ناصر
کاظمی کا بیٹا باصر کاظمی میرا سکول میں ہم جماعت تھا۔ جب تک وہ لاہور میں
رہا ھم بعد میں بھی ملتے رھے ۔ میں اس سے اکثر کہا کرتا تھا کہ انکل نے یہ
کیا لکھا ھے ، یہ بھی کوئی خیال ھے۔
"میں کپڑے بدل کر جاؤں کہاں"
اسے بھی کچھ زیادہ سمجھ نہیں تھی اس وقت، لہذا چپ رہ جاتا۔ ناصر کاظمی اکثر کپڑے بدلے بغیر کرشن نگر (اپنے گھر) سے مال روڈ پر واقع پاک ٹی ہاءوس آ جایا کرتے تھے۔ ھم نوجوانوں کو یہ ذرا عجیب لگتا تھا کیونکہ وہ بہت تفیس طنیعت کے مالک تھے۔ ایسا کرنا ان کی نفاست سے میل نہیں کھاتا تھا۔ ان کے اندر کیا چل رھا تھا تب کچھ سمجھ نہیں آیا۔ اندرونی واردات کی البتہ اب سمجھ آتی ھے اور خوب آتی ھے۔
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے
جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے
اب شہر میں اُس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جانِ غزل ہی نہیں
ایوانِ غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لیے
مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصر اب شمع جلاؤں کس کے لیے
قیصر نذیر خاور
"میں کپڑے بدل کر جاؤں کہاں"
اسے بھی کچھ زیادہ سمجھ نہیں تھی اس وقت، لہذا چپ رہ جاتا۔ ناصر کاظمی اکثر کپڑے بدلے بغیر کرشن نگر (اپنے گھر) سے مال روڈ پر واقع پاک ٹی ہاءوس آ جایا کرتے تھے۔ ھم نوجوانوں کو یہ ذرا عجیب لگتا تھا کیونکہ وہ بہت تفیس طنیعت کے مالک تھے۔ ایسا کرنا ان کی نفاست سے میل نہیں کھاتا تھا۔ ان کے اندر کیا چل رھا تھا تب کچھ سمجھ نہیں آیا۔ اندرونی واردات کی البتہ اب سمجھ آتی ھے اور خوب آتی ھے۔
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے
جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے
اب شہر میں اُس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جانِ غزل ہی نہیں
ایوانِ غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لیے
مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصر اب شمع جلاؤں کس کے لیے
قیصر نذیر خاور

0 comments so far,add yours