اردو کے چند بڑے شاعروں کے الگ الگ منتخبات بھی مرتب کئے جن میں میر، نظیر، ولی اور انشا سرفہرست ہیں۔
انھوں نے تین ادبی رسائل "اوراق نو"، "خیال" اور "ہمایوں" جو لاہور سے شائع ہوتے تھے، ان کی ادارت بھی کی۔ اور پھر اپنی وفات تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔
ناصر کاظمی کا شمار اردو کے صاحب اسلوب شعرا میں ہوتا ہے۔ انہوں نے میر تقی میر کے دبستان شاعری کو انتہائے کمال تک پہنچادیا۔ ناصر کاظمی نے پیروی میر کرتے ہوئے ذاتی غموں کو شعروں میں سمویا لیکن ان کا اظہار غم پورے عہد کا عکاس بن گیا۔ ناصر کے اظہار میں شدت اور کرختگی نہیں بلکہ احساس کی ایک دھیمی جھلک ہے جو روح میں اترتی محسوس ہوتی ہے اور جب ان کے اشعار سر اور تال کے ساتھ مل کر سماعتوں تک پہنچتے ہیں تو ایک خوشگوار احساس دلوں میں ہلکورے لیتا ہے
2 مارچ 1972ء کو ناصر کاظمی کا انتقال ہوگیا۔ وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں اور ان کی لوح مزار پر انہی کا یہ شعر تحریر ہے۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا

0 comments so far,add yours